Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پریس ریلیز
ہندوستان کی انتہا پسند ہندو حکومت اپنے گندے کاموں کے لیے "نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی" کو استعمال کر رہی ہے، اور ایک بار پھر آئیڈیالوجی پر قائم سچی سیاسی جماعت، حزب التحریر، کی کردارکشی کر رہی ہے
( ترجمہ)

 

14 جون 2025 کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) نے نام نہاد "حزب التحریر کیس" کے تحت ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں تین مقامات اور راجستھان کے جالور شہر میں دو دیگر مقامات پر مربوط چھاپے مارے۔ ایجنسی کا دعویٰ تھا کہ اس کارروائی کا مقصد حزب التحریر کے خلاف مزید ثبوت اکٹھا کرنا تھا، اور اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے "ڈیجیٹل آلات اور جماعت کو مجرم ثابت کرنے والا مواد" برآمد کیا ہے — جو کہ غالباً محض کتابیں اور اسٹیشنری سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔ اس کارروائی سے قبل جھارکھنڈ کی انسدادِ دہشت گردی یونٹ نے اسی کیس میں دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ حکومتِ ہند نے 10 اکتوبر 2024 کو ایک جابرانہ حکم جاری کرتے ہوئے حزب التحریر پر پابندی عائد کی، اس وجہ کو بنیاد بنا کر کہ یہ جماعت "عالمی خلافت" کے قیام کے لیے سرگرم ہے اور یہ دہشت گردی و انتہاپسندی کے زمرے میں آتا ہے۔

 

جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی حزب التحریر یا اس کے کارکنان پر دہشت گردی کے کسی بھی الزام کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تمام حکومتوں، بشمول موجودہ حکومت، نے مسلمانوں، قبائلیوں، اور معاشرے سے خارج شدہ طبقات کو منظم طریقے سے نسل پرستانہ پالیسیوں اور ظالمانہ قوانین کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔ ان حکومتوں نے بغاوت کے قانون، غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون، قومی سلامتی قانون اور مسلح افواج کے خصوصی اختیارات جیسے قوانین کو مخالفین کو خاموش کرانے اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کیا، جس سے خوف کا ماحول پیدا ہوا اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بنا دیا گیا۔ موجودہ حکومت نے اس ظلم کو کئی گنا بڑھا دیا ہے؛ آئینی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، اور مسلمانوں سے بے جا اور ذلت آمیز انداز میں وفاداری کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود بھارتی مسلمان اپنے عقیدے اور تاریخ سے طاقت لیتے ہوئے ثابت قدم ہیں اور قوم پرستانہ، تفرقہ انگیز بیانیے کے آگے جھکنے سے انکاری ہیں۔

 

حالیہ ایک تحقیق، جو "پیپلز یونین فار سول لبرٹیز" کی جانب سے کی گئی، نے غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے اطلاق میں خطرناک رجحانات کو بے نقاب کیا ہے: 2015 سے 2020 کے درمیان 8371 گرفتاریاں ہوئیں، مگر صرف 235 سزا یافتہ قرار پائے — یعنی صرف 2.8٪۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 97.2٪ گرفتار شدگان بغیر کسی سزا کے برسوں قید رہے اور آخرکار ایک طویل اذیت اور ناانصافی جھیلنے کے بعد بری ہو گئے، حتیٰ کہ بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے بھی خبردار کیا کہ دہشت گردی سے متعلق قوانین کو اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے، مگر تمام حکومتیں مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، جس سے خوف کی فضا پیدا ہو رہی ہے اور بغیر عدالتی فیصلے کے طویل حراست کے عمل کو فروغ مل رہا ہے۔

 

متعدد مقدمات اسی تسلسل کو ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان جابرانہ قوانین کے ذریعے مسلسل دھمکایا جاتا ہے، جن میں کئی سال بلکہ دہائیاں جیل میں گزارنے کے بعد عدالتیں انہیں بے گناہ قرار دیتی ہیں، جبکہ ان کی زندگیاں برباد ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال تامل ناڈو میں حزب التحریر کا کیس ہے، جہاں سنگین الزامات کے باوجود چارج شیٹ میں کوئی قابلِ اعتماد ثبوت شامل نہیں کیا گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ریاست دہشت گردی کے قوانین کو اقلیتی برادریوں کو کچلنے، اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے اور مسلمانوں میں خوف پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

 

ہندوستان میں انتہا پسند ہندو حکومت، جسے آر ایس ایس کی پشت پناہی حاصل ہے، مسلمانوں اور ان کی تنظیموں و افراد کو نشانہ بنانے پر حد سے زیادہ توجہ دے کر مسلسل عوامی رائے سے کھیل رہی ہے تاکہ وہ ملک کے معاملات کو سنبھالنے میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال سکے۔ اس نے وقف ایکٹ میں ترمیم، تین طلاق کے جرم کی سزا جیسے ظالمانہ قوانین نافذ کیے، مگر ان سنگین بحرانوں کو نظرانداز کیا جو ملک کو درپیش ہیں: مثلاً

 

• 4 کروڑ 90 لاکھ زیر التوا عدالتی مقدمات

 

• شدید معاشی عدم مساوات: صرف 1% طبقہ 58% ملکی دولت کا مالک ہے، جبکہ فی کس قومی آمدنی صرف 2880 امریکی ڈالر ہے (دنیا میں 119ویں نمبر پر)

 

• بیروزگاری کی شرح 7.6% ہے اور لاکھوں افراد غیر محفوظ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں

 

• پسماندہ سرکاری صحت کے نظام کی بدولت ہلاکتیں ہوتی ہیں خاص طور پر بچوں کی ہلاکتیں، جس سے بدانتظامی اور کرپشن کا نتیجہ ہے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ، مانیپور، گجرات، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں پسماندہ برادریوں پر، گھروں کو منہدم کرنے، ماورائے عدالت قتل کرنے، اور جیلوں میں اذیت دینے کی صورت میں سرکاری و نسلی حملے جاری ہیں۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت کی ترجیحات عوام کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے سے کوسوں دور ہیں اور یہ ایک خطرناک گمراہی کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ لہٰذا ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں:

 

ہم امید کرتے ہیں کہ حکومتِ ہند اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کچھ ہوش سے کام لیں گے، اپنے موقف پر نظرثانی کریں گے، اور حزب التحریر سے متعلق اپنے رویے کو درست کریں۔

 

1. حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ یہ پچاس سے زائد ممالک میں سرگرمِ عمل ہے اور اس کا ریکارڈ پرامن جدوجہد پر مبنی ہے، جو خالصتاً اسلامی عقیدے کی اساس پر استوار ہے۔

 

2. کئی انسانی حقوق کے علمبردار اس جماعت کی تحسین کرتے ہیں کہ یہ فکری و سیاسی جدوجہد کا راستہ اپناتی ہے اور تشدد سے اجتناب کرتی ہے۔

 

3. یہ جماعت امتِ مسلمہ کے بیٹوں کے درمیان ہر جگہ کام کرتی ہے، خواہ نظام جمہوری ہو یا آمریت یا بادشاہت، اور کسی دہشت گردانہ کارروائی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔

 

4. اس کا مرکزی پیغام مسلم ممالک میں خلافتِ راشدہ کے قیام کا ہے، اور اس جدوجہد میں وہ اپنی طاقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان سے اور پھر امت کے عزم و استقلال سے حاصل کرتی ہے۔ یہ جماعت ظلم و ستم کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے مشہور رہنما مہاتما گاندھی نے بھی 1919 سے 1922 کے درمیان اپنی تحریروں میں اس تصور کی حمایت کی تھی۔

 

5. حزب التحریر کا منھج  سیرتِ نبوی ﷺ سے اخذ کردہ ہے، جو مکالمہ، فکری دعوت اور عقیدے کی وضاحت پر مبنی ہے۔

 

6. جماعت کا تمام لٹریچر انٹرنیٹ، چھپی ہوئی کتابوں، اور ایمیزون جیسے بڑے پلیٹ فارمز پر عام دستیاب ہے — جو اس کے کھلے فکری مکالمے کے عزم کا ثبوت ہے۔

 

7. گزشتہ دہائیوں کی طرح، اس سال بھی حزب التحریر نے دنیا بھر میں اپنی سالانہ خلافت کانفرنسز کا انعقاد کیا — جن میں سے ایک امریکہ میں اپریل 2025 میں منعقد ہوئی — بغیر کسی رکاوٹ یا گرفتاری کے۔ تو کیا نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی یہ سب دیکھنے سے قاصر ہے، حالانکہ دیگر تمام معاملات میں وہ امریکہ سے ہدایات لیتی ہے؟!

 

ہم دنیا کے باشعور لوگوں سے پوچھتے ہیں: آخر کون سا "دہشت گرد" گروہ اپنی کتابیں مشہور ویب سائٹس پر فروخت کرتا ہے، اور دہائیوں کے دورانیے پر مشتمل علانیہ کانفرنسیں منعقد کرتا ہے؟

 

حزب التحریر، جو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سیاسی جماعتوں میں سے ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ثابت کر رہی ہے کہ وہ دبائی نہیں جا سکتی، اور نہ ہی وہ پیچھے ہٹے گی۔ بلکہ یہ خلافت کے قیام کے حوالے سے امت کی آرزوؤں اور تمناؤں کی ترجمان ہے۔

 

ہم پوری امتِ مسلمہ سے بالعموم، اور علمائے کرام سے بالخصوص مخاطب ہیں: حزب التحریر پوری سچائی اور اخلاص کے ساتھ عالمِ اسلام میں بیداری کی ایک مشعل کے طور پر کام کر رہی ہے، اور یہ جماعت 1953 میں شیخ تقی الدین النبہانی رحمہ اللہ — جو کہ ایک جلیل القدر قاضی، مفکر جامعۃ الازہر کے فاضل اور فلسطینی تھے — کی جانب سے، اپنے آغاز سے لے کر اب تک سیرتِ نبوی ﷺ کے اصولوں پر قائم ہے۔

 

آخر میں، ہم بھارت کے مسلمانوں کو ان کے عظیم اسلاف کی یاد دلاتے ہیں: شیخ سید احمد شہید، شیخ شاہ ولی اللہ دہلوی،

 

شیخ احمد سرہندی،اور شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمہم اللہ، کہ کیسے انہوں نے امتِ مسلمہ کی عزت و سربلندی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں، اور اسی راستے پر چلتے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔

 

پس اے مسلمانو! اٹھو اور دوسری خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے کام کرو، اور اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ}

"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کیے بغیر رہنے والا نہیں، چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔" (سورۃ التوبة، آیت 32)

 

CMOانجینئر صلاح الدین عدادہ

 

ڈائریکٹر، مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

 

ہجری تاریخ :27 من ذي الحجة 1446هـ
عیسوی تاریخ : پیر, 23 جون 2025م

حزب التحرير
مرکزی حزب التحریر

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.