بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ البقرۃ(283)
جلیل القدر عالم دین اور فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابوالرشتہ کی کتاب ”التیسیر فی اصول التفسیر“ سے اقتباس*
(ترجمہ)
﴿وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ وَلَمْ تَجِدُوا۟ كَاتِبًۭا فَرِهَـٰنٌۭ مَّقْبُوضَةٌۭ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًۭا فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُۥ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌۭ قَلْبُهُۥ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌۭ﴾
”
"اور اگر تم سفر پر ہواور کوئی لکھنے والا مل نہ سکے تو (کوئی چیز) رہن یا گروی رکھ لو قبضہ میں دی ہوئی، اور اگر تم کو ایک دوسرے پر اطمینان ہو (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور اسے اپنے رب سے ڈرنا چاہیے۔ اور گواہی کو مت چھپاؤ۔ اور جو اسے چھپاتا ہے تو یقیناً اس کا دل گناہ گار ہے اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے“۔ (البقرۃ؛ 2:283)
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ واضح فرما رہے ہیں کہ اگر قرض کا لین دین کرنے والے لوگ حالتِ سفر میں ہوں اور سفر کے دوران کوئی ایسا شخص نہ پائیں جو ان کے قرض کو لکھ سکے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کا متبادل یہ رکھا کہ قرض دینے والا قرض لینے والے سے کسی چیز کو بطور رہن (گروی) اپنے قبضے میں لے، تاکہ قرض کی ضمانت حاصل ہو سکے۔
اگر وہ (قرض کا لین دین کرنے والے) ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوں تو پھر کسی (قرض کو) لکھنے والے، گواہ یا رہن (گروی) کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور اس صورت میں قرض لینے والے پر لازم ہے کہ وہ اس شخص کے بارے میں، جس نے اس پر بھروسہ کیا ہے، اللہ سے ڈرے، اور دیانت داری سے اس کا حق واپس کرے۔ اسے چاہیے کہ قرض دینے والے کو بار بار تقاضا کرنے پر مجبور نہ کرے، بلکہ اس کے احسان کو یاد رکھے اور خوش دلی و احسان مندی کے ساتھ اس کا حق واپس کرے۔
پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں گواہی نہ چھپانے کی تاکید فرماتے ہیں، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ یہ واضح فرما دیتے ہیں کہ وہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے، اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو بھی اللہ سے کچھ چھپ نہیں سکتا، کیونکہ وہ غیب کا جاننے والا ہے۔ زمین و آسمان میں ایک ذرے کے برابر شے بھی اس سے پوشیدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌۭ﴾ ”اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے“۔ وہ تمہیں تمہارے ہر عمل کا بدلہ دے گا؛ اگر تم نیکی کرو گے تو نیکی کا اجر دے گا، اور اگر برائی کرو گے تو برائی کا بدلہ ملے گا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، ﴿وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ﴾ ”اور اگر تم (دونوں) سفر میں ہو“ یعنی اگر تم مسافر ہو۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَرِهَـٰنٌۭ﴾ ”رہن (گروی رکھی ہوئی چیزیں)“ لفظ (رِهَان) ”رہن“ دراصل رَہْن (گروی) کی جمع ہے، اور یہ لفظ اصل میں مصدر (اسم مصدر) ہے، پھر اسے اسم مفعول (مفعولی معنی میں) پر محمول کرتے ہوئے گروی رکھی جانے والی چیزوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَّقْبُوضَةٌۭ﴾ ”قبضے میں دی گئی“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رہن (گروی چیز) کو قرض دینے والے کے قبضے میں دے دیا جائے تاکہ وہ اسے بطور ضمانت رکھ سکے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَمْ تَجِدُوا۟ كَاتِبًۭا فَرِهَـٰنٌۭ مَّقْبُوضَةٌۭ﴾ ”اور اگر تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تورہن ( گروی) رکھ لو“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سفر کے دوران جب کوئی کاتب میسر نہ ہو تو قرض کے اندراج کے بدلے میں گروی رکھنا متبادل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لئے ایسی صورتحال میں شرعی حکم، رہن (گروی رکھنا) مندوب ہے، بالکل اسی طرح جیسے قرض لکھوانے کا حکم ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے: اگر سفر کے دوران قرض کو لکھنا مندوب ہے اور رہن رکھنا بھی مندوب ہے، تو کیا ایسی صورت میں جب سفر کے دوران کوئی کاتب (لکھنے والا) موجود ہو، تو کیا رہن رکھنا جائز ہے؟ یعنی کیا کاتب کے موجود ہونے کے باوجود سفر میں رہن رکھنا درست ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جائز ہے، لیکن اس صورت میں رہن (گروی رکھنے) کا حکم اباحت (یعنی صرف جائز ہونا) ہے، نہ کہ مندوب ہونا۔
اس کی دلیل یہ ہے:
(الف) مقیم حالت (حضر) میں: اگر ادھار پر خریدوفروخت کا لین دین کرنے والے دونوں فریق اس قرض کو لکھوانا نہ چاہیں جیسا کہ آیتِ مبارکہ میں قرض کا لین دین کرنے والوں کے لئے طریقہ بیان کیا گیا ہے، تو ان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ آپس میں جو بھی شرط رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ شرط شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو۔ لہٰذا اگر کوئی شخص ادھار پر مال بیچتا ہے، تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ خریدار سے کسی ضمانت کے ذریعے اپنا حق محفوظ کرے، تاکہ اسے ادائیگی کے بارے میں اطمینان ہو۔ اس کے لیے وہ خریدار سے کوئی شے رہن رکھ سکتا ہے یا ضامن طلب کر سکتا ہے … اور یہ سب کچھ جائز ہے۔ کیونکہ شریعت میں عقود میں رکھی جانے والی تمام شرائط مباح ہیں، سوائے اس شرط کے جو کسی حلال چیز کو حرام یا کسی حرام چیز کو حلال قرار دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلاَّ شَرْطًا حَرَّمَ حَلاَلاً أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا» ”مسلمان اپنی شرطوں پر پابند ہیں، سوائے اُس شرط کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دے“۔ (سنن ترمذی)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ یہ اصول ان شرائط پر لاگو ہوتا ہے جو مسلمان آپس میں اپنے معاملات اور (لین دین کے) معاہدوں میں رکھتے ہیں۔ یعنی مسلمان اپنے عقود میں جو چاہیں شرائط رکھ سکتے ہیں، سوائے ایسی شرط کے جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دے دے۔
(ب) حالتِ سفر میں: اللہ سبحانہ وتعالىٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ وَلَمْ تَجِدُوا۟ كَاتِبًۭا فَرِهَـٰنٌۭ مَّقْبُوضَةٌۭ﴾
”اور اگر تم سفر پر ہواور (قرض کو) کوئی لکھنے والا مل نہ سکے تو (کوئی شے) رہن یا قبضہ میں (گروی) رکھ لو“۔ (سورۃ البقرہ: 283)
سفر میں لکھنے والے کا نہ ملنا ایک عام بات ہے کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ حالتِ سفر میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی کے باعث انہیں کوئی کاتب نہ مل سکے۔ اسی بنیاد پر "مفهوم المخالفة للقيد (الوصف)" یعنی ”صفت کے مقید ہونے کا مفہومِ مخالفہ“
لاگو ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالىٰ نے فرمایا: ﴿وَلَمْ تَجِدُوا۟ كَاتِبًۭا﴾ ”اور اگر تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے…“، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ رہن رکھنا جائز ہے، خواہ (قرض) لکھا جائے یا نہ لکھا جائے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شرعی حکم کی صورت مختلف ہو جاتی ہے: اگر سفر میں کاتب دستیاب نہ ہو، تو رہن رکھنا (قرض کو) لکھنے کی جگہ لے لیتا ہے، اور ایسی صورت میں رہن رکھ لینا مندوب ہے۔ اور اگر حالتِ سفر میں کاتب دستیاب ہو، تو رہن رکھ لینا مباح ہے۔
یہ تمام حکم اُن دیگر معاملات کے بارے میں ہے جو ادھار پر لین دین میں رِبا (سود) کے علاوہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایسی صورت میں رہن رکھنے کا حکم، خواہ مقیم حالت ہو یا حالتِ سفر ہو، تو یہ ایک شرعی حکم ہے۔ یعنی، خریدوفروخت میں ادھار پر اشیاء کو بیچنے کے معاملے میں رہن رکھ لینا واجب ہے، جیسے گیہوں، جو، کھجور یا نمک وغیرہ کو ادھار پر لینا۔ اس کی دلیل یہ ہے:
رسول اللہ ﷺ سے صحیح روایت موجود ہے کہ آپ ﷺ نے سودی اشیاء کی بیع کو منع فرمایا، سوائے یہ کہ بیع ہاتھوں ہاتھ (یعنی نقد) کی صورت میں ہو۔ مسلم نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ» ”سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گیہوں کے بدلے گیہوں، جوکے بدلے جَو، کھجور کے بدلے کھجور ، نمک کے بدلے نمک، برابر کے برابر، مساوی مقدار میں، ہاتھوں ہاتھ۔ اور اگر یہ اصناف مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیچو، بشرطیکہ وہ ہاتھوں ہاتھ (یعنی نقد) ہو“ (صحیح مسلم)۔ یعنی ادھار پر نہ ہو۔
یہ بھی صحیح روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی چیز ادھار پر خریدی جو سودی اشیاء کے زمرے میں سے ہے، یعنی جَو، لیکن آپ ﷺ نے فروخت کرنے والے کے پاس بطور رہن اپنی زرہ رکھ دی۔ صحیح بخاری میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: «أن النبي ﷺ اشترى من يهودي طعاماً إلى أجل ورهنه درعاً له من حديد» ”رسول اللہﷺ نے ایک یہودی سے کھانے کا سامان ادھار خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھی“ (بخاری)۔ سنن النسائی میں ایک اور روایت میں ابن عباسؓ سے مروی حدیث میں ہے: «تُوُفِّيَ رسول الله ﷺ ودرعه مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعاً من شعير لأهله» ”رسول اللہ ﷺ کا وصال اس حالت میں ہوا کہ آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے عوض رہن تھی، جو آپ ﷺ نے اپنے اہلِ خانہ کے لئے (ادھار) لیا تھا“۔ (النسائی: 4572، بخاری: 2759، 4197، احمد: 1/236، 361، ابن حبان: 13/262)
ان دونوں احادیث میں تطبیق یوں دی جاتی ہے کہ پہلی حدیث میں ادھار پر اجناس کی فروخت کی ممانعت آئی ہے، اور دوسری حدیث میں ادھار کے ساتھ رہن رکھنے کی اجازت وارد ہوئی ہے، اور چونکہ کوئی دلیل موجود نہیں کہ یہ حکم رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھا، لہٰذا ان دونوں احادیث کو جمع کرنے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اجناس کو ادھار فروخت کے وقت رہن لینا واجب ہے تاکہ معاملہ شرعاً درست ہو۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًۭا﴾ ”اور اگر تم کو ایک دوسرے پر بھروسہ ہو“ کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کچھ قرض دینے والے کو اپنے قرض لینے والے پر، سفر کے دوران یا مقیم حالت (حضر) میں بھروسہ ہو، یعنی وہ قرض دار کی امانت، دیانت اور ادائیگی میں تاخیر نہ کرنے پر بھروسہ رکھتے ہوں یعنی قرض دینے والے کو قرضدار پر اعتماد ہو، تو ایسی صورت میں قرض کو لکھنے، گواہوں یا رہن کے ذریعے محفوظ نہ کرنا بھی ممکن ہے۔ یہ صورت جائز ہے، جیسا کہ وضاحت کی گئی ہےیعنی اگر قرض دینے والے چاہے تو اسے تحریر میں لا سکتا ہے، اور اگر نہ چاہے تو نہ لائے۔
