السبت، 21 محرّم 1446| 2024/07/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

واشنگٹن کے دورے مزید غداریوں کا پیش خیمہ ہیں

 

پاکستان کے آرمی چیف نے 10 دسمبر سےامریکہ کا پانچ روزہ دورہ کیا۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتور مسلم فوج کے سربراہان کے لیے اس نوعیت کے دورے کرنا معمول کی بات بن چکے ہیں۔ اگرچہ یہ سربراہان اُن جری، بہادر، بہترین تریت یافتہ، کیل کانٹے سے مسلح دستوں پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں جو شہادت کے جذبے سے سرشار ہیں اور ایک مضبوط دفاعی صنعت بھی ان کی پشت پر موجود ہے، لیکن پھر بھی اس قسم کے یہ دورے ایک آرمی چیف سے دوسرے تک، مقابلے کی دوڑ بن چکے ہیں۔ ہر آنے والا چیف غداری اور دغا میں اپنے پیش رو کو پیچھے چھوڑ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر آرمی چیف امریکی پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کے لیے خدمات کی ایک فہرست تیار کرتا ہے۔ پھر ملنے والی ان منظوریوں کو وہ اسٹریٹجک فورمز پر پیش کرتا ہے۔ یوں پھر کسی دورے کی کامیابی کو اس طرح سے جانچا جاتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے طاقت کے ایوانوں میں ایک چیف کا کتنا خیر مقدم کیا گیا۔ جس قدر بڑی غداری ہوتی ہے، دغا بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا استقبال بھی اتنا ہی بھرپور کیا جاتا ہے۔

 

جنرل عاصم منیر کا یہ دورہ ان کے پیشروؤں سے کسی طور بھی مختلف نہیں ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک طاقتور ملک کے آرمی چیف سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ ایک آزادانہ لائحہ عمل اختیار کریں جو اس دنیا اور آخرت کے لئے خطے کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔ لیکن ایک طاقتور جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست کے اس اہم بنیادی فیصلہ ساز نےہر قسم کی مہارت کی کمی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بھی اسی ناکام بیانیے کا رٹا رٹایا سبق پیش کیا جو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے چھ سالہ دور حکومت میں قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ موجودہ آرمی چیف کو بھی جغرافیائی اقتصادیات اور روابط، بلاک سیاست کی مجبوریاں، علاقائی استحکام اور سکیورٹی کا وہی پرانا راگ الاپتے ہوئے پایا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسی شخصیت کے قطعی شایانِ شان نہ تھا جو کہ دنیا کی طاقتور ترین افواج میں سے ایک کی قیادت کرتا ہو۔

 

فوج کے میڈیا افیئرز ونگ(آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں آرمی چیف کو یہ شکایت کرتے ہوئے پایا گیا ہے کہ ان کی شنوائی نہیں ہوئی، گویا کہ وہ کسی اعلیٰ افسر کو رپورٹ کر رہے تھے۔ اس طرح، انہوں نے جنوبی ایشیاء میں سٹریٹیجک استحکام پر اثرانداز ہونے والے علاقائی سلامتی کے معاملات اور اقدامات پر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کی باہمی بات چیت کو ایسے تاثرات سے بھی بیان کیا گیا جو عموماً یا تو اختلاف رائے کی نشاندہی کرتے ہیں، یا ایسے بیانیے کے فقدان کی نمائندگی کرتے ہیں جیسے، رہنماؤں نے روابط کو بڑھانے اور باہمی مفاد  کے اقدامات کے دائرہ کار کو بڑھانے کے طریقے ڈھونڈنے کے ارادے کا اعادہ کیا۔ اسی طرح کا ایک اور بیان یہ ہے کہ آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اور ایک اور بیان یہ ہے کہ دونوں فریقین نے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے دوطرفہ تعاون کی ممکنہ راہیں تلاش کرنے کے لئے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

 

اس دورے کے ہر زاویے پر "ڈو مور" کندہ ہوا ہے۔ جنرل مشرف کی برطرفی کے بعد سے پاکستان کے آرمی چیف کے دورے نجی دوروں کی طرح ہو گئے ہیں جو کسی بھی طرح ایک خودمختار ریاست کے سرکاری دوروں کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ تمام تر میٹنگیں قریب قریب 'جی حضوری' کی ہی حیثیت رکھتی ہیں چہ جائیکہ وہ ایسی ہوں جب دو یا دو سے زیادہ ریاستوں کے نمائندے سرکاری ملاقات کرتے ہوں۔ پاکستانی فوج کے آرمی چیف کے اس طرح کے دورے رشوتی لین دین کی کوشش بن چکے ہیں۔ ایسے دورے حقیقت میں بس نئے چیف کو اقتدار کی منتقلی کی تصدیق کے لئے فوٹو شوٹ سیشن ہیں۔ اور متوقع نتائج ،تمام دھڑوں کی اندرونی رسہ کشی کو تابع کرنا ہے۔

 

پاکستانی اقتدار کے ایوانوں میں اس وقت ایک مایوسی کا سا احساس پیدا ہو جاتا ہے جب کسی حریف کو فوٹو شوٹ کا موقع نہ مل پائے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان امریکی صدر بائیڈن سے ملاقات یا بات چیت کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ یہ اس خطے کے مسلمانوں کی عزت و ناموس کی توہین ہے۔ عوام اور ریاست اپنے علاقائی مقاصد کے حصول اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔ ذرا ان ڈرامائی دوروں کا موازنہ ہندوستان اور امریکہ کے مابین باہمی دوروں سے ہی کر لیں۔ بھارتی وزیر اعظم کے گزشتہ دورۂ امریکہ کے دوران 53 باہمی معاہدوں اور فریم ورک کا اعلان کیا گیا تھا جو زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کا احاطہ کرتے تھے۔ کوئی بھی ذی شعور یہ دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیت کے پاس کامیابی دکھانے کے لئے صرف ناموں کی ہی ایک لسٹ ہوتی ہے۔

 

پاکستانی حکمران اشرافیہ ایسے دوروں اور ملاقاتوں کو منظوری اور توثیق کی مہر کے طور پر دیکھتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح امریکہ کو نہ صرف حکمرانوں کو بلیک میل کرنے اور کمتر ثابت کرنے کا موقع ملتا ہے، بلکہ وہ ان غدار حکمرانوں کو اس حد تک تابعدار ہونا بھی محسوس کراتے ہیں کہ وہ امریکی مطالبات سے زیادہ کام کریں اور اسے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کی شرط کے طور پر سمجھیں۔ اور یہ اس کے باوجود ہے حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں طاغوت کفر کی اتھارٹی کا انکار کرنے کا حکم دیا ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے

 

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓا۟ إِلَى ٱلطَّـٰغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوٓا۟ أَن يَكْفُرُوا۟ بِهِۦ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَـٰنُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَـٰلًۢا بَعِيدًۭا

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو آپ کے پاس اور آپ سے پہلے لوگوں کی طرف آئی ہیں؟ وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے کریں، حالانکہ انہیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور شیطان چاہتا ہے کہ وہ انہیں بہت دور گمراہ کر دے۔ (النساء؛ 4:60)

 

پاکستان کی مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی باتیں پاک افغان خطے کے لوگوں میں نفرت اور عدم اعتماد کے ذریعے باہمی پھُوٹ ڈالنے کے لئے ہی ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کو زبردستی بے دخل کرنے کی موجودہ مہم اسی منصوبے کا حصہ ہے اور سخت سرحدی کنٹرول اور سرحد پر باڑ لگانا اس کے علاوہ ہے۔ جبکہ مشرقی سرحد پر معاملہ یکسر ہی مختلف پیرائے میں ہے، جس کا مقصد کشمیر کے مسلمانوں کی طرف سے کفار کے قبضے کے خلاف قابل فخر اور دلیرانہ مزاحمت کو کچلنے میں بھارت کی مدد کرنا ہے۔ علاقائی سلامتی وہ شائستہ اصطلاح ہے جس کا مقصد امریکی منصوبے کے مطابق پاکستان کو بھارت کی علاقائی بالادستی تلے لا کر خطے میں چین کو روک کر رکھنا ہے۔ اس سے بھارت کو اپنے وسائل اپنی مغربی سرحدوں سے ہٹا کر چینی سرحد کی طرف موڑنے کا موقع ملے گا۔

 

پاکستانی آرمی چیف کی امریکی حکام سے بات چیت کے بعد جاری ہونے والے بیانات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خطے میں پاکستان کے کردار کی سمت اور دائرہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، چاہے وہ اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ہی کیوں نہ کریں۔ مسلمانوں کے حکمران امت کی طاقت کے بجائے واشنگٹن، لندن اور پیرس جیسے استعماری طاقتوں کے دارالحکومتوں کے دوروں سے طاقت اور منظوریاں حاصل کرتے ہیں۔ اور یہی وہ بنیادی اور واحد وجہ ہے کہ ان مسلط کردہ حکمرانوں کے طور طریقے اور رویے ایسے بے بس، کم حیثیت اور مکروہ ہیں۔ استعماری ریاستوں کے دارالحکومتوں کے اس طرح کے جھوٹے اور جعلی سرکاری دورے، یا ان طاقتوں کے عہدیداروں کے ہماری سرزمینوں کے دورے، اور قلعے جیسے سفارت خانوں کی اجازت دے دینے کو لازمی طور پر اس عہدے سے غداری کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں یہود و نصارٰی کو دوست یا بااعتماد مشیر بنانے سے منع کیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،

 

﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ

اے ایمان والو، یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، ان میں سے بعض ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گاتو وہ یقیناً انہی میں سے ہو گا، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ؛ 5:51)

 

یہ نبوت کے طریقے پر خلافت ہی ہو گی جو دوبارہ اس پاکیزہ امت کی عظمت و وقار کو بحال کرے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿وَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِۦ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ

اور عزت تو ساری کی ساری اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین کے لئے ہی ہے، لیکن منافقین نہیں جانتے (المنافقون؛ 63:8)۔ 

 

خلافت امت کو اس کی قوت اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر پختہ ایمان کی نعمت لوٹائے گی۔ خلافت کے حکمران جانتے ہوں گے کہ وہ القوی اور العلیم ذات روزِ حشر سب سے حساب لے گی۔ اور اسی سے حکمرانوں کو مخلوقات میں سے سب سے زیادہ خوف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات مبارکہ سے ہو گا۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو انسانیت کو اس ظالمانہ نظام سے نجات دلائے گی اور اس کا وہ وقار بحال کرے گی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرتے وقت عطا کیا تھا۔

 

*انجینئر محمد اکمل، ولایہ پاکستان*

Last modified onپیر, 08 جنوری 2024 04:47

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک