الأحد، 13 ربيع الثاني 1447| 2025/10/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ایران کی حزب کا غیر مسلح کرنا اور لبنانی حکام کا کردار!

 

(ترجمہ)

 

27 نومبر 2024ء کو یہودی وجود اور لبنانی اتھارٹی کے درمیان براہِ راست امریکی نگرانی میں طے پانے والا جنگ بندی کا معاہدہ دراصل ایران کی حزب اور لبنان میں فلسطینی گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے سیاسی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ کی طرف سے "امن" کی خواہش کے تحت نہیں تھا، بلکہ یہودی وجود کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہے، تاکہ مسلمانوں کے پاس لڑنے کی جو معمولی سی صلاحیت باقی ہے، خاص طور پر "طوفان الاقصىٰ" کے واقعات کے بعد، اس کا بھی خاتمہ کر دیا جائے۔ یہ معاہدہ دراصل ایک اسٹریٹجک سکیورٹی ڈیل کا حصہ ہے جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے تاکہ خطے کے حالات کو اپنے آئندہ مفادات کے مطابق دوبارہ ترتیب دیا جا سکے، جیسے ماضی کے برسوں میں حالات اس کے مفادات کے مطابق رہے ہیں۔ اصل میں یہ ایک "امریکی کارڈ" ہے جسے لبنانی حکام کے ذریعے نافذ کروایا جا رہا ہے، جیسا کہ اس کے صدر نے 8 اگست 2025ء کو العربیہ الحدث ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "امریکی کارڈ پر عمل درآمد کے لیے شام اور اسرائیل کی منظوری درکار ہے، اور اس کے لیے امریکی و فرانسیسی ضمانتیں ضروری ہیں"۔

 

یہ امریکی کارڈ اس بات کی وضاحت کرتا ہے، جیسا کہ امریکی ایلچی ٹام باراک نے صراحت سے بیان کیا ہے، کہ ایران کی حزب کو جو طویل عرصے سے لبنان، شام اور دیگر جگہوں پر امریکی پالیسی کے تحت ایران کی خدمت کرتی رہی ہے، اسے طاقت کے توازن میں دوبارہ شامل کیا جائے اور اسے ایک سیاسی جماعت میں تبدیل کر کے اس کے بھاری ہتھیاروں سے محروم کر دیا جائے۔ یہ امریکہ کے علاقائی مفادات اور خطے کے لیے اس کے ویژن کے عین مطابق ہے، جس کا مقصد یہودی وجود کا تحفظ کرنا ہے، اور اسی یہودی وجود کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنا ہے، یعنی اسے خطے میں اس طرح ضم کر دیا جائے کہ وہ وہاں ایک 'فطری' وجود کی طرح معلوم ہو نہ کہ مسلمانوں کی زمین کا قابض حالانکہ مسلمانوں کے حقوق کو چھینا نہیں جا سکتا، چاہے کتنا ہی وقت گزر جائے، قبضہ کتنا ہی طویل ہو جائے، یا چاہے بڑی طاقتیں یا مسلم ممالک کے کٹھ پتلی حکمران ہی اسے تسلیم کیوں نہ کر لیں۔

 

جو بھی ذی شعور جنگ بندی کے معاہدے کا جائزہ لے تو وہ جان لے گا کہ اس معاہدہ میں لبنان میں ایران کی حزب کے فوری طور پر غیر مسلح ہونے کی صراحت نہیں کی گئی، بلکہ اس میں ایسی شقیں شامل کی گئیں جو تدریجی طور پر اس کی راہ ہموار کرتی ہیں، جن میں دریائے لیتانی کے جنوب میں اسلحہ صرف لبنانی ریاست کے ہاتھ میں رکھنے کی شرط بھی شامل ہے۔ جو کوئی اس امر کا جائزہ لے کہ ہتھیاروں کا انحصار ریاست کے پاس رکھنے کے معاملے پر بات چیت کے لیے کابینہ کا اجلاس آٹھ ماہ سے زائد عرصے بعد بلایا گیا ہے، اور اس دوران یہودی وجود نے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے لیتانی کے جنوب کے تمام نکات سے انخلا نہیں کیا، بلکہ پورے لبنانی علاقے میں لوگوں پر حملے بھی کیے... تو وہ یہ دیکھے گا کہ یہود دراصل لبنان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان داخلی تقسیم کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے عوام کے مختلف طبقات کے درمیان اختلافات اور تصادم کو جنم دیا جا سکے۔

 

لہٰذا یہ بات لبنان کے عوام کو عمومی طور پر، اور مسلمانوں کو خاص طور پر، واضح ہونی چاہیے کہ :

 

1- یہودی وجود سے جنگ کرنے کے لیے مسلمانوں کا عام طور پر ہتھیاروں سے لیس ہونا سب سے پہلے ایک اسلامی مسئلہ ہے۔ اس کا فیصلہ صرف اسلام کے مطابق ہونا چاہیے، نہ کہ امریکہ، یہودیوں یا کھوکھلی اقوام متحدہ کی نمائندگی کرنے والے عالمی قانون کے پاس۔ اور اس میں فرقہ وارانہ یا مسلکی پہلو ہرگز شامل نہیں ہونے چاہیٔیں۔

 

2- امت پر لازم ہے کہ وہ اہلِ قوت میں موجود اپنے بیٹوں کواس سر زمین کو نجس یہود سے پاک کرنے اور مسلمانوں کے خلاف ان کے قتل عام کو روکنے کے فرض کو پورا کرنے کے لیے متحرک کرے۔ اس فریم ورک سے باہر کسی بھی ہتھیار کا استعمال کرنا، خاص طور پر جب وہ مسلمانوں کے خلاف ہو جیسا کہ لبنان اور شام میں دیکھا گیا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں اور یہ اللہ، اس کے رسول ﷺ، دین اور مسلمانوں کے ساتھ غداری میں شمار ہوتا ہے۔

 

3- اگر مسلم ممالک کے حکمران افواج کو اجازت نہیں  دیتے کہ وہ غزہ اور فلسطین میں مسلمانوں کو ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے حرکت کریں، تو ایسے میں افواج پر لازم ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کریں جو خلافت کے قیام کی پکار دے رہے ہیں اور وہ حزب التحریر کے شباب ہیں جو انہی کے درمیان موجود ہیں اور افواج کو چاہئے کہ ان کو نصرۃ (مادی مدد) دیں؛ یہی اس وقت کا واجب فریضہ ہے۔ کیونکہ یہ بہرحال سب پر واضح ہو چکا ہے کہ اس عمومی فساد وتباہی کا مقابلہ خلافت کے سوا کوئی نہ کرے گا، یہ صرف ریاستِ خلافت ہی ہو گی جو یہودی وجود کا خاتمہ کرے گی اور ان تمام رابطوں کو کاٹ دے گی جو اسے طاقت، ظلم اور جرائم کی سپلائی کرتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے قیام کی راہ ہموار فرما رہا ہے تاکہ یہ خلافت اپنا عظیم کردار ادا کر سکے، اور اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کی بشارت کو پورا فرمائے گا۔ بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حتَّى تُقاتِلُوا اليَهُودَ، حتَّى يَقُولَ الحَجَرُ وراءَهُ اليَهُودِيُّ: يا مُسْلِمُ، هذا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ»

 

”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک  کہ تم یہودیوں سے جنگ  نہ کر لو گے، یہاں تک کہ وہ پتھر بھی جس کے پیچھے یہودی چھپا ہو گا بول اٹھے گا: اے مسلمان! میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہے، آؤ اور اسے قتل کر دو“۔

 

4- ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ یہودیوں کے ساتھ امن قائم کریں، خاص طور پر اس وقت جب وہ مسلمانوں کے خلاف بدترین اور سنگین وحشیانہ جرائم کر رہے ہیں، اور غزہ کا منظر سب کے ذہنوں میں تازہ اور واضح ہے۔ اور اس معاہدہ کا فطری طور پر ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے صرف اس "فاتح" کا ایک  امن ہوگا جو اپنی شرائط مسلمانوں پر تھوپ دے گا، یعنی وہ لوگ جو ہار مان چکے ہیں انہیں انہی شرائط کو قبول کرنا پڑے گا۔

 

5- حکومت کے اس فیصلے کے جواب میں کہ ریاست ہی ہتھیار رکھنے کا اختیار رکھتی ہے، ایران کی حزب اور اس کے اتحادیوں نے جو اقدام کیا یعنی طاقت کے منطق کو بروئے کار لاکر اور بار بار غیر مناسب طریقے سے سڑکوں کا استعمال کر کے ردعمل ظاہر کیا، لیکن کوئی حقیقی سیاسی قدم نہیں اٹھایا، جیسے کہ حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا یا ان کے نمائندوں کا استعفیٰ دینا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ اصل میں ہتھیاروں کا نہیں ہے بلکہ آنے والے دور میں اقتدار کے حصے پر سودے بازی اور مذاکرات کا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس سے تمام لبنانیوں کو باخبر رہنا چاہیے تاکہ وہ ایک فریق یا دوسرے فریق کی اقتدار کی خواہشات کا شکار نہ ہو جائیں، خاص طور پر ایک ایسے سیاسی منظرنامے میں جو 2005ء سے بار بار دہرایا جا رہا ہے اور بیزار کن ہو چکا ہے۔

 

6- جو لوگ اپنے آپ کو "اقلیتیں" کہلانے پر راضی ہیں، انہیں چاہیے کہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کے مسائل میں ان کا ساتھ دیں، نہ کہ ان کے دشمنوں کی صفوں میں شامل ہو جائیں۔ اسلام نے انہیں عزت دی ہے کہ انہیں اسلامی ریاست کا رعایا بنایا، (جہاں وہ مسلمانوں کی طرح انصاف کے حق دار ہیں اور انہی قوانین کے ماتحت ہیں)۔ اسلام نے انہیں کبھی "اقلیتیں" کہنا قبول نہیں کیا جیسا کہ مغرب نے انہیں کہا ہے۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے سے انکار کریں گے تو ان کا فیصلہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسا ان کا ہوگا جن سے وہ امت کے خلاف مدد طلب کرتے ہیں۔

 

آخر میں، ہم لبنان کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہر اس سازش کو رد کریں جس کا مقصد غاصب یہودی وجود کو مضبوط کرنا، امت کی باقی ماندہ طاقت کو ختم کرنا اور اللہ کے حکم کے نفاذ یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے راستے کو روکنا ہو۔ اور ان کے دلوں میں یہ بات قطعی یقین ہو کہ اس تکلیف دہ حالت کا ہر پہلو صرف اس وقت حل ہوگا جب نبوت کے نقشِ قدم پر دوسری خلافت راشدہ قائم ہوگی، جو مسلم علاقوں کو یکجا کرے گی اور قابضین سے مقبوضہ علاقے آزاد کروائے گی۔ لہٰذا آپ سب کو ہمارے ساتھ مل کر وہ خلافت قائم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے جو ہتھیاروں کو ایک ہی رایہ (جھنڈے) تلے جمع کر دے: وہ رایہ جس پر لکھا ہو «لا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ» اور نعرہ ہو

 

﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ

تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو“،

 

خلافت تو یقیناً آیا ہی چاہتی ہے  اور اس کا آنا ناگزیر ہے، کیونکہ یہ اس جبر اور تسلط کے بعد امت کے سیاسی مراحل کی آخری کڑی ہے، جیسا کہ رسولِ اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرمایا:

 

«تكونُ النُّبُوَّةُ فيكم ما شاء اللهُ أن تكونَ، ثم يَرْفَعُها اللهُ تعالى، ثم تكونُ خلافةٌ على مِنهاجِ النُّبُوَّةِ ما شاء اللهُ أن تكونَ، ثم يَرْفَعُها اللهُ تعالى، ثم تكونُ مُلْكاً عاضّاً، فتكونُ ما شاء اللهُ أن تكونَ، ثم يَرْفَعُها اللهُ تعالى، ثم تكونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فيكونُ ما شاء اللهُ أن يكونَ، ثم يَرْفَعُها اللهُ تعالى، ثم تكونُ خلافةً على مِنهاجِ نُبُوَّةٍ»

 

ثم سكت ﷺ ”تم میں اُس وقت تک نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ نبوت رہے،پھر اللہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی،تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر موروثی حکمرانی کا دور ہوگا، تو وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا، پھرجبرو استبداد والی حکومت ہوگی، تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر وہ اسے اُٹھا لے گا جب وہ چاہے گا، پھر نبوت کے نقشِ قدم پر (دوبارہ) خلافت ہوگی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے“۔

 

پس تم اس کے سپاہیوں اور گواہوں میں شامل ہو جاؤ، نہ کہ اس کے دشمنوں کے آلۂ کار بنو۔

 

16 صفر 1447 ہجری                                                                                   حزب التحرير

 

بمطابق 10 اگست 2025 عیسوی                                                                          ولایہ لبنان

 

 

ہجری تاریخ :16 من صـفر الخير 1447هـ
عیسوی تاریخ : اتوار, 10 اگست 2025م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک