Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

فکر کو اس کے علمبرداروں سے جوڑنا ہی حقیقی تبدیلی کا راستہ ہے

 

( ترجمہ)

 

یہ بات اُن لوگوں پر واضح ہے جو پورے اخلاص کے ساتھ اسلام کے ذریعے امتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے کام کر رہے ہیں کہ امت کس حالتِ زار تک آن پہنچی ہے، کیونکہ دوسری اقوام اس امت پر اسی طرح ٹوٹ پڑی ہیں جیسے کوئی شکاری اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی غور کرنے والوں پر بھی عیاں ہے کہ امت اپنی حقیقت کو بخوبی سمجھتی ہے اور اپنی تکالیف و مصائب کے اسباب کو بھی پہچان چکی ہے۔ بہرحال، امت پر جو حقیقت واضح ہوئی ہے وہ زیادہ تر ان استعماری کفار، ان کے ایجنٹ حکمرانوں اور اُن حکومتوں تک ہی محدود ہے جو انہی استعماری طاقتوں نے امت کی گردنوں پر مسلط کر رکھی ہیں تاکہ وہ اسے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہیں، امت کے وسائل کو لوٹتے رہیں اور اس امت کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے ذریعے اپنے آپ کو استعماری تسلط سے نجات دلانے سے روکتے رہیں۔

 

نتیجتاً، امت کے اندر سے ہی بہت سے ’’داعی‘‘ اور ’’انفلوئنسرز‘‘ سوشل میڈیا پر ابھر کر سامنے آئے جو لوگوں سے ان کی تکالیف اور مصائب کے اسباب کی بابت  گفتگو کرتے ہیں۔ ان داعیان اور انفلوئنسرز کی بہت پذیرائی ہوئی اور ان کے بہت سے پیروکار بن گئے کیونکہ انہوں نے عوام الناس کے درد کو بیان کیا اور امت پر برپا ہونے والے مصائب اور دکھوں پر صبر و حوصلہ کرنے کی سی کیفیت کا حل پیش کیا۔ تاہم، انہوں نے امت  کے سامنے وہ درست حل پیش نہیں کیا جو انہیں واقعی ان کی بدحالی سے نجات دلائے، یعنی ایک تہذیبی، سیاسی اور اجتماعی متبادل کے طور پر خلافت کا قیام، جو حقیقتاً امت کی عزت و وقار کو بحال کرے گا۔

 

ان مبلغین اور انفلوئنسرز کی خامی اس بات میں ہے کہ وہ اپنے شعور اور امت کی آگہی میں اس زبوں حالی کی حقیقت اور امت کے مصائب کی جڑ، یعنی کہ امت پر مسلط یہ حکمران اور اس نظامِ حکمرانی کے حوالے سے وہ ربط قائم کرنے میں ناکا م رہے جو امت کو وہ حل پیش کر سکے جس کے حصول کے لئے امت کو کوشاں ہونا چاہیے۔ یہ انفلوئنسرز یہ وضاحت کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ موجودہ ابترصورتحال کو بہتر بنانے کا فریضہ سراسر امت کی ہی ذمہ داری ہے؛ اور یہ خود بخود واقع نہیں ہو جائے گا، اور نہ ہی اس ذمہ داری کو دوسروں کے سپرد کیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ امت کے کسی ایک گروہ کو بھی نہیں دیا جا سکتا، جب تک کہ وہ لوگ جو اس تبدیلی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہوں ان کی کوششیں ناکافی رہیں۔

 

ان مبلغین کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اسلام، جو کہ نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ کے قیام کی جدوجہد کرنے میں مجسم ہے،  اور سیاسی اسلام ہی وہ عمل ہے جو کرۂ ارض پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کے اطلاق کے شرعی فریضے سے انہیں اور تمام مسلمانوں کو بری کر دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان مبلغین نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ یہی واحد کام امت کو تبدیل کرنے اور مطلوبہ تبدیلی لانے کے لئے کافی ہے۔ حالانکہ جب وہ جانتے بھی ہیں کہ اس مقصد کے لئےکام کرنے والی واحد جماعت حزبِ التحریر ہے، تب بھی انہوں نے حزب کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا، اگرچہ عام لوگوں کے مقابلے میں ان پر یہ فریضہ زیادہ عائد ہوتا ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے سیاسی اسلام کے اس مقصد اور منصوبے سے الگ رہ کر انفرادی طور پر کام کرنے کو ترجیح دی، اور اس جماعت سے  علیحٰدہ رہتے  رہے جو ان شاء اللہ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا کردہ فتح سے ہمکنار ہو گی۔ حتیٰ کہ ان مبلغین میں سے کئی نے تو اس مقصد کے لئے لوگوں کو حزب میں شمولیت کرنے کی دعوت دینا تو درکنار، انہوں نے ایک قائد کے طور پر حزب کا نام لینے سے بھی گریز کیا، حالانکہ اس حقیقت کے باوجود کہ حزب ہی ان کی نجات کی کشتی کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مبلغین ان حکومتوں کی مقرر کردہ ’’مجاز حدود‘‘ میں رہ کر کام جاری رکھنا چاہتے تھے جن سے وہ ذاتی سلامتی کو نظریے کی سالمیت اور اس کے نفاذ پر فوقیت دیتے ہوئے آزادی کے خواب دیکھتے ہیں۔

 

امت کی صورتحال کی حقیقت اور اس کی زبوں حالی کی شعوری سمجھ صرف یہی تقاضا کرتی ہے کہ آئیڈیالوجی کو اقتدار تک پہنچایا جائے یعنی : حل کو اس کے علمبرداروں سے جوڑا جائے۔ جو چیز امت کو اس وقت درکار ہے وہ حزبِ التحریر کے ساتھ کام کرنا، حزب کے اردگرد یکجا ہونا اور حزب کو قیادت سونپنا ہے، یہاں تک کہ حزب اور امت یک جان و قالب میں ڈھل جائیں۔ لہٰذا مبلغین اور حزبِ التحریر کے اندر نیک اعمال انجام دینے والوں کی جدوجہد اس بات پر مرکوز ہونی چاہئیں کہ حل کو حزب کے ساتھ مضبوطی سے جوڑا جائے، تاکہ حزب پوری تندہی کے ساتھ تبدیلی کے اس کام میں امت کی قیادت کر سکے، اور آخری مرحلہ انجام دے یعنی : ان حکومتوں کو اکھاڑ کر نبوت کے طریقے پر دوسری خلافتِ راشدہ کا قیام۔

 

حل کو جماعت اور اس کے سیاسی افراد کے ساتھ ربط دینے کا مطلب اور اس کی ضرورت کو ذیل میں یوں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:

 

1- حل کے عملی پہلو کو اُجاگر کرنا اور اسے اس کے علمبرداروں سے جوڑنا:

 

حزب کا ماننا ہے کہ کوئی فکر اُس وقت ہی زندہ اور مضبوط بنتی ہے جب وہ سنجیدہ سیاسی شخصیات یا تحریکوں سے وابستہ ہو جو اس کا بار اٹھائیں اور اس کے لئے قربانیاں دیں۔ جب تبدیلی کا تصور اُن لوگوں سے منسوب ہو جو دیانت، شجاعت اور اخلاص کا مظہر ہوں، تو وہ زیادہ مؤثر اور پُرکشش بن جاتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ محض کتابوں میں یا لوگوں کے اذہان میں ایک نظریاتی خیال بن کر رہ جائے۔ یہی طریقۂ کار رسول اللہ ﷺ کا تھا، جنہوں نے لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو کھل کر پیش کیا، اپنی دعوت اعلانیہ طور پر  دی، اور قریش کی طرف سے مسترد کئے جانے اور خود پر اور اپنے صحابۂ کرام پر ایذاؤں کے باوجود اپنے واضح اور براہِ راست طرزِ دعوت پر قائم رہے۔

 

2- فکر کو دعوت سے لے کر عملی نفاذ تک منتقل کرنا:

 

حزب کے نزدیک اسلام کے تحت حکمرانی کا تصور محض تقاریر یا سوشل میڈیا کا موضوع نہیں، بلکہ ایک عملی منصوبہ ہے جسے کرۂ ارض پر نافذ کیا جانا ہے۔ لہٰذا، اس فکر کو حقیقی سیاسی قیادت کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے، جیسا کہ حزب، جو اپنے ان نوجوان مرد و خواتین (شباب) کے ساتھ مل کر اس تصور کو ایک  سیاسی حقیقت میں ڈھالنے کے لئے سرگرمِ عمل ہے، جو حزب کے ساتھ اپنی وابستگی میں معروف ہیں۔ حزب اور اس کے حاملین، امت کی قیادت اور حزب کے نام پر حکمرانی کا مطالبہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، بالکل ویسے ہی جیسے رسول اللہ ﷺ نے قریش کے ساتھ قیادت میں اشتراک کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

 

3- فکر کو  بگاڑ اور تحریف سے محفوظ رکھنا:

 

اگر کوئی فکر محض ایک خیالی تصور بن کر رہ جائے یا اس کے حاملین گمنام ہوں، تو حکومتیں یا مخالفین اسے سطحی طور پر اپنا کر اس کے اصل مفہوم کو مسخ کر سکتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اُس وقت ہوا جب داعش نے نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، جب کوئی فکر اپنے اصل داعیوں سے منسلک ہوتی ہے، تو لوگوں پر واضح ہو جاتا ہے کہ اس فکر کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور کون اسے خالی خول بنانے کی کوشش کر رہا ہے، یوں فکر کے ساتھ وفاداری ہمیشہ اس کے مخلص علمبرداروں کے ساتھ ہی جڑی رہتی ہے۔

 

4- عمومی شعور (الوعي العام) کی بنیاد پر رائے عامہ (الرأي العام) تشکیل دینا:

 

جب کسی فکر کو اس کے علمبرداروں اور اس فکر کے سیاسی نمائندوں سے جوڑا جاتا ہے تو تب ہی شعور کی بنیاد پر رائے عامہ وجود میں آتی ہے۔ لوگ محض نظریات کے پیچھے نہیں چل پڑتے، بلکہ اُن شخصیات یا سیاسی اکائیوں کے گرد جمع ہوتے ہیں جو ان افکار کا عملی نمونہ اور داعی ہوتے ہیں۔

 

5-نظریاتی حاملینِ دعوت کو موقع پرستوں سے ممتاز کرنا:

 

یہ ربط اُن لوگوں کو بے نقاب کرتا ہے جو ذاتی مفاد کی خاطر یا دیگر حکومتوں کے ایجنڈوں کو تقویت دینے کے لئے تبدیلی کی لہر پر سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کے لئے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہ فکر حزب اور اس کے شباب سے وابستہ ہے، تاکہ وہ جعلی متبادلات کے دھوکے میں نہ آئیں۔

 

انفرادی کام یا وہ کام جو خلافت کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والےحاملینِ دعوت اور اُنہیں متحد رکھنے والی حزب سے منسلک نہ ہو، شرعاً مباح تو ہے، مگر حکومتیں جانتی ہیں کہ ایسے کام ان کے وجود کے لئے کوئی حقیقی خطرہ نہیں رکھتے۔ چاہے ایسی کوششیں کتنی ہی زیادہ یا زور وشور سے ہی  کیوں نہ ہوں، لیکن وہ مطلوبہ تبدیلی کا مقصد حاصل نہیں کر سکتیں۔ حتیٰ کہ کثیر تعداد میں فالوورز رکھنے والے وہ لوگ بھی جو صرف امت کے دکھ درد کے بارے میں بات کر لیتے ہیں، وہ بھی اس دعوت کو اقتدار تک نہیں پہنچا سکتے۔ اگر یہ مبلغین اپنی کامیابی کو صرف اپنے فالوورز کی بڑی تعداد میں دیکھنے لگیں، تو یہ فالوورز تو  اُسی وقت تتر بتر ہو جائیں گے جب ان سے اس سیاسی اور شرعی جدوجہد میں حصہ لینے کو کہا جائے گا جو دعوت کو اقتدار تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے۔ جب ان پر ذمہ داری آن پڑتی ہے اور عملی کام کرنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کا جوش وخروش ماند پڑ جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

﴿ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا

 

”وہ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے، مگر جب وہ اس کے پاس پہنچتا ہے تو پاتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں‘‘۔ [سورۃ النور؛ 24:39]

 

اسی لئے حزب کا ماننا ہے کہ جب اس کی فکر کو خود حزب اور اس کے مخلص داعیوں سے جوڑ دیا جائے، تو یہ فکر مؤثر، عملی، بگاڑ سے محفوظ اور باشعور سیاسی قیادت سے مربوط ہو جاتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے اسے میدانِ عمل میں عملی شکل دی جا سکتی ہے، برعکس اُن نظریات کے جو بے ربط چھوڑ دیے جائیں یا دشمن، جاہل یا گمراہ عناصر کے ہاتھوں مسخ ہو جائیں۔لہٰذا، حاملینِ دعوت سمیت تمام مخلصین کا کام واضح بنیاد پر اور درست منبع پر قائم ہونا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں ہے:

 

﴿ قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

 

”کہہ دو: یہی میرا راستہ ہے، میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور وہ جو میری پیروی کرنے والا ہے، اور اللہ پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ [سورۃ یوسف؛ 12:108]

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو براڈ کاسٹ کے لئے تحریر کیا گیا

 

بلال المہاجر - ولایہ پاکستان

 

 

Last modified onمنگل, 14 اکتوبر 2025 21:03

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.