السبت، 11 ذو الحجة 1446| 2025/06/07
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

زرداری کی کشمیر سے غداری کو روکو اور خلافت کو قائم کرو جو برصغیر میں امن کے قیام کی واحد ضمانت ہے

 

5 فروری کا دن کشمیر کے مسلمانوں کی بھارت کے ظلم و جبر سے نجات اور اسلامی دنیا کے ساتھ مسلمانانِ کشمیر کے الحاق کے عزم کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ لیکن آج 5فروری کے موقع پر اس خطے کے مسلمان یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کا حکمران زرداری کشمیر کے متعلق امریکی منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہا ہے تاکہ بھارت کے ظلم و ستم سے نجات کے کسی بھی امکان کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ امریکی ایجنٹ مشرف نے کشمیر کے متعلق جس روڈ میپ پر بھارت کے ساتھ اتفاق کیا تھا اور اوباما حکومت نے 2009کے پالیسی ریویو میں جس کی توثیق کی ہے، یہ روڈ میپ مسلمانوں کے لیے نئے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے، کیونکہ اس میں چھوٹی چھوٹی کشمیری ریاستوں کے قیام کی بات کی گئی ہے ، جو معمولی وسائل وذرائع کی حامل ہوں گی اور بھارتی اثر و رسوخ اور شر کی خلاف ان کی کوئی حفاظت نہ ہو گی۔

 

زرداری اِسی امریکی منصوبے کے مطابق مسلسل قدم اٹھا رہا ہے، اور اُسے اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں کہ یہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے کس قدر ضرر کا باعث ہے۔ پس مارچ2008میں زرداری نے وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر کی جدوجہدٔ آزادی کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ، اگرچہ اس جائز جدوجہد کے دوران 90ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ زرداری کی اس غداری پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے پہلی مرتبہ کسی پاکستانی حکمران کا پتلا نذرِ آتش کیا۔ پھر زرداری نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور امریکہ کی خدمت گزاری کے طور پر جنوری2010ئ میں زرداری کے وزیر اعظم گیلانی نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ امریکہ کو کشمیر پر ثالثی میں بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔ تاکہ امریکہ کشمیر کے متعلق اپنے روڈ میپ کے لیے راہ ہموار کر سکے ! حتی کہ انڈین پریمئیر لیگ کے فیصلے پر زرداری حکومت کا حالیہ غم و غصہ بھی امریکی ثالثی کے لیے جواز گھڑنے کے لیے ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی کشمیری ریاستوں کے قیام کے امریکہ منصوبے کی طرف پہلی ٹھوس پیش رفت کے طور پر زرداری حکومت نے گلگت - بلتستان کے علاقے کو پہلے ہی کسی حد تک خود مختاری دے دی ہے۔ اور مشرف کی مانند زرداری نے امریکہ کے حکم پر مزید پاکستانی فوج پاکستان کی مشرقی سرحد سے قبائلی علاقوں کی طرف منتقل کر دی ہے تاکہ افواجِ پاکستان قبائلی علاقوں میں جاری امریکی جنگ میں مصروف رہیںاور یوں مقبوضہ کشمیر بلکہ ملکِ پاکستان پر بھارت کی بالادستی قائم کی جائے۔ فی الحقیقت یہ اقدامات نواز شریف کی غداری سے کسی طور کم نہیں ،جب اس نے امریکی حکم پر کارگل سے پاکستان کی افواج کو عین اُس وقت واپس بلا لیا تھا،جب وہ بھارتی افواج پر حاوی ہو چکی تھی اور کارگل پر قبضے کے ذریعے بھارت پر سٹریٹیجک برتری حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکی تھی۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

اگر زرداری امریکی منصوبے کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو گیا ، تو کشمیرکے مسلمانوں پر بھارتی ظلم و ستم کا شکنجہ مزید سخت ہوجائے گا۔ امریکہ مسلمانوں کی وحدت اور اسلامی علاقوں کے ایک دوسرے سے ضم ہونے کو روکنا چاہتا ہے ، کیونکہ یہ وحدت مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف قوت بخشے گی۔ بے شک ان چھوٹی منقسم کشمیری ریاستوں کے مسلمان کس طرح امن و تحفظ کی زندگی بسر کر پائیں گے ،جب افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسی نسبتاً بڑی ریاستوں کے مسلمان بھی ہندو ریاست کے شر ، انتشار اور خونریزی کا مسلسل سامنا کر رہے ہیں؟

 

علاوہ ازیں کشمیر سمیت برصغیر میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا،جب تک ہندوئوں کو اس خطے میں کسی بھی درجے کی اتھارٹی حاصل ہے۔ ہندو واضح طور پر اُس علاقے کے حق دار نہیں ہیں جو برطانیہ نے تقسیمِ ہند کے وقت ان کی جھولی میں ڈال دیا تھااور نہ ہی اس علاقے کے حق دار ہیں جو برطانیہ کے بعد اب امریکہ انہیںعطا کرنا چاہتا ہے۔ ہندوئوں کی حقیقت یہ ہے کہ اگر انہیں دیگر اقوام پر کسی بھی قسم کی بالادستی حاصل ہو جائے تو وہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے، خواہ یہ مسلمان ہوں یا بھارت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ظلم کا شکار اقلیتیں ہوں، جیسا کہ تامل ، سکھ وغیرہ۔ ہندومذہب، مذہبی اشرافیہ اور اچھوتوں ، ہندوئوں اور غیر ہندوئوںکے درمیان زندگی کے معاملات میں فرق کرتا ہے اور امتیازی سلوک برتتا ہے ۔ اورجمہوریت کی فطری خامیوں نے اس صورتِ حال کو مزید سنگین کر دیا ہے کیونکہ جمہوریت ہر معاملے میںاکثریت کو اقلیت پر ترجیح دیتی ہے اور اقلیت کے حقوق کو اکثریت کی خاطر قربان کردیتی ہے۔ پس دنیا کی'' سب سے بڑی جمہوریت -بھارت‘‘میں بسنے والے مسلمان تمام اقلیتوں سے زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہیں، خواہ یہ ریاستِ گجرات کے مسلمان ہوں یا آسام کے۔ اور جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے ،تو اب تک لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے یا کسی مقدمہ کے بغیر قید کیا جا چکا ہے ، ہزاروں مسلمان عورتوں کی آبروریزی کی جا چکی ہے،سینکڑوںمسلمانوں کو زندہ جلایا گیاہے یا اپاہج کیا جا چکا ہے ، سینکڑوں مساجد اور ہسپتالوں کو ملیا میٹ کیا جا چکا ہے۔ جمہوریت، آمریت، سرمایہ داریت ، کیمونزم غرض یہ کہ کفر خواہ کسی بھی قسم کا ہو ،اس کی حکمرانی کبھی بھی ظلم کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کسی بھی قانون کے ذریعے حکمرانی ظلم کا باعث بنتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾

'' اورجو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں‘‘﴿المائدہ: 45﴾

 

اور جب تک ہندو ریاست موجود ہے اور ہندوئوں کو اتھارٹی حاصل ہے کہ جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں ،امن وخوشحالی محض ایک خواب رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿مَّا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یُنَزَّلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ خَیْْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٰ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾'

'کافر خواہ اہلِ کتاب ہوں یا مشرکین، نہیں چاہتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو، جبکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا، اور اللہ فضلِ عظیم کا مالک ہے‘‘﴿البقرۃ:105﴾

 

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

صرف اور صرف یہ آپ کا دینِ اسلام ہی ہے کہ جس کے ذریعے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے برصغیر میں امن و تحفظ قائم ہو گا۔ محمد بن قاسم(رح) کے وقت سے ایک ہزار سال بعدتک اسلام کی حکمرانی برصغیر میں امن و سلامتی کی ضامن رہی ۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے برصغیر کو معاشی خوشحالی کے اُس زینے تک پہنچا دیا کہ وہ پوری دنیا کے لیے قابلِ رشک بن گیا، اور برطانیہ اس بات پر مجبور ہو گیا کہ وہ اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اس خطے پر حملہ آور ہو جائے اور پھر اس نے فخر سے اعلان کیا کہ برصغیر اس کے﴿ گرتے ہوئے﴾تاج کا نگینہ ہے۔ اور یہ اسلام ہی تھا جس نے کئی صدیوں تک اس خطے میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو بے مثال ہم آہنگی عطا کیے رکھی۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ برصغیر پر اسلام کی ہزار سالہ حکمرانی کے باوجود یہاں ہندو بدستور اکثریت میں ہیں،جواس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کا دورِ حکمرانی اُس دور میں موجود کفریہ حکومتوں سے یکسر مختلف تھا، جن میں حکمرانوں کے مذہب سے مختلف مذہب رکھنے والے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا ، سپین پر عیسائی حکمرانی اور ایشیائ پر ہلاکو خان کی جابرانہ حکمرانی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ 1857ئ کی جنگِ آزادی کے دوران انگریزوں کے خلاف ہندومسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ برطانیہ کی سامراجی سرمایہ دارانہ حکمرانی کی بانسبت وہ اسلامی حکمرانی کے تحت زیادہ بہتر ہیں۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان !

 

آپ ہی پورے برصغیر کی حکمرانی کے حق دار ہیں، اور آپ اس تبدیلی کا آغاز کرنے پر قادر ہیں جو اِس غیر مستحکم، دِگرگوں اور منتشر صورتِ حال کو بدلنے کے لیے درکار ہے۔ آپ کی فوج مسلم دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے،حتی کہ یہ حجم میں امریکہ کی فوج سے بھی بڑی ہے اور بلاشبہ آپ کی فوج امریکی فوج سے زیادہ بہادر اور نڈر ہے اوراس کے جوان جذبۂ شہادت سے سرشار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل، زرعی میدانوں، دریائوں، توانائی کے ذخائر اور معدنیات سے نوازا ہے، جو کہ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں سے زیادہ ہیں۔ اور پاکستان کے باشندے زندہ ومتحرک ہیں، جو ہر مصیبت اور چیلنج کے وقت مددونصرت کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 

آپ خلافت کے قیام پر پوری طرح قادر ہیں اور آپ کے دشمن آپ کی اس صلاحیت سے آگاہ ہیں اور آپ سے خوف زدہ ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے منسلک سینئر صحافی 'سیمور ہرش ‘نے نومبر2009میں ''غیر مستحکم پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ‘‘کے نام سے ایک وسیع الاثر آرٹیکل لکھا،جو امریکہ کے مقتدر حلقوں میں بڑے پیمانے پر گردش میں رہا ؛اس آرٹیکل میں سیمور ہرش نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی 'را‘ کے سینئر آفیسر کی یہ بات نقل کی ہے: ''ہم پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق فکر مند ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ مُلا اقتدار پر قابض ہو جائیں گے ، بلکہ ہماری فکرمندی پاکستان کی افواج میں موجود اُن سینئر افسران کے بارے میں ہے ، جو خلافت پسند ہیں...کچھ لوگ جن پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں ،وہ اسلامی فوجی قیادت کا تصور رکھتے ہیں ‘‘۔

 

پس اپنی ذمہ داری کو ادا کرو اور زرداری کواُکھاڑ کر خلافت کے قیام کے ذریعے زرداری کوکشمیر کا سودا کرنے سے روک دو،وہ خلافت جو اُمت کے وسائل کو یکجا کرے گی اور تمام تر برصغیر کو اسلام کے عدل کے سائے تلے لائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

﴿﴿عصابتان من امتی احرز ھما اﷲ من النار: عصابۃ تغزو الھند، وعصابۃ تکون مع عیسی بن مریم علیہما السلام﴾﴾
''میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ آگ سے بچائے گا؛ ایک وہ گروہ جو ہند میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوگا‘‘﴿النسائی و احمد﴾

اورابوہریرہ(رض) نے بیان کیا:

 

﴿﴿وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ﴾﴾

''رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا، اگر میں اس وقت موجود ہوا تو میں اپنا مال اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا،اگر میں قتل کیا جائو ںتو میں افضل شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگر میںزندہ واپس لوٹا تو ﴿گناہوں سے﴾پاک ہوں گا‘‘﴿النسائی، الحاکم،احمد﴾۔

Read more...

حکمرانوں کی بوکھلاہٹ - حزب التحریر کو دہشت گردی سے منسلک کرنے کی ناکام کوشش! حزب التحریر کراچی سے آٹھ ممبران کی گرفتاری کی من گھڑت خبر کی تردید کرتی ہے

حزب التحریر کی اعلیٰ فکری اور سیاسی جدوجہد اور اس کے معاشرے میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوز سے بوکھلا کر حکمرانوں نے حزب التحریر کو ایک عسکریت پسند جماعت ثابت کرنے کے لیے میڈیا میں جھوٹی خبریں شائع کروانی شروع کردی ہیں۔ ۷ مارچ ۲۰۱۰ء کو مختلف ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر کی گئی کہ کراچی میں حزب التحریر کے آٹھ اراکین کو اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ اور پھر یہی خبر پرنٹ میڈیا میں بھی گردش کروائی گئی۔ حزب حزب اس من گھڑت خبر کی تردید کرتی ہے اور امت کو باور کرانا چاہتی ہے کہ حزب التحریر کا کوئی کارکن ان دنوں کراچی سے گرفتار ہی نہیں ہوا کجائ یہ کہ اس کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا ہو۔ دراصل آج کل لاہور ہائی کورٹ میں حزب التحریرکی پابندی کے خلاف رِٹ پٹیشن زیر سماعت ہے جسے دائر کیے چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور ابھی تک حکمران حزب التحریر کے خلاف دہشت گردی پر مبنی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کے من گھڑت واقعات کو میڈیا پر اچھال کر حکومت اپنے لئے جھوٹے ثبوت تراشنا چاہتی ہے۔

اس حقیقت سے پوری دنیا واقف ہے کہ حزب التحریر 1953 سے امت میں خلافت کے قیام کے لئے فکری اور سیاسی جدوجہد کر رہی ہے اور وہ خلافت کے قیام کے لیے کسی بھی قسم کی عسکری اور فرقہ وارانہ ذرائع اختیار کرنے کو حرام گردانتی ہے۔ حزب التحریر کے اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت وزارت داخلہ کا ۲۰نومبر۲۰۰۳ وہ نوٹیفیکیشن ہے جس میں حزب التحریر پر پابندی کا اعلان تو کیا گیا لیکن پابندی کی کوئی ایک وجہ بھی پیش نہ کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے۲۰۰۴ اور پھر ۲۰۰۵ میں حزب التحریر کے اراکین کو یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ پابندی کا نوٹیفکیشن ناقص ہے کیونکہ اس میں پابندی لگانے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔

ہم ان حکمرانوںکو بتا دینا چاہتے ہیںکہ حزب اپنی فکری اور سیاسی جدوجہد جاری رکھے گی اور اس قسم کا جھوٹا میڈیا پراپیگنڈا حزب کی جدوجہد کو نہیں روک سکتا۔ نیز خلافت کے قیام سے متعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ضرور پوری ہو کر رہے گی

﴿...ثما تکون خلافۃ علی منھاج النبوہ﴾ ''..

.اورپھر خلافت قائم ہو گی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم طریقے پر‘‘ ﴿مسند احمد﴾۔

Read more...

حزب التحریر کی شدید سیا سی مہم کے باعث اوباماکا دورہ انڈونیشیا منسوخ : جب انڈونیشیا کے عوام حزب التحریر کے ساتھ مل کر اوباما کو انڈونیشیا آنے سے روک سکتے ہیں تو پاکستان کے عوام حزب کے ساتھ مل کران معمولی امریکی اہلکاروں کو کیوں نہیں؟

امریکی صلیبی صدر باراک اوباما کے دورہ انڈونیشیا کے اعلان کے بعد حزب التحریر نے اس کے خلاف بھرپور سیاسی مہم کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں حزب نے 14مارچ کو بھی ہزاروںمظاہرین کے ساتھ انڈونیشیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے ، اور اوباما کے دورہ کے موقع پر امریکی کونسلیٹ کے سامنے 5000سے زائد مظاہرین کے ساتھ احتجاجی مظاہرے کا اعلان کر رکھا تھا۔ مزید برآں حزب کی کوششوںکے باعث1000سے زائدعلمائ نے اوباما کا دورہ انڈونیشیا مسترد کر دیا۔ اس شدید عوامی ردعمل نے امت کی کافر صلیبی امریکہ سے نفرت کو اس قدر واضح کر دیا کہ اوباما کو اپنا دورہ منسوخ کرنے میں ہی اپنی عافیت نظر آئی، تاہم اس نفرت کو چھپانے کیلئے اوباما نے اپنے دورہ کی منسوخی کو ہیلتھ ریفارم بل کی منظوری کی مصروفیت سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی۔ یاد رہے کہ نہ صرف یہ دورہ پہلے بھی ایک بار تاخیر کا شکار ہو چکا ہے بلکہ اور انڈونیشیا وہ مقام ہے جہاں مسٹر اوباما نے اپنے بچپن کے چا ر سال گزارے ہیں، جس کے باعث سیکولر میڈیااور ایجنٹ حکمرانوںنے اوباما کو خوش آمدید کہنے کیلئے اس کا شدید پروپیگنڈہ بھی کر رکھا تھا۔ پاکستان کے حکمرانوں کی طرح انڈونیشیا کے غدار حکمران بھی اپنے امریکی آقاؤں کا دم بھرتے ہیں اور ان قاتلوں کو اپنی ماہانہ اور سالانہ رپورٹیں پیش کرتے رہتے ہیں تاہم انڈونیشیا کے مسلمان عوام نے حزب التحریر کے ساتھ مل کر اوباما کو انڈونیشیا میں گھسنے نہیں دیا۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے عوام حزب التحریر کی صفوں میں ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں شامل ہو کر ان امریکی وائسراؤں کا انکار کریں ، اور ان معمولی درجے کے امریکی اہلکاروں سے لے کر اوباما تک اور ان امریکی ایجنٹوں پر جو کہ حکومت اوراپوزیشن میں موجود ہیں، پاکستان کی زمین تنگ کر دیں۔

وقت آ گیا ہے کہ اہل قوت میں سے مخلص لوگ دیکھ لیں ،کہ امت اٹھ چکی ہے اور وہ امریکی غلامی سے خلافت کے قیام کے ذریعے نجات چاہتی ہے ، پس وہ حزب التحریر کو نصرت دیں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اس خطے کو صلیبیوں کاگورا قبرستان بنا دیں۔ اور اللہ کیلئے یہ ذرا بھی مشکل نہیں!!!

Read more...

پاک فوج! بلیک واٹر اور امریکی مداخلت کا خاتمہ کرو اور خلافت قائم کرنے کے لئے حزب التحریر کو نصرت دو حالیہ انتشار کی لہر ایک اور فوجی آپریشن کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی سازش ہے، حزب التحریر کے ملک گیر مظاہرے

حزب التحریر نے پشاور، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں حالیہ بم دھماکوں کی لہر کے خلاف احتجاجی مظاہرے منعقد کئے۔ لاہور اور کراچی میںیہ مظاہرے پریس کلب کے باہر جبکہ اسلام آباد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دفتر کے باہر منعقد کئے گئے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ یہ حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے کہ ہر نئے فوجی آپریشن سے قبل وہ بلیک واٹر اور امریکی ایجنسیوں کو عاش شہریوں پر بے مقصد بم دھماکے کروانے کے لئے کھلا چھوڑ دیتی ہے۔ نیز عوام کو الجھانے کے لئے بجلی، گیس، آٹا ،چینی وغیرہ کے مصنوعی بحران پیدا کر دئے جاتے ہیں۔ بم دھماکوں کا مقصد آپریشن کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا ہوتا ہے جبکہ ان مصنوعی بحرانوں کے ذریعے حکومت عوام کی توجہ دہشت گردی پر مبنی امریکی جنگ سے ہٹا کر اپنے مسائل کی طرف مبذول کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پاکستان کے عوام ایک بار پھر یک دم بم دھماکوں اور بجلی کے مصنوعی بحران کی لپیٹ میں ہیں جو کہ ایک اور فوجی آپریشن کی ''نوید‘‘ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ نے حکمرانوںکو سٹریٹیجک مذاکرات کے نام پر نئے آپریشن بارے ڈکٹیشن دینے کے لئے واشنگٹن طلب کر لیا ہے۔ امریکہ ایک عرصے سے شمالی وزیرستان پر دھاوا بولنے کے لئے دبائو ڈال رہا تھا اور حالات و واقعات اسی آپریشن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امت عراق میں امریکی کاروائیوں سے آشنا ہے اور جانتی ہے کہ امریکہ عراق کے بعد پاکستان میں بھی اسی طرز کے بم دھماکے کروا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہم امت کو ایک بار پھر خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان میں انتشار اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک امریکی فوج کو دھکے دے کر خطے سے نکالا نہیں جاتا۔ ہم افواج پاکستان میں مخلص عناصر سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب تک محض ایک خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے؟ پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف امریکہ اور ان کے ایجنٹوں کی جنگ جاری ہے تو کیا یہ تمہاری ذمہ داری نہیں کے آگے بڑھو اور اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرو؟ ہم فوج میں موجود مخلص عناصر سے مطالبہ کرتے ہیںکہ وہ امریکہ کو خطے سے نکالنے اور اسلام کے نفاذ کے لئے حزب التحریر کو مدد و نصرت فراہم کریں تاکہ خلافت قائم کر کے مسلمانوں کو دوبارہ اسی شان و شوکت سے ہمکنار کیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔

Read more...

دھماکوں کا حالیہ سلسلہ امریکی اور پاکستانی حکومتوں کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے

حزب التحریر آج آر اے بازار لاہور میں ہونے والے بم دھماکے کی مذمت کرتی ہے۔ ہر فوجی آپریشن سے قبل رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے امریکی اور پاکستانی حکومتیں مل کر بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کرتی ہیں جو آپریشن کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ یہی حکمت عملی سوات اور وزیرستان آپریشن کے دوران دیکھنے میں آئی۔ اسی حکمت عملی کا انکشاف امریکی صدر اوبامہ نے دسمبر 2009 میں ان الفاظ میں کیا تھا:

''ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد ان کی جنگ نہیں... لیکن پچھلے چند سالوں میں جب معصوم لوگ کراچی سے اسلام آباد تک قتل ہوئے... ﴿پاکستان کی﴾ رائے عامہ تبدیل ہو گئی ‘‘۔

نیز یکم فروری 2010 کو جنرل کیانی نے بھی کامیاب ملٹری آپریشن کو جن پانچ عوامل کا مرہون منت قرار دیا ان میں میڈیا کی مدد ، عوامی رائے عامہ اور امریکی جنگ کو اپنی جنگ کے طور پر قبول کرانا شامل تھے۔ پاکستانی حکومت دیکھ چکی ہے کہ 2002 سے 2004تک ہونے والے قبائلی علاقوں میں آپریشن اس لئے ناکام رہے کیونکہ انہیں عوامی حمایت حاصل نہ تھی اور نہ ہی فوج کے جوان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو تہہ تیغ کرنے کے لئے تیار تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وزیرستان میں 200 سے زائد افسروں اور جوانوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دئے تھے۔ اسی لئے امریکہ نے قبائلی علاقے میں 'بھارتی فیکٹر‘ کو داخل کرنا ضروری سمجھا تاکہ پاکستان کے عوام اور فوج یکسوئی کے ساتھ امریکی جنگ لڑ سکیں۔ دوسری طرف حکومت نے امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں اور پرائیویٹ فوج بلیک واٹر کو حکومت نے پاگل کتوں کی طرح کھلا چھوڑ دیا ہے جو جب اور جس کوچاہتے ہیں کاٹ لیتے ہیں۔ یہ بلیک واٹر ہی تھی کہ جس نے عراق میں بھی بم دھماکے کروائے اور آج پاکستان کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہا رہی ہے۔ لاہور میں چند دنوں سے جاری بم دھماکے مستقل قریب میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کی خبر دے رہے ہیں جس کے لئے امریکہ پاکستانی حکومت پر کافی عرصے سے دبائو ڈال رہا تھا۔ امریکہ عسکریت پسندوں کا بہانہ بنا کر اسلام پسند قبائلی عوام کے خلاف جنگ مسلط کر تا رہا ہے جبکہ ہر آپریشن کے بعد عسکریت پسند نئے علاقے میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر فوج ان کا ''پیچھا ‘‘کرتے ہوئے اس علاقے کو بھی روند ڈالتی ہے۔ ہم عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حکمرانوں کو قبائلی عوام پر ایک اور قیامت ڈھانے سے روکیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے امریکہ کی چاکری میں اپنے گھر کو آگ لگا دی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ عوام اور اہل طاقت عناصر حزب التحریر کے ساتھ مل کر ان غداروں کو اکھاڑ پھینکیں اور خلافت کا انعقاد کرتے ہوئے امریکہ کو اس خطے سے نکال باہر کریں۔ یہی عمل خطے میں دیر پا امن قائم کر سکتا ہے۔

Read more...

ملک میں خانہ جنگی برقرار رکھنے اور شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے لئے امریکی ایجنسیوںکا ایک اور حملہ

حزب التحریر ماڈل ٹائون لاہور میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے دفتر پر ہونے والے کار بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے جس میں دس سے زائد مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ستر سے زائد زخمی ہوئے۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ زمین سے پانی نکل آیا اور عمارت کا بیشتر حصہ زمیں بوس ہو گیا۔ فوجی بیرکوں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دفاتر اور پولیس سٹیشنوں پر حملے کروا کر امریکہ اور اس کی بدنام زمانہ ایجنسیاں خانہ جنگی کی فضائ برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں۔ میڈیا میں بلیک واٹر اور ڈائن کورپ کی سرگرمیوں کی تواتر سے خبریں چھپنے کے بعد امریکہ نے یہ بم دھماکوں کا سلسلہ چند ہفتوں کے لئے منقطع کر رکھا تھا۔ کیونکہ ہر شخص پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ پاکستان میں جگہ جگہ ہونے والے بم دھماکوں کے پیچھے امریکہ کی یہی پرا ئیویٹ فوج ہے جو تمام شہروں میں اسلحے سمیت دندناتی پھر تی ہے اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔

پاکستان میں ہر خاص و عام پاکستان میں استحکام کو امریکی انخلائ کے ساتھ مشروط کر رہا تھا۔ لیکن اب چند ہفتوں بعد جب بلیک واٹر توجہ کا مرکز نہیں رہا تو امریکہ نے ایک بار پھر سیکورٹی ایجنسیوں کو نشانہ بنا کر ساری ذمہ داری نام نہاد دہشت گردوں پر تھوپنا شروع کر دی ہے۔ نیز یہ دھماکے شمالی وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کے لئے بھی راہ ہموار کریں گے جس کے لئے پیش روفت شروع ہو چکی ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں اور اداروں کو نشانہ بنانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ ادارے اپنے حقیقی دشمنوں یعنی امریکہ اور بھار ت کے خلاف لڑنے کے بجائے اپنی بندوقوں کا رخ اپنے ہی مسلمانوں کی طرف کر دیں۔ دوسری طرف امریکہ فوجی آپریشنوں کے دوران مارٹر گولوں اور لڑاکا جہازوں سے بمباری کروا کر عام شہریوں کو بھی بھون ڈالتا ہے جس کے نتیجے میں عام شہری بھی اپنی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں نالاں ہو جاتے ہیں۔ یوں امریکہ یہ انتشار کی آگ دونوں طرف بھڑکا رہا ہے۔ ہم عوام اور سیکورٹی اداروں کو اس امریکی چال سے خبردار کرنا چاہتے ہیں اور انہیں باور کرانا چاہتے ہیںکہ آپ دونوں کا اصل دشمن امریکہ ہے اور جب تک اسے اس خطے سے ذلیل و رسوا کر کے نہیں نکالا جاتا پاکستان اور افغانستان انتشار کی آگ میں جلتے رہیں گے۔

ہم فوج میں موجود مخلص عناصر کو بھی یاد دلانا چاہتے ہیںکہ فوجی آپریشن کے ذریعے امریکہ نہ صرف آپ کو اپنی صلیبی جنگ میں جھونکنا چاہتا ہے بلکہ پاکستان کے جہادی عناصر کو افغانستان کے بجائے پاکستان میں آپ سے لڑا کر مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ کھیل کا پانسہ پلٹ دیا جائے اور خلافت قائم کرتے ہوئے 'ایف-پاک ‘ کو ان بزدل امریکی فوجیوں کا قبرستان بنا دیا جائے۔

Read more...

امریکی کوئیک ری ایکشن فورس کا قیام : 21ویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی پاکستان میں فوجیں اتار رہی ہے

امریکی کانگریس کے 2011بجٹ دستاویز کے مطابق امریکی حکومت نے 23ملین ڈالر پاکستان میں سفارت خانے اور کونسلیٹ کی حفاظت کے نام پر پاکستان میں فوج اتارنے کیلئے مختص کر رکھے ہیں ، جس کا نام ''کوئیک ری ایکشن فورس‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ فوج'' سفارت خانے سے باہر ‘‘﴿یعنی پورے پاکستان میں﴾بھی ہر طرح کی آپریشنز کرنے کی مجاز ہونگی۔ دوسری جانب امریکی سفارت خانے نے رحمان ملک کا طریقہ کار اپناتے ہوئے اس کی ''تردید‘‘ کر دی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی امریکی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار پاکستان میں بلیک واٹر، ڈائن کورپ وغیرہ کی تصدیق جبکہ امریکی سفارت خانہ اور رحمان ملک'' تردید‘‘ کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ دونوں امریکی کانگرس کے مقابلے میںپاکستانی عوام کی نفسیات سے زیادہ واقف ہونے کے باعث انھیں کنفیوژ رکھ کر دھوکا دینے میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں ؛ یقینااس تصدیق اور'' تردید ‘‘ کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے عوام امریکہ کو خظے سے نکالنے کے بارے میں یکسو نہ ہو سکیں۔

تاہم امریکہ اور اس کے حواری اس امر سے واقف نہیں کہ امت فکری طور پر بہت آگے جا چکی ہیں اور انھیں ان گھٹیا ہتھکنڈوں سے امریکہ کو اس خطے سے نکالنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ پاکستان کے ایجنٹ حکمران امریکی اونٹ کیلئے خیمے میں مسلسل جگہ خالی کرتے جا رہیں ہیں جس کے بعد امریکہ اس خیمے پر قابض ہو جائے گا کیونکہ ایک خیمے میں صرف ایک اونٹ ہی سما سکتا ہے۔ امریکہ پہلے ہی پاکستان میں بلیک واٹر، ڈائن کورپ اور CIAکی بڑی کھیپ تعینات کر چکا ہے جو دن دہاڑے مختلف شہروں میں آپریشنز کر کے پاکستان کے شہریوں کو قتل ،اغوا اور بم دھماکے کررہے ہیں، ڈرون حملوں کے ذریعے شمالی وزیرستان خصوصاً اور جنوبی عموماً اس کے قبضے میں ہے؛ کئی ہوائی اڈوں اور تربیلا وغیرہ میں بیسز قائم کی جا چکی ہیں اور ہر دن امریکی ایسٹ انڈیا کمپنی کا منحوس شکنجا پاکستان کو گرفت میں لے رہا ہے۔ اس پر مستزادامریکی کوئیک ری ایکشن فورس کا قیام پاکستان کی خودمختاری کو مکمل طور پر امریکہ کے حوالے کردینے کی کوششوں کی طرف ایک اور قدم ہے۔ دور آمریت میں پاکستان کی زمینی اور فضائی راستوں وغیرہ کا سودا کیا گیا جبکہ جمہوری دور میں پورا ملک ہی امریکی کے حوالے کیا جارہا ہے۔ حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص عناصر سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے جلد از جلد حزب التحریر کو مددونصرت فراہم کریں اور پاکستان کو دوسرے عراق میں تبدیل ہونے سے بچائیںکیونکہ مزید تاخیر پوری امت کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

حزب التحریر امت سے بھی اپیل کرتی ہیں کہ وہ حزب کی صفوں میں شامل ہو جائیں تاکہ امریکہ کو اس خطے سے نکالنے کیلئے ایک فیصلہ کن تحریک شروع کی جا سکے۔ انشاء اللہ کفار کے عزائم خاک میں مل جائیں گے اور محمدعربی صلّی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ضرور پورا ہوگا

﴿ثما تکون خلافہ علی منھاج نبوہ﴾

اورپھر خلافت قائم ہو گی نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم طریقے پر﴿مسند احمد﴾۔

Read more...

ایجنٹ حکمران 'ویلنٹائن ڈے ‘ کا کفر تہوار نوجوان نسل پر زبردستی ٹھونس رہے ہیں

مشرف کے قدموں پر چلتے ہوئے ''روشن خیال جمہوری حکمران‘‘مغربی کفریہ تہوار ویلنٹائن ڈے زبردستی پاکستان کے مسلمان نوجوانوں پر ٹھونس رہے ہیں۔ اور اس سلسلے میں مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں، مغرب زدہ ریسٹورنٹس اور میڈیا کو مرد و زن کے آزاداختلاط اور بے راہ روی پھیلانے کے اس پروگرام کو پروموٹ کرنے کا کھلا لائسنس جاری کر دیا گیا ہے، اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کو انتہا پسندی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ آج جبکہ ہمارے بیٹے اور بیٹیاں واضح طور پر اس تہوار کو بحیثیت مجموعی مسترد کر رہے ہیں تو حکومت کیوں مغرب زدہ حقیر اقلیت کو ہمارے نوجوانوں کے سامنے آئیڈیل بنا کر پیش کر رہی ہے؟ ویلنٹائن ڈے کی تاریخ دیکھی جائے یا اس سے قطع نظر کیا جائے، یہ واضح ہے کہ اس تہوار کا مسلمانوں کی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں اور اسلام شادی کے ادارے کے ذریعے ہی مرد و زن کے تعلق کو استوار کرتا ہے توپھر اس اخلاق باختہ تہوار کو سرکاری ٹی وی اور سرکاری ریڈیو سے لے کر یونیورسٹیوں تک میں منانے کیلئے حکمران کیا دلیل رکھتے ہیں؟ آج مغربی ممالک میںویلنٹائن ڈے پر سٹوڈنٹ یونین طالب علموں میں مانع حمل اشیائ مفت تقسیم کرتی ہیں، شراب سستی کر دی جاتی ہے اور جنسی آزادی کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔ یہی وہ معاشرت ہے جو ہمارے حکمران مغرب کی اندھی تقلید میں پاکستان میں عام کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنسی بے راہ روی کے ثمرات آج ہم مغرب میں دیکھ سکتے ہیں جہاں بن باپ کے بچے منشیات، گینگز اور جرائم میں ملوث ہیں، ایڈز گھن کی طرح اس معاشرے کو چاٹ رہا ہے اور ہر چند منٹ میں ایک لڑکی کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر آخرت کا عذاب ہے جو ان شیطان کے پیروکاروں کا منتظر ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

﴿ولا تقربوا الزنی ِانًە كان فاحشة وساء سبیلا﴾

'' اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو ، بے شک یہ انتہائی فحش اور برا عمل ہے اور﴿برائیوں کا﴾ راستہ‘‘ ﴿بنی اسرائیل : 32﴾

چنانچہ ہر وہ عمل جو زنا کی طرف لے جاتا ہو وہ بھی اس آیت کی رو سے حرام ہے۔ ویلنٹائن ڈے اور اس جیسے دیگر تہوار معاشرے کو بے راہ روی کے گڑھے کے دھانے تک پہنچانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ہم تمام مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیںکہ وہ حکومت کے ایما پر ہونے والے اس کفر تہوار کا بائیکاٹ کریں اور اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ حزب التحریرحکومت کی جانب سے نوجوانوں پر اس ' کاری وار ‘ کی شدید مذمت کرتی ہے اور حکمرانوں کو خبردار کرتی ہے کہ امت دن بدن اسلام کے قریب آ رہی ہے اور ان گھٹیا ہتھکنڈوں کے ذریعے ان کو اسلام سے دور کرنے کی تمام تر حکومتی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ یہ امت جلد خلافت قائم کر کے اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے والی ہے جس کے بعد یہ حکمران اور ان کے آقا ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ یقیناًوہ دن ان حکمرانوں اور ان کے آقاؤں پر بہت بھاری ہو گا۔

Read more...

حکمرانو! اپنی سیاہ کاریوں کو چھپانے کے لئے اسلام پر کیچڑ مت اچھالو

بدنام زمانہ این آر او (NRO) کو میثاق مدینہ سے جوڑنا توہین اسلام ہی نہیں بلکہ توہین رسالت بھی ہے۔ حکمران بتائیں کہ میثاق مدینہ میں کرپشن کے کون سے مقدمات معاف کرائے گئے تھے؟ کن صحابہ(رض) کے قتل معاف کئے گئے تھے؟ کن کی لوٹی ہوی دولت کو حلال قرار دیا گیا تھا؟ حکمران اپنے منہ کی کالک چھپانے کے لئے اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی گستاخانہ جسارت نہ کریں۔ حکمران اگر مثیاق مدینہ کے بارے میں جہالت کا شکار ہیں تو کم ازکم عوام کو اس کے بارے میں گمراہ نہ کریں۔ میثاق مدینہ وہ قانونی دستاویز تھی جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے نومولود اسلامی ریاست کی حیثیت کو منوایا تھا۔ اس قانونی دستاویز نے درحقیقت مسلمانوں اور کافر یہودیوں کے مابین اسلامی احکامات کے مطابق تعلقات استوار کئے۔ میثاق مدینہ کی ایک شق مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہونے والے تنازعہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلے کا حق تفویض کرتی ہے اور اسے قبول کر کے مدینہ کے یہودیوں نے اسلامی ریاست کی بالادستی اور رِٹ کو قبول کیا۔ یہی نہیں بلکہ ان یہودیوں کو اس شرط پر امان دی گئی کہ وہ کسی بھی جارح قوت کا ساتھ نہ دیں گے۔ کیا یہ شق یہودیوں کو ریاست کی مطیع کرنے کے لئے کافی نہ تھی؟ جنگ خندق میں اسی شق کی خلاف ورزی اور قریش کے ساتھ سازباز کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے تمام مردوں کو ذبح کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو لونڈیاں اور غلام بنا لیا۔ کیا پھر بھی کوئی اس قانونی دستاویز کو سمجھوتہ یا مفاہمت کا نام دے سکتا ہے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ریاست کی بالادستی کو یقینی بنانے اور یہودیوں کو مطیع کرنے والا قانونی دستاویزتھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاندار سیاسی بصیرت اور بلند پایہ حکومتی تدبر کا نتیجہ تھا جس نے یہودیوں کو ان قوانین میں جکڑ کر اسلامی ریاست کے خلاف استعمال ہونے سے روک دیا۔ ایسے میں یہ جاہل حکمران کس طرح میثاق مدینہ کو اپنی کرپشن چھپانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ حکمران اسی رستے پر چل رہے ہیں جس پر ان سے قبل یہودی کاربند تھے ۔ یہودی اپنی سیاہ کاریوں کو چھپانے کے لئے اپنے انبیائ کو تہمت کا نشانہ بناتے تھے اور آج یہ حکمران اپنے گھٹیا اعمال کو چھپانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھال رہے ہیں ۔ ہم حکمرانوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنی حد میں رہیں اور توہین اسلام اور توہین رسالت کی جسارت نہ کریں ورنہ عوام ان کو گربیان سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیں گے۔ حکمران یاد رکھیں کے خلافت کا قیام دور نہیں جب انہیں اس دنیا میں بھی اپنے ظلم کا خمیازہ بھگتنا ہوگا اور آخرت کا عذات تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

Read more...

یوم کشمیر کے سلسلے میں حزب التحریر کے ملک بھر میں مظاہرے ''امن ‘‘ کی آڑ میں حکمرانوں کو کشمیر سے دستبردار ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائیگی

حکمران مشرف کی طرح ایک بار پھر ''امن‘‘ کے نام پر کشمیر کا سودا کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ سیز فائر ہی تھا جس نے بھارت کو لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کا موقع فراہم کیا۔ پھر رنگ برنگے فارمولے دے کر مشرف نے کشمیری عوام کو یہ تأثر دیا کہ پاکستان کے عوام کو الحاق کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ کشمیریوں کو تنہا چھوڑ کر ہندو بنیے کے ساتھ ہنی مون منانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ پاک بھارت مذاکرات کا مقصد اس امریکی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے جس کے تحت امریکہ جموں و کشمیر کی ریاست کو چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ گلگت - بلتستان کو دی جانیوالے خودمختاری اس سلسلے کی ایک اہم پیش رفت ہے۔ امریکہ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے بجائے دفن کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان اور بھارت کو چین کے خلاف بلاک کے طور پر استعمال کر سکے۔ یہ بلاک اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کشمیر اور سیا چن سمیت دیگر تصفیہ طلب مسائل دفن نہ کر دئے جائیں۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر آئے یا سلطان ِجمہور امریکہ ان دونوں کو استعمال کر کے عوام کی جان اور مال سے کھیلتا رہتا ہے۔ حکمران جان لیں کہ جب تک حزب التحریر موجود ہے وہ حکمرانوں کو کشمیر پر غداری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانا شرعاً فرض ہے اور اس کا واحد طریقہ ایک منظم جہاد ہے۔ یہ منظم جہاد فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے اور پاکستان کی فوج اس کی مکمل استطاعت رکھتی ہے کہ وہ کشمیر کو بذریعہ جہاد حاصل کر لے۔ کمی سیاسی جرأت و فیصلے کرنے کی صلاحیت(politicial-will) کی ہے۔ کشمیر کا واحد حل ان ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل کرتے ہوئے خلافت قائم کرنے اور پھر افواج کے ذریعے جہا دکرنے میں مضمر ہے۔ خلافت بہت جلد پاکستان سے وسط ایشیائ تک پھیل جائیگی ایسے میں صرف کشمیر کے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ بھارت میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کو ہندو بنیے سے آزاد کرانا کچھ بھی دشوار نہ ہوگا۔ انشاء اللہ!

 

حزب التحریر نے آج 'یوم کشمیر‘ کے موقعے پر لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں مظاہرے کئے۔ ان مظاہروں کا مقصد نہ صرف کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا بلکہ پاکستان کے عوام اور خصوصاً فوج کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا تھا۔ مظاہرین نے کتبے اور بینر اٹھا رکھے تھے جس پر نعرے تحریر تھے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے خلافت کے قیام اور جہاد کے ذریعے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر زور دیا۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک