بسم الله الرحمن الرحيم
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ذریعے پاکستان کی تباہ کن معاشی استعماریت
(مترجم)
الخبر:
واشنگٹن، ڈی سی: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے وفد، جس کی قیادت ناتھن پورٹر کر رہے تھے، نے 24 فروری سے 14 مارچ 2025 تک کراچی اور اسلام آباد میں مذاکرات کیے، جس کے بعد ورچوئل مشاورت بھی جاری رہی۔ یہ مذاکرات پاکستان کے اقتصادی پروگرام کے پہلے جائزے کے سلسلے میں ہوئے، جو توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت جاری ہے، اور ساتھ ہی بحالی و پائیداری سہولت (RSF) کے تحت ایک نئے مالیاتی انتظام پر بھی بات چیت کی گئی۔ (ماخذ: IMF)
التعليق:
آئی ایم ایف کے معاہدے کو پاکستان کے حکمران اور ان کے حامی ذرائع ابلاغ اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے یہ مالی استحکام اور اقتصادی بحالی کی جانب ایک بڑا قدم ہو۔ اگرچہ مالیات کسی بھی معیشت کی شہ رگ ہے، جو ترقی کو آگے بڑھاتی، جدت کو فروغ دیتی اور مؤثر حکمرانی کو یقینی بناتی ہے، لیکن پاکستان کے مالیاتی فیصلے بدستور استعماری اداروں کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ ادارے ملکی معاشی پالیسیوں اور محصولات کے نظام کو طے کرتے ہیں، تاکہ پاکستان کو امریکی قیادت میں چلنے والے عالمی اقتصادی اور مالیاتی نظام کے تابع رکھا جا سکے۔
پاکستان کا ٹیکس بہ نسبت مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) تناسب 9 سے 10 فیصد ہے، جبکہ فی کس آمدنی صرف 1,500 ڈالر ہے، جو بھارت (16 سے 17 فیصد اور 2,500 ڈالر) اور امریکہ (25 سے 27 فیصد اور 76,000 ڈالر) کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ ٹیکس بہ نسبت جی ڈی پی کا ہدف بڑھانے کا مطلب پہلے سے مفلس عوام پر مزید بوجھ ڈالنا ہے، جبکہ اس سے فائدہ صرف مالیاتی اشرافیہ کو پہنچتا ہے۔ آئی ایم ایف کی مالیاتی پالیسیاں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے اس کی مالی دستیابی (لیکویڈیٹی) کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے یقینی بنانے پر مرکوز ہیں، جس کا براہِ راست فائدہ مقامی مالیاتی اشرافیہ اور غیر ملکی قرض دہندگان کو ہوتا ہے۔ یہ پالیسیاں ملک کی دولت نچوڑ کر اسے مسلسل معاشی کمزوری اور بدحالی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔
تاریخی طور پر، پاکستان کی معیشت ریاست کے زیرِ قیادت تھی، جہاں مالیاتی پالیسیوں، قرضوں کی تقسیم، اور صنعتی ترقی کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ تاہم، نجکاری، اسٹیٹ بینک کی عملی آزادی، افراطِ زر کے ہدف کی پالیسیوں اور نجی شعبے کی قیادت میں سرمایہ کاری نے ریاستی کنٹرول کو کمزور کر دیا ہے۔ آج، اقتصادی وسائل چند ہاتھوں میں مرکوز ہیں، جس سے عدم مساوات میں اضافہ اور حکمرانی کی کمزوری ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر لاگو کی جانے والی قیمتوں کے حساب سے ٹیرف، سبسڈیوں میں کمی، اور توانائی کے شعبے کی ساختی اصلاحات کے باعث بلند قیمتوں نے صارفین اور صنعتوں پر مزید بوجھ ڈالا ہے۔ اگرچہ پاور پرچیز ایگریمنٹس (PPAs) کی نئی شرائط اور صنعتوں کو قومی گرڈ پر منتقل کرنا عارضی استحکام فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ زیادہ تر نجی شعبے کے مفادات کی خدمت کرتے ہیں، بے روزگاری میں اضافہ کرتے ہیں، اور مزید لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
طاقتور ریاستیں اہم شعبوں پر اسٹریٹیجک کنٹرول برقرار رکھتی ہیں تاکہ قومی استحکام اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم، پاکستان نے نجکاری اور ڈی ریگولیشن کے باعث بتدریج یہ کنٹرول کھو دیا ہے، جس سے ریاستی ادارے کمزور ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر 1990 کی دہائی سے جاری لبرلائزیشن کی پالیسیوں نے ریاستی صلاحیتوں کو ختم کر دیا ہے، جس سے پاکستان ایک ایسی راہ پر گامزن ہو گیا ہے جو اسے معاشی طور پر کمزور اور انحصار پذیر بنا رہی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے چھوٹے اور کمزور ممالک ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں، جن میں مزید ٹیرف میں کمی شامل ہے، صنعتوں کے زوال کو تیز کر سکتی ہیں اور پاکستان کو ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے محض ایک منڈی میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ یہ انحصار پر مبنی ماڈل پاکستان کی معاشی خودمختاری کو تباہ کر رہا ہے اور اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
موسمیاتی عمل کا فریم ورک عالمی ناہمواریوں کو مزید بے نقاب کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر دباؤ ہے کہ وہ 2030 تک CO₂ کے اخراج میں 50% کمی کریں، جبکہ صنعتی ممالک، خصوصاً امریکہ، بدستور بلند سطح پر آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ مغربی حمایت یافتہ موسمیاتی منصوبے، جو زیادہ تر قرضوں کے ذریعے فنڈ کیے جاتے ہیں، حقیقی پائیداری کو فروغ دینے کے بجائے قرضوں کے جال کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کو موسمیاتی منصوبوں کی طرف موڑنا ان بنیادی سرمایہ کاریوں کی قیمت پر ہو رہا ہے جو معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اس طرح کی بیرونی مسلط کردہ پالیسیاں پاکستان کو پسماندگی اور مالیاتی غلامی کے چکر میں جکڑے رکھتی ہیں۔
پاکستان کی سماجی و معاشی حالت بدتر ہو چکی ہے۔ بنیادی ضروریات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، جہاں آمدنی کا 48 فیصد حصہ خوراک اور 28 فیصد توانائی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ غربت کی شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے، یعنی 9 کروڑ 50 لاکھ لوگ اس کی لپیٹ میں ہیں۔ شہری خاندان کم از کم اجرت میں گزارہ کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ دیہی کسان پیداواری صلاحیت میں کمی اور بڑھتی ہوئی لاگت سے دوچار ہیں۔ کاروبار گرتی ہوئی قوتِ خرید کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بلند ٹیکس اور مہنگی توانائی پیداواری اخراجات میں اضافہ کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں کارخانے بند ہو رہے ہیں اور روزگار کے مواقع ختم ہو رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال نے بے روزگاری میں اضافہ، اجرتوں کو جمود کا شکار اور معیشت کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر لاکھوں پاکستانی بیرون ملک مواقع تلاش کر رہے ہیں، جس سے برین ڈرین تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ملک ہنر مند افرادی قوت سے محروم ہو رہا ہے۔ پاکستان کو اس استعماری نظام کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا اور وحی پر مبنی راستے کو اختیار کرنا ہوگا جو پوری دنیا میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرے گا۔
خلافتِ راشدہ کے معاشی اور مالیاتی احکامات وحی پر مبنی ہیں، جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ، الحکیم اور العلیم کی طرف سے نازل کیے گئے ہیں۔ خلافتِ راشدہ دولت کی منصفانہ تقسیم، حلال ذرائع سے خوشحالی، اور شریعت کے مطابق آمدنی کے ذرائع کو یقینی بنائے گی، جبکہ بیرونی انحصار اور استعماری اداروں کو مکمل طور پر مسترد کرے گی۔ خلافت سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی کا اجرا کرے گی، سود (ربا) کا مکمل خاتمہ کرے گی، موجودہ کرپٹ حکمرانوں اور سرکاری اہلکاروں سے لوٹی گئی دولت ضبط کرے گی، اور توانائی و معدنی وسائل کو امت کے فائدے کے لیے منظم کرے گی۔ فوجی لحاظ سے، خلافت خود کفالت حاصل کرے گی اور دشمنوں کو روکنے کے لیے جدید ترین فوجی مصنوعی ذہانت، سائبر جنگ، اور خلائی ٹیکنالوجی میں پیش رفت کرے گی۔ بھاری صنعتوں کی ترقی استعماری فوجی بالادستی کا ایک اہم ستون ختم کر دے گی، یعنی مسلم افواج کو استعماری طاقتوں کی فوجی صنعتوں پر انحصار سے نجات مل جائے گی۔ بیرونی اقتصادی معاملات کو سختی سے کنٹرول کیا جائے گا تاکہ اسلامی خودمختاری محفوظ رہے۔
معاشی استعمار سے حقیقی نجات (تحریر) حاصل کرنے کے لیے امت اور اس کی افواج پر لازم ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کو برطرف کریں اور خلافت راشدہ کو نبوت کے نقشِ قدم پر دوبارہ قائم کریں۔ یہی نظام عدل، وقار اور قوت کو بحال کرے گا اور امت کو اس کے اس منصب پر واپس لے آئے گا جو اللہ نے اسے عطا کیا، یعنی انسانیت کے لیے بہترین امت بننے کا شرف۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے: تم اچھائی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" (ترجمۂ معانی قرآن، سورۃ آل عمران: 3:110)
تحریر: محمد عفان، ولایہ پاکستان
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...