بسم الله الرحمن الرحيم
سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لوازم (۳)
سیاسی فہم میں نقشے کا کردار
(ترجمہ)
تحریر: لقمان حرزالله- فلسطين
https://www.al-waie.org/archives/article/19891
یہ قول بالکل صحیح ہے کہ جو سیاست دان نقشے کو نہیں جانتا وہ سیاست نہیں جانتا؛ کیونکہ نقشہ اور اس کا علم سیاسی فہم میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
نقشے سے متعلق معلومات صرف اس ملک کے محلِ وقوع تک محدود نہیں جس میں کوئی خاص واقعہ رونما ہواہو، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر، اس ملک کی نقشے پر پوزیشن، جغرافیائی ساخت، حدود کی نوعیت، بحری رابطہ، اہم جغرافیائی خصوصیات، آبادی کا ڈھانچہ (جیسے تعداد، کثافت، لوگوں کی فطری صفات)، نیز اس ملک کی توانائی اور ٹیکنالوجی پر دستیابی کو سمجھنا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی ریاست کے محلِ وقوع سے متعلق سیاسی خصوصیات اور اسٹریٹیجک خصوصیات کے مابین ایک باہمی ربط پایا جاتا ہے۔ سیاسی خصوصیات کسی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر نمایاں مقام دلانے میں مدد دیتی ہیں، اور سیاسی تجزیہ کار کو اس ریاست سے متعلقہ سیاسی امور کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں؛ جبکہ نقشے پر ریاست کے اسٹریٹیجک محلِ وقوع کو سمجھنا، عسکری تجزیے اور ریاست کی فوجی پوزیشن کو مؤثر بنانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ باہمی ربط اس لیے ہے کیونکہ کسی بھی ریاست کی سیاسی طاقت اس کی عسکری طاقت سے گہری طور پر منسلک ہوتی ہے۔
کسی ریاست کے محلِ وقوع کو سمجھنے کے لیے کئی پہلوؤں کا ادراک ضروری ہے؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آیا وہ ریاست ایک "برّی ریاست" (Continental State) ہے، یا "بحری ریاست" (Maritime State)، یا دونوں اوصاف کی حامل ہے۔ برّی ریاست وہ ہوتی ہے جس کا جغرافیائی محل وقوع خشکی کے اندر ہوتا ہے، یعنی جس کی سرحدیں خشکی سے گھری ہوئی ہوں اور اس کا کوئی بحری راستہ نہ ہو۔ بحری ریاست وہ ہے جو سمندر میں واقع ہو، یعنی جس کی سرحدیں سمندر یا بحر سے متصل ہوں۔ اور جہاں تک ان ریاستوں کا تعلق ہے جو دونوں صفات کی حامل ہوتی ہیں، تو یہ وہ ریاستیں ہوتی ہیں جن کے پاس ایک بڑا برّی رقبہ بھی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ سمندروں یا بحیروں تک کھلی رسائی بھی ہوتی ہے۔
برّی ریاست کی قوت ایک "برّی قوت" ہوتی ہے، یعنی اس کی طاقت خشکی سے جڑے ہوئے عناصر سے وابستہ ہوتی ہے، جیسے کہ زمین کی ساخت ، نقل و حمل کے زمینی راستے، تجارت، اور بری فوجی طاقت۔ جبکہ بحری ریاست کی قوت "بحری قوت" کہلاتی ہے، جو سمندری راستوں کے کھلے پن، بحری بیڑوں کی نقل و حمل اور جنگی صلاحیت، تجارت کے وسیع افق، اور دیگر اقوام سے رابطے کی وسعت پر مبنی ہوتی ہے۔ لہٰذا برّی ریاست بحری طاقت سے محروم ہوتی ہے، اور اس کی عالمی سطح پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت بحری ریاستوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ البتہ وہ ریاستیں جو برّی اور بحری دونوں اوصاف رکھتی ہیں یعنی جن کی زمین بھی وسیع ہو اور سمندر سے بھی ان کا رابطہ ہو ، توان کے لیے عالمی سطح پر اعلیٰ مقام حاصل کرنا نسبتاً زیادہ ممکن ہوتا ہے۔
برّی ریاستوں میں وہ ریاستیں شامل ہیں جو براعظموں کے مراکز میں واقع ہیں جیسے افغانستان، چاڈ، نائجر، بولیویا، اور پیراگوئے۔ اور بحری ریاستوں کی مثال برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، فلپائن، اور انڈونیشیا ہیں۔ اور وہ ریاستیں جو دونوں خصوصیات رکھتی ہیں ان کی مثال امریکہ، اسپین، ترکی، ہندوستان، مصر، لیبیا، الجزائر، یمن، بلاد الشام، ایران، پاکستان، فرانس، اٹلی، جرمنی، اور چین ہیں۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے تو اس کا زمینی حصہ بڑا ہے،مگر اس کا سمندری رابطہ برفانی پانیوں سے ہے، جس سے سمندر تک اس کی رسائی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ اسی لیے روس نے ہمیشہ اپنی تاریخ میں گرم پانیوں تک رسائی کے لیے زبردست کوششیں کی ہیں، اور آج بھی کر رہا ہے، تاکہ اسے سمندری جہت حاصل ہو سکے۔
کسی ریاست کا نقشے پر محلِ وقوع آج بھی اس کی عالمی حیثیت کے تعین میں ایک فیصلہ کن عنصر ہے، خاص طور پر اس کی بیرونی دنیا سے جڑنے کی صلاحیت کے اعتبار سے، یا اس کے بین الاقوامی رابطوں میں استعمال ہونے والے راستوں کے اہم حصوں پر واقع ہونے کے لحاظ سے۔ البتہ تمام بحری ریاستیں یکساں نہیں ہوتیں؛ وہ ریاستیں جو اہم جغرافیائی عناصر سے جڑی ہوتی ہیں، عالمی سطح پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کی اہل ہوتی ہیں۔ ان اہم جغرافیائی عناصر میں شامل ہیں: جزائر، آبنائیں، برزخ (زمین کی پتلی پٹی جو دو پانیوں کو ملاتی ہے)، اور وہ مقامات جو بین الاقوامی نقل و حمل کی گزرگاہوں پر واقع ہوتے ہیں۔
جزیرے کئی حوالوں سے بہت زیادہ اہمیت کتت حامل ہیں؛ اگر کسی ریاست کی سرحدیں کسی اہم علاقے میں جزیروں کے ایک مجموعے (آرکی پیلاگو) پر محیط ہوں، اور وہ اپنے ارد گرد کے سمندر پر قابض ہو، تو اس کا عالمی وزن ہوتا ہے۔ اسی لیے جاپان نے بحر الکاہل پر قابض ہونے کی کوشش کی، اور شاید اس کے "پرل ہاربر" کی بندرگاہ پر حملے کا مقصد بحر الکاہل کے علاقے پر قبضے کرنا تھا، کیونکہ اگر وہ ایسا کر پاتا تو آسانی سے صفِ اول کی ریاست کا مقام حاصل کر سکتا تھا۔اگر جزیرے تجارتی شاہراہوں پر واقع نہ بھی ہوں، تب بھی اگر ان کا محلِ وقوع ایسی پوزیشن رکھتا ہو جس سے وہ دیگر ریاستوں پر اثر انداز ہو سکتے ہوں، تو انہیں فوجی اڈوں کے طور پر قابو میں لایا جاتا ہے—جیسے جزائر سلیمان، جو آسٹریلیا کے شمال مشرق میں واقع ہیں، یا سقطری جزائر، جو یمن کے جنوب اور قرنِ افریقی کے سامنے واقع ہیں۔ جزائر کی اس تقسیم میں وہ خطے بھی شامل ہیں جو "نیم جزیرہ" (شبه جزیره) کہلاتے ہیں، جیسے کریمیا کا جزیرہ نما۔
بین الاقوامی سمندری نقل و حمل کی راہیں عموماً کھلے سمندروں میں گزرتی ہیں، اور اگر کسی وجہ سے راستہ تبدیل کرنا پڑے، تو ایسا کرنا اصولی طور پر دشوار نہیں ہوتا۔ لیکن جب نقل و حمل کے راستے آبناؤں سے گزرتے ہیں تو ان آبناؤں کی حیثیت ناگزیر گذرگاہوں کی ہو جاتی ہے، کیونکہ اکثر اوقات راستہ انہی تنگ گزرگاہوں تک محدود ہوتا ہے۔ برطانیہ کا جبرالٹر اور باب المندب پر قبضہ اس وقت اس کے عالمی اثر و رسوخ کے آلات میں سے ایک بن گیا جب وہ دنیا کی پہلی ریاست تھی۔ آبنائے تائیوان جس سے سالانہ 500,000 سمندری تجارتی سفر گزرتے ہیں (الشرق الأوسط، 21/8/2023)، امریکہ نے اسی کو چین پر اثراندازی اور اُس سے ٹکراؤ کا میدان بنایا، اور تائیوان کی حکومتی قیادت کو اپنی طرف مائل کر کے وہاں اپنی گرفت مضبوط کی۔ آبنائے باسفورس نے استنبول کے علاقے کو بین الاقوامی سطح پر ایک مؤثر علاقہ بنا دیا، جس نے اتحادیوں کو لوزان معاہدے میں اسے ایک خاص حیثیت دینے پر مجبور کیا جس میں آبنائے باسفورس، دردنیل، بحیرہ مرمرہ، اور کچھ ترک و یونانی جزائر کو غیر عسکری (demilitarized) قرار دینے کی شرط رکھی گئی۔
جہاں تک برزخ کا تعلق ہے، تو یہ زمین کا ایک پتلا ٹکڑا ہوتا ہے جو دو آبی گزرگاہوں کو ملاتا ہے۔ اور بین الاقوامی نقل و حمل کے راستوں میں برزخ کی موجودگی اسے سمندری جہازوں کے دونوں سروں پر لنگر انداز ہونے اور روانہ ہونے کا ایک مرکز بناتی ہے،یا پھر وہ ریاست جو اس پر واقع ہو، اس میں ایک نہر کھودنے کی جانب مائل ہوتی ہے تاکہ دونوں کناروں کو براہِ راست ملایا جا سکے۔ اس کی مثال نہر سویز، نہر پاناما، اور نہر کیئل ہیں۔ پانامہ کی نہر کو وجود میں لانے سے قبل ، برزخِ تیوانتی پیک (Tehuantepec) وہ مختصر ترین زمینی راستہ تھا جو خلیج میکسیکو اور بحر الکاہل کو آپس میں جوڑتا تھا
یہ بات بالکل واضح ہے کہ برّی ریاستیں اگر سمندروں تک رسائی حاصل نہ کر سکیں، تو وہ ان درمیانی ریاستوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں جو ان کے اور سمندر کے درمیان واقع ہوتی ہیں۔ اور یہاں تک کہ وہ ریاستیں بھی، جنہیں عالمی سطح پر کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں، اس مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے لیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایتھوپیا نے سن 2023 میں علیحدگی پسند ریاست "ارضِ صومال" (صومالیہ کی خود مختار مگر غیر تسلیم شدہ ریاست) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تاکہ وہ بحیرۂ احمر تک ایک بحری راستہ حاصل کر سکے۔
جہاں تک ریاست سے منسلک جغرافیہ کی نوعیت کا تعلق ہے، تو اس میں کئی بنیادی نکات شامل ہیں: ریاست کا کل رقبہ، اس کی سرحدوں کی ساخت، ریاست کے اندرونی زمینی خدوخال ، اور ریاست کی قدرتی ساخت۔ جہاں تک ریاستی سرحدوں کی نوعیت کا تعلق ہے، تو سرحدوں کے تعین کا کوئی یکساں قانون نہیں پایا جاتا، جس کے مطابق ریاستیں خود سرحدیں منتخب کریں یا ان پر مسلط کی جائیں۔ فطری طور پر، بہت سی ریاستیں ایسی حدود کی حامل ہوتی ہیں جو قدرتی مظاہر — جیسے پہاڑی سلسلے، دریا، یا سمندری ساحل — پر مبنی ہوتی ہیں۔ جبکہ بعض اوقات سرحدیں ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ معاہدات کی بنیاد پر کھینچی جاتی ہیں، یا جنگی فتوحات یا شکستوں کے نتیجے میں پھیلتی یا سمٹتی ہیں۔ البتہ، جب سے موجودہ عالمی نظام وجود میں آیا ہے، قومی سرحدوں کو تقدس کا درجہ دے دیا گیا ہے، اور علاقائی توسیع کی کوششیں عالمی سطح پر ناپسندیدہ سمجھی جانے لگی ہیں ۔ بصورتِ دیگر ان کے لیے لازمی طور پر ایسا جواز درکار ہوتا ہے جو عوامی ارادے کی عکاسی کرے، جیسے الحاق یا علیحدگی۔ سرحدوں سے متعلق جغرافیہ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ سرحدی علاقوں میں آبادی کی نوعیت کیا ہے؛ بعض سرحدیں دو مختلف اقوام کو الگ کرتی ہیں، جبکہ بعض سرحدیں ایک ہی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہیں، جہاں ہر حصہ الگ الگ ریاستوں کے زیر اثر ہوتا ہے۔ یہ بات سرحدوں کے استحکام اور ان کی نفوذ پذیری کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے،یعنی آیا دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے سے منسلک ہیں یا الگ تھلگ۔ اسی طرح یہ جاننا بھی اہم ہے کہ کون سی ریاستیں کس خاص ریاست کی سرحد سے متصل ہیں، اور ان کا عالمی مقام کیا ہے؛ یہ عوامل اس امر پر اثرانداز ہوتے ہیں کہ آیا تعلقات دوستانہ ہوں گے یا مسابقتی، دشمنی پر مبنی ہوں گے یا تابع داری کی شکل اختیار کریں گے، یا ریاست ان ہمسایہ علاقوں کو اپنے "حیاتی دائرہ اثر" (vital space) کے طور پر دیکھے گی۔
جہاں تک قدرتی ساخت کا تعلق ہے تو یہ ریاست کے ماحول، اور اس کی جغرافیائی حدود میں موجود وسائل سے متعلق ہے۔ ریاست کا وافر آبی وسائل پر مشتمل ہونا اس کی آبی سلامتی کے لیے ایک اہم معاملہ ہے، اور زیر زمین آبی ذخائر کا خشک ہونا ریاست کے لیے خطرناک اشارہ ہے۔ اور تیل اور معدنی دولت ریاستوں میں ایک اہم عامل ہے جو انہیں توانائی اور صنعت کے شعبوں میں خود کفیل ہونے میں مدد کرتا ہے، بلکہ ان وسائل کے ذریعےریاست کی دوسروں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اسی طرح ریاست میں موجود سمندری وسائل چاہے وہ معدنی ہوں یا مچھلیوں پر مشتمل ہوں، اس کی دولت اور غذائی تحفظ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ زمین کی زرخیزی اور اس کے مقابلے میں صحراؤں کا پھیلاؤ ریاست کی اصل معاشی قوت، یعنی اس کی پیداواری صلاحیت کا تعین کرتا ہے بلکہ یہ عوام کے رویّوں اور فطرت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
جہاں تک ریاست کے رقبے کا تعلق ہے تو رقبے کی وسعت کئی حوالوں سے اہمیت رکھتی ہے۔ ایک تو رقبے کی وسعت کا آبادی سے تعلق ہے، دوسرا رقبے کا دولت سے تعلق ہے، اور تیسرا ریاست کی اسٹریٹجک گہرائی سے تعلق ہے۔ یہ آخری پہلو کسی بھی ریاست کے دفاع کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے، خاص طور پر جب ریاست بیرونی حملے کا سامنا کرے۔ اگر ریاست کا رقبہ بڑا ہو، تو دشمن کے لیے مکمل کنٹرول حاصل کرنا ایک سست، پیچیدہ، اور بعض صورتوں میں ناممکن عمل بن جاتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب دشمن کا حملہ محض مرکزی کمانڈ سینٹر پر نہ ہو، بلکہ مکمل زمینی قبضے کی کوشش ہو۔ جہاں تک اندرونی زمینی خدوخال کا تعلق ہے، تو وہ ریاست کے لیے قدرتی اندرونی دفاعی خطوط پیدا کرتی ہیں بشرطیکہ وہ ناہموار زمین ہو۔ اس کے برعکس اگر زمین ہموار ہو، تو یہ دفاع کے لیے کم موزوں ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ زمینی خدوخال کا تنوع ریاست میں پیداوار کے تنوع میں بھی مدد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر روس میں واقع اورال کے پہاڑی سلسلے نے ایک قدرتی رکاوٹ کا کردار ادا کیا، جس کے پیچھے ایک وسیع خطہ مشرق کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطہ ان حملوں کے خلاف روس کی حفاظت کرتا ہے جو اس کے مغربی حصے،یعنی دارالحکومت ماسکو کے ارد گرد کے علاقے، پر کیے گئے۔ اس کے برعکس، مشرقی یورپ میں واقع یورپی میدانی علاقہ جنگوں کے لیے ہمیشہ ایک گزرگاہ رہا ہے، اور تہذیبی تصادم کا میدان بھی۔
یہ بات بھی نہایت اثر رکھتی ہے کہ ریاستیں بری گزرگاہوں اور نقل و حمل کے راستوں پر واقع ہوں، مثلاً ترکی کا محلِ وقوع ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک زمینی پُل کی حیثیت رکھتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارتی شاہراہیں ترکی سے ہو کر گزرتی ہیں۔ اسی طرح وہ ممالک جو قدیم شاہراہِ ریشم اور چین کی حالیہ "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" کے راستے میں واقع ہیں—جیسے چین، قازقستان، روس، بیلا روس، پولینڈ، اور جرمنی— تو ان کی جغرافیائی پوزیشن نے وہاں عظیم منصوبوں کی بنیاد رکھی، جیسے ریلوے نیٹ ورکس، زمینی بندرگاہیں، اور تیل و گیس کی پائپ لائنز۔
دوسری طرف، آبادی بھی ریاست کی قوت کا ایک نہایت اہم عنصر ہے، اور اس کا مطالعہ مختلف زاویوں سے کیا جاتا ہے:پہلا زاویہ آبادی کی تعداد اور شرح نمو کا ہے؛ دوسرا زاویہ آبادی اور رقبے کا تقابلی جائزہ ہے، یعنی آبادی کی کثافت؛ تیسرا زاویہ عمرانی ساخت سے متعلق ہے، اور چوتھا زاویہ قوموں کی فطرت اور مزاج سے وابستہ ہے۔وہ ریاستیں جو بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں، وہ اپنی آبادی بڑھانے کی جانب پیش قدمی کرتی ہیں۔ یہ یا تو اس طرح کیا جاتا ہے کہ اندرونِ ملک شرحِ پیدائش کو بڑھایا جائے، اور ہر اضافی بچے پر مالی یا سماجی مراعات دی جائیں جس سے پیدائش کی شرح میں اضافہ ہو؛ یا پھر باہر سے مہاجرین لا کر آبادی میں کمی کو پورا کیا جائے، اور اس مقصد کے لیے ایسی مراعات دی جائیں جو مہاجرین کو راغب کریں۔ یہ سب اقدامات اقتصادی ترقی کو سہارا دیتے ہیں، ریاست کو "نابود ہونے" (extinction) کے خطرے سے بچاتے ہیں، اور ریاست کو اتنی افرادی قوت مہیا کرتے ہیں کہ وہ بڑے بڑے منصوبوں میں پیش قدمی کر سکے، خواہ ان میں وہ منصوبے بھی شامل ہوں جن کے لیے انسانی جانوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے، چاہے تیاری کی صورت میں یا جنگی نقصانات کی صورت میں۔جہاں تک آبادی کی کثافت کا تعلق ہے تو یہ انسانی اور اقتصادی طور پر ریاست کی طاقت کا اشارہ ہے، کیونکہ آپ دنیا کے بڑے شہروں میں دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے شہر ہیں جہاں بہت زیادہ اقتصادی مواقع یا وافر وسائل یا مالی سرگرمی یا سیاسی مراکز دستیاب ہوں۔ اور آبادی کی عمرانی ساخت معاشروں میں بوڑھوں یا جوانوں کو ظاہر کرتی ہے،۔ بوڑھوں کی نسبت جوانوں میں پیداواربڑھانے اور لڑنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔
آج کے دور میں توانائی اور ٹیکنالوجی ریاست کی طاقت کے بنیادی ستون بن چکے ہیں، خاص طور پر ان ریاستوں کے لیے جو بین الاقوامی سطح پر بلند مقام رکھتی ہیں، یا اس کے حصول کی خواہاں ہیں۔ توانائی اور ٹیکنالوجی آپس میں باہم جُڑے ہوئے عناصر ہیں۔ توانائی کو اگرچہ ریاستی وسائل کے زُمرے میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن اس کا ایک الگ درجہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ توانائی کا مطالعہ دو زاویوں سے کیا جا سکتا ہے: ایک، یہ دیکھنا کہ آیا ریاست کے پاس فوسل فیول ( تیل، گیس، کوئلہ) یا جوہری توانائی کے خام وسائل دستیاب ہیں یا نہیں؛ دوسرا، یہ کہ ریاست ان توانائی وسائل سے استفادہ کیسے کرتی ہے۔ یعنی کیا وہاں تیل کے کنویں، ریفائنریاں اور نیوکلیئر ری ایکٹرز موجود ہیں؟ ان نیوکلیئر ری ایکٹرز میں افزودگی کی سطح کیا ہے؟ کیا ان منصوبوں پر خود ریاست کا کنٹرول ہے، یا ریاست نے ان کے استعمال کے اختیارات کسی اور ریاست کو دے رکھے ہیں؟۔ دوسری جانب، ٹیکنالوجی بھی مختلف اقسام کی ہوتی ہے؛ کچھ اقسام معمولی ہوتی ہیں جن کا ریاست کی عالمی پوزیشن پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا؛ جبکہ بعض ٹیکنالوجیز ریاست کی طاقت کا بنیادی عنصر بن جاتی ہیں۔ مثلاً: فولاد سازی اور بھاری صنعت کی ٹیکنالوجی، الیکٹرانکس اور سیمی کنڈکٹرز کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت (AI) جو کہ عسکری اور جاسوسی میدانوں میں استعمال ہوتی ہے، ہوابازی اور سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ تائیوان میں سیمی کنڈکٹرز کی صنعت پر "اجارہ داری" نے اسے عالمی سطح پر مؤثر بنا دیا ہے، یعنی درحقیقت امریکہ نے دنیا پر اپنا اثرورسوخ استعمال کیا کیونکہ تائیوان کی حکومت امریکی حمایت یافتہ ہے، اور تائیوان کے چِپس میں استعمال ہونے والے آپریٹنگ سسٹمز امریکی ہیں۔ مزید یہ کہ، امریکہ نے اس ٹیکنالوجی کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ان کمپنیوں کو بھاری مالی امداد فراہم کی ہے جو اس شعبے میں امریکہ کے اندر کام کر رہی ہیں جیسے انٹیل (Intel) کمپنی، جو ایریزونا، اوہائیو، نیو میکسیکو، اور اوریگون میں چِپ سازی کے منصوبے چلا رہی ہے، اور TSMC، یعنی تائیوان کی سب سے بڑی چِپ ساز کمپنی، جس کے دو کارخانے فینکس کے قریب زیرِ تعمیر ہیں (الجزیرہ، 28 جنوری 2024)۔یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ یہ اہم صنعت مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں رہے۔ مزید برآں، چِپس کی سافٹ ویئر انجینئرنگ پر بھی امریکہ کی برتری قائم ہے، اور وہ اس میدان میں پوری دنیا سے آگے ہے، جس کی بدولت اس کا عالمی اثرورسوخ مزید بڑھ گیا ہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ روس نے میزائل سازی میں جو ترقی حاصل کی، اس نے جنگوں میں ایک نیا توازن قائم کیا۔ روس کے کِنژال (Kinzhal) اور آوَرِشِنَک (Avangard) جیسے ہائپر سونک میزائل، اس کی عسکری قوت کی علامت بن چکے ہیں۔ اسی طرح جاسوسی کی صنعت میں امریکہ نے غیر معمولی ترقی کی ہےحتیٰ کہ سرد جنگ کے دور میں، اس نے ایسے طیارے بنا لیے تھے جو اتنی بلندی پر پرواز کرتے کہ ریڈار انہیں نہیں پکڑ سکتا تھا، اور ان میں ایسی اعلیٰ درجے کی کیمرے نصب ہوتے تھے جو دشمن کے مقامات کی انتہائی واضح تصویریں کھینچ سکتے تھے۔ بعد ازاں، امریکہ نے جاسوسی سیٹلائٹس تیار کیے جن میں انتہائی حساس کیمرے لگے ہوتے تھے، اور آج یہ سب کچھ مزید جدید ہو چکا ہے کیونکہ تصویری تجزیہ، چہرہ شناسی، اور نیٹ ورک سیکیورٹی میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس نے جنگ کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے جہاں فوجیں اب "سائبر ہیکرز" پر مشتمل ہو چکی ہیں۔ یہ تمام پہلو اگرچہ جدید نقشوں پر عموماً درج نہیں ہوتے، لیکن جس طرح ریاست کے قدرتی وسائل اور تیل و گیس کے ذخائر کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اسی طرح ان پہلوؤں پر بھی باریک بینی سے نظر رکھنی چاہیے۔
یہ ایک مختصر خاکہ تھا ان متعدد پہلوؤں کا جنہیں نقشہ دیکھتے وقت سمجھنا ضروری ہے۔ یہ یاد رہے کہ ان میں سے بعض عناصر، ریاست کی طاقت کے اظہار میں دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا قاعدہ موجود نہیں جو یہ طے کرے کہ کن خصوصیات کی موجودگی سے ایک ریاست، دوسری ریاست سے زیادہ طاقتور بن جائے گی۔ بلکہ اصل اہمیت ریاست کی مجموعی جغرافیائی-سیاسی حیثیت کی ہوتی ہے، اور فیصلہ ہمیشہ مجموعی عوامل کو دیکھ کر کیا جاتا ہے نہ کہ کسی ایک انفرادی وصف پر۔
Latest from
- سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-2)
- سیاسی فہم کے لازمی اصول اور پالیسی سازی (حصہ اول)
- اگر "جمہوریت" کا خاتمہ خلافت کے قیام پر منتج نہ ہو ...
- پاکستان حقیقی معنوں میں اُس وقت آزاد ہوگا جب یہاں خلافتِ راشدہ کا نظام قائم ہوگا!
- افغانستان- پاکستانی سیاست کی چکی اور علاقائی ایجنڈے کے سندان کے بیچ