Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

اسلام اور انبیا کے ادیان

 

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ  ہمارے شیخ اللہ آپ پر رحم فرمائے کتاب نظام الاسلام میں لکھا ہے کہ اسلام  وہ دین ہے جس کو اللہ تعالی نے محمد ﷺ پر نازل کیا  تاکہ  انسان کے اپنے خالق  اپنے نفساور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کو منظم کیا جائے۔

 

میرا سوال یہ ہے  کیا اسلام صرف محمد ﷺ پر نازل کیا  گیا؟  کسی سابقہ نبی پر نہیں  اور سابقہ انبیا کا مذہب  کیا تھا؟

 

جواب کے لیے شکر گزار رہوں گا اللہ تعالی ٓپ جو جزائے خیر دے والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ابو سارہ

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ نے اپنے سوال سے اسلام کی تعریف کی طرف اشارہ کیا ہے جو ’’نظام الاسلام،، کتاب میں( اسلامی نظام) کی بحث کے شروع میں بیان کی گئی ہے، جو کہ یہ ہے:

 

( اسلام وہ دین ہے جس کو اللہ تعالی نے انسان کے اپنے خالق اپنے نفس اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنے کےلیے محمد ﷺ پر نازل کیا ہے۔  اللہ کے ساتھ انسان کے تعلقات میں عقائد اور عبادات شامل ہیں، اس کے اپنے نفس کے ساتھ تعلقات میں  اخلاق ،مطعومات اور ملبوسات شامل ہیں، جبکہ اس کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات میں معاملات اور اخلاق شامل ہیں)۔

 

لفظ اسلام اور  اس کے (اصل)مادہ کے  مشتقات derivatives شرعی نصوص میں لغوی معنی یعنی لغوی حقیقت میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور  اصطلاحی معنی یعنی  شرعی حقیقت میں بھی،  جہاں تک لفظ اسلام کے لغوی معنی کا تعلق ہے  تو اس کے معنی ہیں  سرنڈر کرنا، تابعداری کرنا، اخلاص کا  ثبوت دینا،  جہاں تک اصطلاحی  معنی کا تعلق ہے  تو یہ  لفظ اسلام کا بطور عَلَم (نام)کے خاص طور پر  اس دین پر اطلاق ہے جس کو اللہ  سبحانہ وتعالی نے سیدنا محمد ﷺ نازل کیا جیسا کہ کتاب نظام الاسلام  سے اس کی تعریف  اوپر نقل کی گئی جس کی وضاحت یوں ہے:

 

پہلا: لفظ اسلام کا لغوی معنی(لغوی حقیقت):

۱۔ لغت کی ڈکشنریوں میں  لفظ اسلام کا لغوی معنی اس طرح ہے:

ا۔ (لسان العرب (۱۲ ۔۲۸۹ )

اسلام استسلام اور انقیاد، اسلام شریعت میں عاجزی کا اظہار   جھکاؤ، شریعت  کا غلبہ اور رسول اللہ ﷺ جو کچھ لے کر آئے ہیں اس کی پابندی۔۔۔ابوبکر محمد بن بشار نے کہا کہ کہاجاتاہے کہ فلاں مسلم ہے  جس کے بارے میں دو قول ہیں  ایک یہ کہ وہ اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا ہے اور دوسرا  یہ کہ وہ خالص اللہ کی عبادت کرنے والا ہے۔ یہ اس قول سے ہے کہ اس نے چیز کو فلاں کے حوالے کیا  یعنی اس چیز کو صرف اس کو دیا۔۔۔حدیث میں ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ ایک شیطان ہوتاہے کہا گیا کہ آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا ہاں! مگر اللہ نے اس کے مقابلے میں میری مدد کی  تو اس نے اسلام قبول کیا۔ دوسری روایت میں ہے یہاں تک کہ اس نے اسلام قبول کیا یعنی تابعدار ہوا اور وسوسہ ڈالنے سے باز رہا۔۔۔)۔

 

ب۔ ( المحیط فی اللغۃ ( ۲۔ ۲۶۵ ، کمپیوٹر کے شاملہ نمبر کے مطابق)

اسلام:  اللہ کے حکم کے سامنے سرجھکانا، تابعداری اور اطاعت۔ کہتے ہیں کہ : سلمنا للہ ربنا یعنی ہم اس کے سامنے جھک گئے اور تسلیم کرلیا۔ السلم بھی: اسلام ہے۔ مسلم : سرنڈرکرنے والا۔۔۔)۔

یوں اسلام لغت میں سرنڈر  کرنا  تابعداری کرنا اور اخلاص دکھانا ہے،  اللہ سبحانہ وتعالی کے حق میں یہ تابعداری جھکاؤ اور سرتسلیم خم کرنا ہے اسی طرح اللہ کے ساتھ اخلاص ہے۔

 

۲۔  شرعی نصوص میں لفظ اسلام  کا لغوی معنی میں استعمال:

شرعی نصوص نے لفظ اسلام    اس کے مشتقات   اور مادات کو بہت سی جہگوں پر  اوپر مذکور لغوی معنوں میں استعمال کیا ہے مثال کے طور پر ہم ان میں سے دوجہگوں کا ذکر کرتے ہیں:

ا۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 

﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ * رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ * رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ * وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ * إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ * وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَابَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ * أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ * تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

 

’’اور جب  ابراھیم اور اسماعیل علیھما السلام  کعبہ کی بنیادیں  اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے  کہ ہمارے پروردگار تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔  اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو  اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادت سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تو ہی توبہ قبول فرمانے والا  اور رحم کرنے والاہے۔اے ہمارے رب ان میں  انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقینا تو غلبے اور حکمت والا ہے۔ دین ابراھیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو،  ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا  اور آخرت میں بھی۔ وہ نیکوکاروں میں سے ہیں۔  جب کبھی ان سے ان کے رب نے کہا  کہ فرمانبردار ہو جاؤ تو انہوں نے کہا  میں نے رب اللعالمین کی فرمانبردری کی۔ اس کی وصیت ابراھیم  اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی،  اے ہمارے بچو! اللہ تعالی نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا ہے خبردار تم مسلمان ہی مرنا۔ کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد سے کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ  آپ کے معبود کی اور آپ کے دادا ابراھیم کے معبود کی اور اسماعیل کے معبود کی،  اسحاق کے معبود کی،  جو معبود ایک ہی ہے  اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی  انہوں نے جو کیا وہ ان کےلیے ہے  اور جو تم کرو گے وہ تمہارے لیے ہے ان کے اعمال کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا،،۔

 

ان آیات  میں اسلام کے مادے سے  تعلق رکھنے والے تمام الفاظ: ( مسلمین، مسلمۃ، اسلم، اسلمت، مسلمون) سارے لفظ اسلام کے لغوی معنی میں ہیں یعنی  جھک جا نا، عاجزی دکھانا،  اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ اخلاص کا ثبوت دینا،  اس  امر کی حقیقت کی وضاحت ان آیات کے معانی کے حوالے سے تفاسیر کی کتابوں میں  جو کچھ ہے اس سے ہوتی ہے ، میں تفسیر نسفی میں سے مختصر تفسیر نقل کرتاہوں:

 

(تفسیر نسفی ( ۱۔۷۶، کمپیوٹر کے شاملہ نمبر  کے مطابق)

﴿رَبَّنَا واجعلنا مُسْلِمَيْنِ لَكَ یعنی ہمیں اپنے ساتھ اخلاص والا بنادے،  جو اس قول سے معلوم ہوتا ہے

﴿أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ ’’ اپنا چہرہ اللہ کے حوالے کیا، یا سرجھکاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ  اس کے حوالے کیا یا سرنڈر کیا جب جھک جائے، اور  تابعداری کی،  معنی یہ ہے کہ ہم نے تیرے لیے اخلاص اور تابعداری میں اضافہ کیا۔

﴿وَمِن ذُرّيَّتِنَا اور ہماری اولاد میں سے بنادے   ﴿أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ایک جماعت کو تیرا فرمانبردار بنا دے  یہاں  (من)  تبعیض (بعض) یا تبیین (وضاحت) کےلیے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے: امت سے مراد  محمد ﷺ کی امت ہے  اور اپنی اولاد کےلیے خاص طور پر دعا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ شفقت کے زیادہ حقدار ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿قُواْ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاو،، ﴿إِذْ قَالَ اصطفیناہ کےلیے ظرف ہے یا (اذکر) ’’یادکر،،کےاضمار(پوشیدہ ہونے) کی وجہ سے منصوب ہے گویا کہ  کہا گیا: اس وقت کو  تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ وہ ایسا چنا ہوا  نیک ہے جس کی ملت سے  منہ موڑا نہیں جاتا۔ ﴿لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ﴾ تابعداری کرو  یا اطاعت کرو یا اپنے دین کو اللہ کےلیے خالص کرو  ﴿قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ یعنی میں نے اخلاص کیا یا  فرمانبرداری اختیار کی۔۔۔

 

﴿فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ یعنی تمہیں موت ایسی حالت میں آئے کہ تم اسلام پر ثابت قدم ہو۔۔۔

﴿وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ اللہ کے ساتھ مخلص ہیں۔۔۔) ختم شد۔

ب۔ اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:

 

﴿وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ

’’اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی بھیجی کہ  مجھ پر ایمان لاؤ اور  میرے رسول پر  انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور تو گواہ  ہے کہ ہم  مسلمان ہیں،،

 

آیت سے واضح ہے کہ  یہ بات حواریوں کے بارے میں ہو رہی ہے جو  عیسی علیہ السلام کے پیروکار تھے اور انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان ہیں یعنی سرتسلیم خم کرنے والے اللہ کے حکم کی   فرمانبرداری کرنے والے اس کے ساتھ مخلص ہیں۔۔۔ تفسیر نسفی میں اس آیت کی تفسیر میں  یہ ہے:

 

(تفسیر نسفی (۱۔۳۱۴، کمپیوٹر شاملہ نمبر کے مطابق)

﴿وَإِذْ أَوْحَيْتُ﴾ میں نے الہام کیا ﴿إِلَى الْحَوَارِيِّينَ﴾   خواص اور چنے ہوئے﴿أَنْ آمِنُوا﴾ کہ ایمان لاؤ ﴿بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ﴾ یعنی گواہ رہنا کہ ہم مخلص اور سرتسلیم خم کرنے والے ہیں)۔

دوسرا: لفظ اسلام کا اصطلاحی استعمال(شرعی حقیقت):

 

۱۔ جیسا کہ ہم نے ذکرکیا  کہ شرعی نصوص نے لفظ اسلام کو اس کے اصطلاحی معنی میں بھی استعمال کیا  یعنی اس دین کے عَلم(نام)کے طور پر جس کو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ، ہم اس کی دو مثالیں دیں گے:

ا۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان:

 

﴿الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيناً

’’آج وہ لوگ تمہارے دین سے مایوس ہوئے جنہوں نے کفر کیا  اس لیے ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرو آج میں نےتمہارے لیے تمہارا دین مکمل کیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام  بطور دین پسند کیا،، اس آیت کے حوالے سے تفسیر ابن کثیر میں ہے:

(تفسیر ابن کثیر ۳۔۲۶ )

 

اور اللہ کا یہ فرمان: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسْلامَ دِيناً یہ اس امت پر  اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ ان کے لیے ان کا دین مکمل کر لیا،  ان کو کسی اور دین کی ضرورت نہیں،  نہ ان کو اپنے نبی کے علاوہ کسی نبی ﷺ کے علاوہ کسی نبی کی ضرورت ہے؛ اللہ تعالی نے آپ کو خاتم الانبیا بنایا، آپ کو جن و انس کی طرف مبعوث کیا، اس لیے حلال صرف وہی ہے جس کو یہ نبی حلال کہے حرام صرف وہی ہے جس کو یہ حرام کہے اور دین صرف وہی ہے  جس کو یہ شریعت کہے، ہر وہ چیز حق  اور سچ ہے جس کی یہ خبردے  جس میں کوئی جھوٹ اور شک نہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ : ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلا ’’اور تیرے رب کا کلمہ سچائی اور عدل کے ساتھ مکمل ہوگیا،، یعنی  خبر کے حوالے سے سچا اوامر اور نواہی کے لحاظ سے عدل،  جب ان کےلیے دین مکمل ہوگیا تو  ان پر نعمت کی بھی تکمیل ہوگئی؛ اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلا یعنی تم  اپنے لیے  اس دین پر راضی ہوجاو  کیونکہ  اللہ اسی دین پر راضی ہے اور اسی کو پسند کیا ہے اور اس کو اپنے افضل ترین رسول ﷺ کے ذریعے مبعوث کیا اور اپنی افضل ترین کتاب نازل کی۔  علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے کہا: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ یہ اسلام ہے، اللہ نے اپنے نبی اور مومنوں کو خبردی کہ اس نے ان کےلیے ان کا  ایمان مکمل کرلیا جس میں اضافے کی ان کو بالکل ضرورت نہیں،  جس کو اللہ نے مکمل کیا اس میں بالکل کوئی کمی نہیں،  جس سے اللہ راضی ہو جائے اس سے کبھی ناراض نہیں ہوتا)۔ ختم شد

 

آیت کے سیاق سے یہ واضح ہے کہ  بات اس دین کی ہورہی ہے جس کو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے  نبی ﷺ پر نازل کیا اور اس کو مکمل کیا  پورا کیا اور مسلمانوں کےلیے اس کو پسند کیا۔

ب۔ بخاری نے اپنے صحیح میں ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ»

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز کے قیام زکواۃ کی ادائیگی حج اور رمضان کے روزے،، 

 

اس حدیث شریف سے یہ  واضح ہو رہا ہے کہ بات  اس دین اسلام کی ہو رہی ہے جس کو  اللہ نے اپنے نبی محمد ﷺ پر نازل کیا اور یہ مذکورہ پانچ چیزیں اس کے ارکان ہیں جیسا کہ دوسری احادیث میں آیاہے۔

 

۲۔ اوپر کتاب نظام الاسلام سے جس عبارت کا اقتباس لیا گیا ہے وہ  اسلام کے اصطلاحی معنی کے بارے میں ہے(شرعی حقیقت)  اسلام کی تعریف میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ  اسلام کی شریعت زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتی ہے، اس لیے اس کی تعریف میں یہ کہا کہ   یہ وہ دین ہے جس کو  سیدنا محمد ﷺ پر نازل کیا گیا تاکہ انسان کے اپنے خالق اپنے نفس اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کو منظم کیا جائے،  یوں اس نے انسان کے کسی ممکنہ تعلق کو بھی  منظم کیے بغیرنہیں چھوڑ ا  بلکہ اس کےلیے احکامات وضع کیا۔

 

تیسرا: اسلام اور انبیا کے ادیان:

۱۔ اللہ سبحانہ وتعالی کے حق میں اسلام کا لغوی معنی  فرمانبرداری ، سرجھکانا اور اس کے ساتھ اخلاص کے معنی میں ہے، یہی آدم علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ تک سارے انبیا کے ادیان کی صفت ہے، اس معنی میں تمام انبیا اسلام پر تھے:

 

ا۔  ابراھیم علیہ السلام کے حوالے سے قرآان میں ہے: ﴿إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ’’جب اس کے رب نے اس سے کہا اسلام لاو اس نے کہا میں نے اسلام لایا رب اللعالمین کےلیے،،۔

 

ب۔ یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کے بارے میں ہے:

 

﴿وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ * أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

’’ اس کی وصیت ابراھیم  اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی،  اے ہمارے بچو اللہ تعالی نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا ہے خبردار تم مسلمان ہی مرنا۔ کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد سے کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ  آپ کے معبود کی اور آپ کے دادا ابراھیم کے معبود کی اور اسماعیل کے معبود کی،  اسحاق کے معبود کی،  جو معبود ایک ہی ہے  اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے،،۔

 

ج۔یوسف علیہ السلام کے بارے میں: ﴿تَوَفَّنِي مُسْلِماً وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ’’اور مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے اور مجھے نیکوکاروں سے ملادے،،۔

 

د۔  موسی علیہ السلام آپ کے پیرو کاروں  اسی طرح  ایمان لانے والے جادو گروں کے بارے میں :

﴿وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ ’’اور موسی نے کہا اے قوم اگر تم نے اللہ پر ایمان لایا ہے  تو اسی پر توکل کرو  اگر تم مسلمان ہو،،﴿وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْراً وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ’’تو ہم سے صرف اس بات کا انتقام لینا چاہتاہے کہ ہم  اپنے رب  کی آیتوں پر ایمان لائے ہیں  جب وہ ہمارے پاس  آئیں  اے ہمارے رب  ہمیں صبر دے اور مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے،،۔

 

ھ۔ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں:

﴿فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ ’’جب وہ آگئی تو کہا گیا کہ کیا تمہارا تخت اسی طرح ہے اس نے کہا گویا کہ وہ یہی ہے اسی سے پہلے ہی ہمیں بتایا گیا اور ہم مسلمان ہوگئے تھے،،۔

و۔عیسی علیہ السلام اور ان کے مددگاروں کے بارے میں:

 

﴿فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

’’ جب عیسی علیہ السلام نے ان کی طرف سے کفر کو محسوس کیا تو کہا  اللہ کےلیے میرا مددگار کون بنے گا  تو حواریوں نے کہا  ہم اللہ کے مدد گار ہیں  ہم نے اللہ پر ایمان لایا ہے اور تو گواہ رہے کہ ہم مسلمان ہیں،،۔

 

ز۔ اہل کتاب کے بارے میں:

 

﴿الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ * وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ

’’جن کو اس سے پہلے  ہم نے کتاب دی  وہ اس پر ایمان لاتے تھے، اور جب ان پر پڑھی جاتی تو کہتے ہم نے اس پر ایمان لایا یہی حق  ہمارے رب کی طرف سے  ہم اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں،،۔

 

یوں اسلام بمعنی جھکاؤ، تابعداری اور اللہ کےلیے خلوص کے تمام انبیا کے ادیان کی صفت ہے۔

جبکہ اصطلاحی معنی  میں اسلام وہ ہے جو کہ نظام الاسلام کتاب میں ہے:

 

(اسلام وہ دین ہے جس کو اللہ سبحانہ وتعالی نے انسان کے اپنے خالق اپنے نفس اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنے کےلیے محمد ﷺ پر نازل کیا۔  اللہ کے ساتھ تعلق میں عقائد اور عبادات ہیں، اپنے نفس کے ساتھ تعلق میں اخلاق مطعومات اور ملبوسات ہیں،  دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات میں معاملات اور عقوبات شامل ہیں) ختم شد۔  اس کے دلائل بہت زیادہ اور قطعی ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔۔۔

امید ہے یہ جواب کافی ہے اور اللہ ہی علم اور حکمت والا ہے

 

آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ

۸ جمادی الآخرۃ ۱۴۴۴

بمطابق ۱۔۱۔۲۰۲۳

Last modified onمنگل, 24 جنوری 2023 18:56

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.