الخميس، 03 جمادى الثانية 1446| 2024/12/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

امریکی مفادات کا تحفظ کرنے پر امریکی فوج کی جانب سے پاک فوج کے سربراہ کو دادِ تحسین

 

 

خبر :

 

18 اکتوبر 2024ء کو امریکہ کی سینٹرل کمانڈ (US CENTCOM) کے تعلقات عامہ کے میگزین 'یونی پاتھ' (Unipath)   نے پاکستان کے آرمی چیف پر ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا ، ”متشدد انتہا پسندوں کے خلاف ایک مضبوط آواز“۔

 

 

تبصرہ:

اس مضمون میں جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف 'کامیابیوں' کو بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون کے قارئین میں مغربی اشرافیہ، بالخصوص امریکی انتظامیہ، نظر آتی ہے جن کو پاکستان کے آرمی چیف کی جواں مردی کا یہ تاثر دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسے وقت میں، جب آرمی چیف کو داخلی طور پر سخت مخالفت کا سامنا ہے، منیر کے اقدار کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان میں اس آرٹیکل کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا گیا ۔

 

یونی پاتھ (Unipath)میگزین قطر میں قائم امریکی سینٹرل کمانڈ (US CENTCOM) کی اشاعت ہے۔ یہ یو ایس سینٹ کام کے زیرِ نگرانی علاقوں (Area of Responsibility (AOR)میں امریکی فوجی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے والے علاقائی فوجی کمانڈروں کی تعریفوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں عراق، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، بحرین اور اردن کے کمانڈر شامل ہیں۔

 

جنرل عاصم منیر پر یہ مضمون اپنی نوعیت کا پہلا مضمون ہے۔ یونی پاتھ میگزین میں اب تک کسی اور پاکستانی آرمی چیف کے بارے میں کبھی کچھ شائع نہیں ہوا ہے۔ مضمون میں تین اہم پالیسیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو پاکستان کے آرمی چیف کو 'ناگزیر' اور 'کامیاب' بناتی ہیں۔

 

اول : پہلی پالیسی، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) گروپ کے خلاف فوجی کارروائی کرنا ہے۔ مضمون کے مطابق، یہ اقدام انہیں مبینہ طور پر انتہا پسندی کے خلاف ایک مضبوط آواز بناتا ہے اور یہ آواز امریکی کانوں کے لیے ایک دُھن کی مانند ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی فوج خطے میں نیٹو (NATO)کے کردار کی جگہ لے لے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اسلام کے خلاف لڑنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ نیٹو کے خلاف افغان مجاہدین کی فتح کے بعد سے ہم ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ آتا دیکھ چکے ہیں۔ بجائے اس کے کہ، پاکستان کی مسلح افواج اور قبائلی علاقوں کے مجاہدین کی طاقت کو اسلام کی خاطر یکجا کیا جاتا، جنرل عاصم افغانستان کے مسلمانوں کے خلاف فتنہ، نفرت اور سازشوں کے بیج بونے کے لیے تمام دستیاب ذرائع کو بروئے کار لا رہا ہے۔

 

دوم : دوسری پالیسی ایران کے حوالے سے ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان کی خودمختاری کو 16 جنوری 2024ء کو چیلنج کیا گیا تھا جب ایران نے میزائل اور ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا تاکہ اپنے استحکام کا اظہار کیا جائے اور اپنی ساکھ کو بحال کیا جائے، تو پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف عین ٹھکانوں پر حملے کیے“۔ یہاں ایک بار پھر اس مضمون میں امریکی پالیسی سازوں کے لیے یہ مثبت تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کے وسائل کسی بھی بہانے ایران کو نشانہ بنانے کے لیے دستیاب ہیں۔ اگرچہ یہ وہ وقت ہے جب غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے مسلمانوں کی افواج کو حرکت میں لانے کا مطالبہ پاکستان اور پوری مسلم دنیا میں عروج پر ہے۔ تاہم ایران اور پاکستان کی قیادتیں قوم پرستی کی بنیاد پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑ رہی ہیں اور مقدس سرزمین کے مسلمانوں کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔

 

سوم : تیسری پالیسی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی کوششوں کے حوالے سے پروجیکشن پوائنٹ ہے۔ افغانستان سے امریکی پسپائی اور بھارت پر مضبوط انحصار کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت خود کو تنہا محسوس کرتی ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت خطے میں امریکی پالیسی سے ہم آہنگ رہنے کے لئے تعاون کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔ مضمون میں امریکہ کے ساتھ شراکت داری کو مستحکم کرنے میں جنرل عاصم کے اہم کردار پر زور دیا گیا ہے۔

 

امریکہ پاکستان کی عسکری قیادت سے پانچ اہم امور پر نئے وعدوں کا مطالبہ کر رہا ہے: افغان طالبان کی حکومت کو دباؤ میں رکھنا، ضرورت سے زیادہ چینی اثر و رسوخ کو کم کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا کہ پاکستان چینی کیمپ میں نہیں ہے، بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا، ”اسرائیل“ کو تسلیم کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا اور پاکستان کے میزائل اور جوہری پروگرام کو جدید بنانے کی رفتار کو سست کرنے کی یقین دہانی۔

 

ان وعدوں کی تکمیل کے عہد کی بنیاد پر جنرل عاصم اپنی مدت ملازمت میں مزید تین سال کی توسیع کا کیس تیار کر رہا ہے۔ یہ مضمون اس کی مہم کا حصہ ہے تاکہ امریکی پالیسیوں کو پورا کرنے کے لئے اسے ایک ایجنٹ کے طور پر رکھا جائے۔

 

مسلم افواج کے کمانڈروں کو پروان چڑھانا مسلم دنیا میں امریکی پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے۔ واشنگٹن مقامی حکمران دھڑوں کی حمایت کے بغیر اپنے علاقائی منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کر سکتا، اور ان حکمران قیادتوں میں فوجی سربراہان ایک اہم عنصر ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور مصر جیسے ممالک میں آرمی چیف کا کردار ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے فوجی قیادت پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیے جانے والے بہت سے ہتھکنڈوں میں سے ایک شخصی شہرت دینا ہے۔ لہٰذا امریکہ مختلف مضامین کے ذریعے اپنے ایجنٹوں کی تعریف کرتا ہے، انہیں اعلیٰ ترین امریکی تمغوں سے نوازتا ہے اور انہیں ہائی پروفائل بین الاقوامی کانفرنسوں میں مہمان مقرر کے طور پر مدعو کرتا ہے۔

 

مسلم دنیا میں فوجی کمانڈروں کی کمزوری کی بنیادی وجہ فکری کمزوری ہے۔ مغربی فوجی تربیت ہمارے کمانڈروں کے اندر احساس کمتری پیدا کر دیتی ہے۔ وہ امت مسلمہ اور اس کے دین کو حقیر سمجھتے ہیں اور امریکی قیادت میں سرمایہ دارانہ تہذیب کی تعریفیں کرتے ہیں۔ نتیجتاً مسلمانوں کی فوجی قیادت استعمار کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک صورت حال ہے جسے فوج میں صرف اسلامی ثقافت کو شامل کرکے ہی درست کیا جاسکتا ہے۔

 

حزب التحریر نے اپنے آئین کے آرٹیکل 67 میں کہا ہے: ”فوج کو اعلیٰ ترین فوجی تعلیم فراہم کرنا اور جہاں تک ممکن ہو اس کی فکری سطح کو بلند کرنا واجب ہے۔ فوج کے ہر فرد کو اسلامی ثقافت دی جانی چاہیے جو اسے کم از کم عمومی سطح تک اسلام کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے قابل بنائے“۔

 

اے افواجِ پاکستان کے افسران!

اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے,

 

﴿مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾

”جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی مانند ہے کہ وه بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حاﻻنکہ تمام گھروں سے زیاده بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے، کاش! وه جان لیتے“(سورۃ العنکبوت 29:41)۔

 

آخر آپ کب تک امریکہ کے ایجنٹوں کو اپنی قیادت کرنے کے لیے قبول کرتے رہیں گے؟ ان ایجنٹوں کو اکھاڑ پھینکیں اور خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے لئے حزب التحریر کو اپنی نصرة فراہم کریں۔

 

محمد سلجوق، ولایہ پاکستان

Last modified onجمعرات, 07 نومبر 2024 23:06

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک