Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي

ہجری تاریخ    1 من محرم 1360هـ شمارہ نمبر:
عیسوی تاریخ     منگل, 23 ستمبر 2025 م

 

بابرکت سرزمین کے معاملے کو کمزور کرنے والی کانفرنسیں ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہیں جب وہاں کے لوگوں کا خون بہہ رہا ہے

 

(ترجمہ)

 

غزہ میں بمباری، بچوں کے جسم جلا رہی ہے، بھوک اُن کے جسموں کو کھا رہی ہے، ٹینک لوگوں کی زندگیاں اور گھروں کو روند رہے ہیں، اور جنگی طیارے ہسپتالوں اور خیموں پر آگ برسا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں فرانس اور سعودی عرب کے کہنے پر 22 ستمبر 2025 کو نیویارک میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی اور اس کانفرنس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

 

یہ کانفرنس ایسے وقت پر ہوئی جب فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے اور قتلِ عام شدت پر ہے۔ یہ کانفرنس ان ممالک نے بلائی جو دو سال سے جاری نسل کشی، بھوک اور بچوں کی ہلاکتیں دیکھتے رہے، آج تک غزہ کے لوگوں کو ایک گھونٹ پانی تک نہیں دیا۔ اب اچانک فلسطینی ریاست کی بات کرنا کیا کسی جاگنے کی علامت ہے یا فلسطینیوں کے خون اور اُن کے حق کو دفن کرنے کا ایک اور طریقہ؟

 

یہ کانفرنس بھی اُن پچھلی درجنوں قراردادوں جیسی ہے جو کبھی یہودیوں کے مظالم اور حملوں کو نہیں روک سکیں۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا موجودگی موقف بھی ایسے ہی ہے جیسے فرانسیسی صدر نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان "مفید مذاکرات" ممکن ہوں گے۔ سب جانتے ہیں کہ یہود سے مذاکرات کا کیا مطلب ہے، لیکن یہ کانفرنس اپنے اندر زہر لیے ہوئے ہے، چاہے یہ فلسطینیوں کی مظلومیت کا نقاب اوڑھے یا ان کے حقوق کے دفاع کی آڑ لے۔ فلسطینی ریاست کے اعتراف کا مسئلہ، درحقیقت فلسطین کے مسئلے کو ختم کرنے کا راستہ ہے، اور یہی بات مذکورہ کانفرنس کے بیانات نے بھی واضح کی ہے، جب اس کانفرنس نے حل کی بنیاد یہودی وجود، اس کی سلامتی اور اسی کی بقا کو قرار دیا، اور جب اس نے فلسطینیوں کے جہاد کو مذموم دہشت گردی کے طور پر پیش کیا۔ نتیجتاً مغرب کی خبیث سازش کے تحت اور اسی غاصب وجود کی خواہشات کے مطابق ایک چھوٹی سی مسخ شدہ اور خود ساختہ ریاست کی تجویز دی ہے جو ہر چیز مثلاً زمین، ہتھیار، وسائل، تحفظ اور وقار، سے محروم ہو تاکہ یہودی وجود کی حفاظت اور دائمی بقاء یقینی بنائی جا سکے۔ یہ ریاست ایک سستا اوزار ہو گا، اور فلسطین کے مسئلے کو دفن کرنے اور اس سے دستبرداری کا حقیر بدلہ ہوگا، نیز یہ ریاست وہ پل ہوگا جس کے ذریعے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پہ لانے کی بساط بچھائی جائے گی۔

 

اسی طرح، کانفرنس کے اختتامی بیان میں ایک ذلیل تجویز بھی شامل ہے جو فلسطین پر ایک نئے قبضے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کے تحت ایک بین الاقوامی مشن بھیجا جائے گا جو امریکی کوآرڈینیٹر کے منصوبے اور یورپی پولیس کی طرز پر غزہ کے علاقے کی نگرانی کرے گا!

 

امریکہ چاہتا ہے کہ فلسطینی ریاست ہو بھی تو ایک غیر مسلح، کمزور سی خود مختار حکومت ہو جو صرف فلسطین کے ایک حصے کے کسی اور چھوٹے سے حصے میں ہو اور وہ بھی اسرائیلی کنٹرول میں ہو!! فلسطینی اتھارٹی یا ایجنٹ حکمران اسے جتنا مرضی "ریاست" کہیں، حقیقت یہی ہے کہ امریکہ اسے کسی خودمختار ریاست کی شکل میں قبول نہیں کرے گا، چاہے وہ فلسطین کے حصے کے بھی ایک حصے پر ہی کیوں نہ ہو؛ بلکہ امریکہ، اس کے لیے ایسی نیم خودمختاری چاہتا ہے جو دراصل ہتھیاروں کے بغیر ہو، سوائے اتنی مقدار کے ہتھیاروں کے جو مقامی پولیس کو فلسطینی عوام پر ظلم و جبر انجام دینے کے ایک آلے کے طور پر درکار ہوں، اور یہ سب کچھ بھی یہودی بالادستی اور کنٹرول میں ہو۔

 

یہ وقت کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ وہی استعماری طاقتیں، جیسے فرانس اور برطانیہ، جنہوں نے تقریباً 80 سال پہلے یہودی وجود کو پیدا کیا، اب "دو ریاستی حل" کی بات کر رہے ہیں جو کہ دراصل یہودی وجود کو مضبوط کرنے کے مقصد سے ہے۔ ان کے ساتھ وہی غدار حکمران آواز ملا رہے ہیں، جنہوں نے 1948 اور 1967 میں فلسطین کو، اپنے ہی لوگوں کے خون میں لت پت ایک آساں نوالے کی شکل میں دشمن کے حوالے کر دیا، اور آج، جب ان حکمرانوں کے لیے اس مجرم یہودی وجود کو تسلیم کرنا ایک طے شدہ معاملہ بن چکا ہے، تو وہ فلسطینی ریاست کی شکل میں ٹکڑے مانگ رہے ہیں، اور اسے جشن مناتے ہوئے پیش کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی فتح اور غنیمت ہو!

 

اے امت مسلمہ!

 

مسجد اقصیٰ اور بابرکت سرزمین کو اردن، مصر، حجاز، ترکی یا پاکستان کے حکمران آزاد نہیں کریں گے، کیونکہ یہ سب غداری کے عادی ہو چکے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ "دو ریاستی حل" کے ذریعے اس مسئلے کو ختم کیا جا سکتا ہے تو وہ دھوکے میں ہیں۔ فلسطین اسلام کا نگینہ ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بیتِ الحرام کے ساتھ ایک نسبت سے جوڑا۔  وہ نسبت جب اللہ نے اپنے بندے ﷺ کو رات کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کروائی۔ اللہ کا فرمان ہے:

 

﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ

"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی، جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی۔"

(سورۃ بنی اسرائیل: آیت 01)

 

اسلامی عقیدہ ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم اس زمین کو چھوڑ دیں۔ استعماری قوتوں کے لائے گئے حل، اور ان کے بنائے گئے اصول، اور جو غدار حکمران ان کی تشہیر کرتے ہیں، سب مٹ جائیں گے اور یہودی وجود کا انجام تباہی ہے اور پھر فلسطین، ایک دن ضرور، اسلام کی پاک زمین بن کر واپس آئے گا، جیسے صلیبیوں کے قبضے سے آزاد ہوا تھا۔

 

﴿فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيراً

 

" پھر جب دوسری بار کاوعدہ آیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اورتاکہ مسجد میں داخل ہوجائیں جیسے پہلی باراس میں داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے تباہ وبرباد کردیں" (سورۃ بنی اسرائیل: آیت 07)

 

اے مسلمانو!

 

اللہ کے فضل سے، فلسطین کے عوام اُن لوگوں سے نقصان نہ پائیں گے جنہوں نے انہیں چھوڑ دیا۔ ان کے لیے القوی اور العزیز اللہ کی طرف سے ایک عظیم فتح کا وعدہ ہے۔ مگر اس فتح کا راستہ ان ایجنٹ اور خائن حکمرانوں سے امت مسلمہ کی آزادی سے ہو کر گزرتا ہے، جو ان کے سینوں پر براجمان ہیں مسلمان تنگدستی اور ذلت میں ہی رہیں گے جب تک کہ وہ اپنے اوپر سے ذلت کا غبار نہ جھاڑیں، ظالموں کے خلاف متحد نہ ہوں، اور افواج میں موجود اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے مطالبہ نہ کریں کہ وہ فوراً خلافتِ راشدہ قائم کریں، وہ خلافت جس کا وعدہ اللہ نے دیا ہے اور خوشخبری رسولؐ نے سنائی ہے۔ یہی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پکار ہے اور یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف حزب التحریر بلا رہی ہے۔ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے، تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔

 

جو سمجھتا ہے کہ خاموش رہ کر وہ غداروں سے محفوظ رہے گا، وہ غلطی پر ہے۔ یہ مجرم حکومتیں ہمیں ذلت میں رکھیں گی، اور ہمارے بچوں کو خوف، بھوک اور مصیبت میں ڈالے رکھیں گی۔ دنیا اور آخرت میں نجات صرف اسی صورت ہے کہ ہم اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے دن اور رات کام کریں، اور مجرم حکومتوں کو گرا دیں۔ اور جو شخص اس بھلائی میں دیر کرے، تو وہ صرف اپنی ہی ملامت کرے جب وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا اور اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی۔ اور اس بارے میں آپ کے لیے یہ حدیث کافی ہے جو مسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا:  

 

«يَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَيْراً فَلْيَحْمَدِ اللهَ، وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ ‌فَلَا ‌يَلُومَنَّ ‌إِلَّا ‌نَفْسَهُ»

 

"اے میرے بندوں! یہ تو تمہارے اعمال ہیں، میں انہیں تمہارے لیے گنوں گا پھر تمہیں ان کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جس نے بھلائی پائی وہ اللہ کی حمد کرے، اور جس نے کچھ اور پایا تو وہ اپنی اپنی جان کو ہی ملامت کرے"

 

اے اللہ! اس پیغام کو ہمارے ذریعے سے عام کر دے، مسلمانوں کے دلوں کو اس سے منور فرما، اس کی طرف مائل فرما اور ہمیں اپنی طرف سے مددگار طاقت عطا کر۔ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، جو رب العالمین ہے۔

 

                                     

 

1 ربیع الثانی 1447ھ                                 حزب التحرير

 

منگل، 23 ستمبر 2025                                                              الأرض المباركة فلسطين

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.