اور اس ارشاد ﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًۭا﴾ ”اور اگر تم کو ایک دوسرے پر بھروسہ ہو“ کا تعلق صرف سفر یا رہن (گروی رکھنے) کی حالت سے خاص نہیں ہے۔ اسے اس آیت میں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ آیت کا آغاز سفر کے بیان سے ہوا تھا، اور اس کا مفہوم، اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَرِهَـٰنٌۭ مَّقْبُوضَةٌۭ﴾ ”توپھر رہن (گروی) رکھ لو“ کے ذکر سے مکمل ہوتا ہے۔ یہ بعد کا بیان دراصل پہلے بیان کردہ قرض کے احکام یعنی تحریر، گواہ اور رہن کی تکمیل کے طور پر آیا ہے، خواہ وہ مقیم حالت (حضر) میں ہوں یا سفر کے دوران۔
یہ اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَكْتُمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ﴾ ”اور گواہی کو مت چھپاؤ“۔ اس آیت میں گواہی کا ذکر سفر میں رہن (گروی رکھنے) کے ضمن میں نہیں آیا، بلکہ یہ اس گواہی کی طرف اشارہ ہے جو گزشتہ آیت میں مقیم حالت میں قرض لکھنے کے وقت ذکر کی گئی تھی۔ لیکن چونکہ اس آیت کا آغاز اس جملے سے ہوا ﴿وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ﴾ ”اور اگر تم حالتِ سفر میں ہو“۔ اس لیے قرینہ یہ بتاتا ہے کہ ﴿فَرِهَـٰنٌۭ مَّقْبُوضَةٌۭ﴾ ”تو پھررہن (گروی) رکھ لو“ کے بعد آنے والا حصہ قرض سے متعلق گزشتہ احکام پر ہی دلالت کرتا ہے، خواہ وہ سفر میں ہوں یا اقامت کی حالت میں۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قرض دینے والے کو قرض لینے والے کی امانت داری پر اطمینان ہو، اور وہ اس پر اعتماد کرے کہ وہ ادا کرنے میں تاخیر نہیں کرے گا، تو ایسے میں قرض کے دستاویزی ذرائع (جیسے تحریر، گواہ یا رہن) کو ترک کرنا جائز ہے، خواہ حالتِ سفر ہو یا مقیم حالت ہو۔ یعنی جس حالت میں ہم نے پہلے وضاحت کی تھی کہ دستاویزات تیار کرنا مندوب ہے، تو اس نئی حالت میں وہ مباح ہو جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًۭا﴾ ”اور اگر تم کو ایک دوسرے پر بھروسہ ہو“ سے ظاہر ہے۔
اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُ﴾ ”تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کر دے“ کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرضدار کو چاہیے کہ وہ قرض خواہ کا قرض ادا کرے۔ اس حالت میں قرض کو امانت کہا گیا ہے، کیونکہ اس پر تحریر یا گواہی لازم نہیں کی گئی، بلکہ وہ اعتماد اور دیانت کی بنیاد پر قائم ہے۔
یہاں جو طلبِ شرعی ہے، وہ فرضیت کے معنی میں ہے، یعنی قرض کی ادائیگی شرعاً واجب ہے۔ اس پر قرینہ لفظِ ﴿أَمَـٰنَتَهُ﴾ ”اس کی امانت“ سے لاگو ہوتا ہے۔ امانت کو پورا کرنا شرعی فریضہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لا إيمانَ لمن لا أمانةَ لهُ» ”جس میں امانت داری نہیں، اس کا ایمان نہیں“ (احمد: 3/154، 210)۔ اور دیگر احادیث میں بھی امانت کا ذکر آیا ہے، جو کہ وصفِ معلوم ہے، اور امانت کو پورا کرنا شرعی طور پر واجب ہے۔ جب ایمان کو دین میں امانت سے جوڑا گیا، اور امانت کی ادائیگی کو طلب (یعنی حکم) کا موضوع بنایا گیا، تو یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ لفظِ ﴿فَلْيُؤَدِّ﴾ ”پس اسے ادا کرنا چاہیے“ میں جو حکم دیا گیا ہے، وہ طلب جازم ہے (یعنی فرض حکم ہے)۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ، ﴿وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُ﴾ ”اور اسے اپنے رب سے ڈرنا چاہیے“، کا تعلق ہے، تو یہ تنبیہ ہے، یعنی اسے متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ حق سے انکار نہ کرے یا اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ﴿وَلَا تَكْتُمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ﴾ ”اور گواہی کو مت چھپاؤ“ کا تعلق ہے تو یہ ایک عمومی خطاب ہے، جو گواہوں، قرض خواہ اور قرض دارتینوں کو مخاطب کرتا ہے۔ یعنی انہیں نہ گواہی کو چھپانا چاہیے، نہ اس میں تحریف کرنی چاہیے، اور نہ اسے اس کے درست مفہوم سے روکنا چاہیے۔ یہاں پر جو شرعی نہی (ممانعت) آئی ہے، وہ تحریمِ جازم (قطعی حرمت) پر دلالت کرتی ہے، یعنی یہ عمل حرام ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌۭ قَلْبُهُ﴾ ”اور جو اسے چھپاتا ہے، تو یقیناً اس کا دل گناہگار ہے“۔
اور اللہ تعالیٰ نے ﴿قَلْبُهُ﴾ ”اس کا دل“ کا ذکر ﴿ءَاثِمٌۭ﴾ ”گناہ گار“ کے بعد اس لیے کیا ہے تاکہ اس گناہ کی سنگینی کو واضح کیا جائے۔ کسی اعضاء کا ذکر اس کے عمل کے بعد لانا، دلیل اور تاکید کے اعتبار سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ہوتا ہے۔ جیسے کہا جائے: (هذا ما أبصرته عيني) ”یہ وہ ہے جو میری آنکھوں نے دیکھا“، تو یہ (هذا ما أبصرته) ”یہ وہ ہے جو میں نے دیکھا“ سے زیادہ موثر اور فصیح ہے۔ اسی طرح، (هذا ما سمعتـه أذنـاي) ”یہ وہ ہے جو میرے کانوں نے سنا“، یہ (هذا ما سمعـتـه) ”یہ وہ ہے جو میں نے سنا“ سے زیادہ زور دار اور بامعنی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿وَلَا تَكْتُمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌۭ قَلْبُهُ﴾ ”اور گواہی کو مت چھپاؤ، اور جو اسے چھپاتا ہے تو یقیناً اس کا دل گناہ گار ہے“، تو یہ تعبیر اس سے کہیں زیادہ قوی ہے کہ صرف یوں کہا جائے: (ومن يكتمها فإنه آثم) ”اور جو اسے چھپاتا ہے، وہ گناہگار ہے“۔ دل کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ گناہ دل کی گہرائیوں سے متعلق ہے، یعنی یہ محض ایک ظاہری جرم نہیں بلکہ باطنی خیانت ہے، جو ایمان کے مرکز (دل) کو متاثر کرتی ہے۔
اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کےاس فرمان : ﴿وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌۭ﴾ ”اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے“ کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کو جانتا ہے، خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ اللہ کے علم سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ اللہ رب العزت، تمہارے اعمال سے واقف ہے اور انہی کے مطابق تمہیں جزا یا سزا دیتا ہے، خواہ وہ نیک عمل ہوں یا برے۔
Latest from
- نوجوان نسل ( Gen Z ) مراکش کے تخت پر لرزہ طاری کئے ہوئے ہے
- پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر خون ریز جھڑپیں اور دونوں طرف سے اللہ تعالی کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی
- پاکستان اور افغانستان کے درمیان لڑائی ایک المیہ ہے جس کا حل صرف اسلام میں مضمر ہے
- اے مسلمانو! پہل کرو، اور اپنے معاملات کو دشمنوں کے ہاتھ میں نہ دو
- فکر کو اس کے علمبرداروں سے جوڑنا ہی حقیقی تبدیلی کا راستہ ہے