Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

امریکہ اور اس کی جانب سے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کی تبدیلی

سوال:

الجزیرہ نے 28 اپریل 2022 کو رپورٹ کیا کہ، "پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ کے عہدے پر تعینات کردیا ہے جو کہ سابق مقتول وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بیٹے ہیں۔۔۔صرف 33 سال کی عمر میں بلاول بھٹو زرداری دنیا کے کم عمرترین وزیر خارجہ بن گئے ہیں۔۔۔۔اس مہینے کے آغاز میں عمران خان کو ہٹائے جانے اور وزارت اعظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شہباز شریف نے 41 رکنی کابینہ کا اعلان کیا ہے۔۔۔" شہباز شریف کی حکومت ، جس نے بطور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اپنے بھائی نواز شریف کی جگہ لی ہے، نے19 اپریل 2022کو حلف اٹھایا، یعنی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے ایک ہفتے بعد۔ سوال یہ ہے کہ اس تبدیلی کا سبب کیا ہے؟ یاد رہے کہ پارلیمنٹ نے فوج کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی عمران خان پر اعتماد کیا تھا، جبکہ اس وقت فوج دونوں جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے ناراض تھی۔ اُس وقت سے اب تک کیا ہوا ہے ؟ کیا اس سارے معاملے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے جبکہ یہ سب جانتے ہیں کہ سالہاسال سے وہی پاکستان میں ہر حکومت کے پیچھے ہوتاہے؟

 

جواب:

 ان سوالات کے جواب کو واضح کرنے کےلیے ہم مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھیں گے:

 

 پہلا: عمران خان کیسے حکومت میں آیا تھا؟

 1۔ عمران کو فوج ہی حکومت میں لائی تھی۔ عمران خان نے جنریلوں کی اس قدر تابع داری کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ 2018 میں انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران پر فوج کے بہت زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے بہت تنقید کی گئی ۔ یہ وہی وقت تھا جب اُس نے احتساب اور کرپشن سے جان چھڑوانے اور "نیا پاکستان" بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک عمران خان کو فوجی قیادت سے سب سے زیادہ قریبی تعلقات رکھنے والا سربراہِ حکومت قرار دیا جا تا رہا بلکہ اُس کو تو جنریلوں کے ماتحت ہونے کا الزام لگایا جا رہا تھا ۔

 

 اگراُسے فوج کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو عمران خان کو حکمرانی کرنے کے لیے درکار اعتماد کبھی نہ ملتا! عمران خان نے 1996 میں" پاکستان تحریک انصاف" کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ 1997 کے عام انتخابات میں عمران خان قومی اسمبلی کی ایک نشست پر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ 2013 کے انتخابات میں اس کی جماعت فوج کی مدد سے ہی پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوئی۔ اُس کی جماعت قومی اسمبلی کی 30 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، چنانچہ وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعد اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پھر فوج نے عمران خان کو 2018 کے انتخابات جیتنے کا موقع فراہم کیا۔ مگر یہ اس وقت ممکن ہوا جب عمران خان کو فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کی حمایت حاصل ہوئی جو عام انتخابات کی نگرانی کررہے تھے۔

 

2۔ فوج اور انٹیلی جنس ادارے نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں عمران خان کے لیے سیاسی فضاء ہموار کرنے کےلیے بھر پور کام کیا۔ پاکستانی انٹیلی جنس نے ملک کے طول وعرض میں اُس کے جلسوں کو منظم کیا اور اُس کو ایک کامیاب امیدوار کے طور پر پیش کیا۔ فوج نے دوسری جماعتوں میں سے سیاست دانوں کو اپنی اپنی پارٹیوں سے منحرف کراکر اپنے ووٹرز کے ساتھ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہونے کےلیے قائل کیا۔ فوج نے ہی مسلم لیگ (ن) کے خلاف اقدامات کے دوران میڈیا کو ڈرا کر تحریک انصاف کے بارے میں مثبت رپورٹینگ کروائی، سیکیوریٹی اہلکاروں نے مسلم لیگ (ن) کےکارکنوں کو تنگ اور گرفتار کیا۔ فوج نے ہی پس پردہ مسلم لیگ (ن )کے امیدواروں کو نااہل کروایا تا کہ وہ انتخاب میں حصہ ہی نہ لے سکیں۔۔۔

 

3۔ اتنی مدد کے باوجود عمران خان کی جماعت عام انتخابات میں 149 نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کرسکی، جو کہ اکثریت کی حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ 172 نشستوں سے کم تھیں۔ مگر وہ فوج کی جانب سے جوڑ توڑ کرنے کے بعد اتحادی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اتحادی حکومت پاکستانی فوج کا منصوبہ تھا کہ اگر عمران خان کی رائے تبدیل ہوجائے اور وہ فوج کے خلاف عمل کرے، تو اس کو واپس گھر بھیجا جاسکے ۔ اسی طرح انٹیلی جنس ادارے نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو عمران خان کی حکومت کی جانب مائل کیا۔ اسی لیے پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی نے 17 ارکان کو عمران خان کی کابینہ میں شامل کرایا ۔ اور کابینہ میں صرف تین ارکان ایسے تھے جن کا تعلق خالصتاً تحریک انصاف سے تھا اور وہ کبھی کسی دوسری جماعت کا حصہ نہیں رہے تھے!

 

 دوسرا: وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے امریکہ کو کئی خدمات فراہم کیں:

 1۔ پاکستانی ٹی وی چینل جیو نے عمران خان کا یہ قول نقل کیا کہ،"3 دسمبر 2018کو انہیں (عمران خان کو)امریکی صدر ٹرمپ کا خط موصول ہوا، جس میں اُس نے افغان امن مذاکرات میں پاکستان سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا، اورتحریک طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کرنے کا کہا۔"(روسی سپوٹینک-3 دسمبر 2018 )۔ اسی وجہ سے عمران خان نے دو دن بعد امریکہ کے نمائدہِ خصوصی زلمے خلیل زاد سے اسلام آباد میں ملاقات کرکے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ پاکستان افغانستان میں امریکہ کے منصوبے پر عمل کرے گا!

 

 2۔ سابق پاکستانی وزیر دفاع، خواجہ آصف، نے پاکستانی حکمرانوں ،جن میں وہ خود بھی شامل ہے، کی خیانت کا 3 جنوری 2018 کو کیے جانے والے ٹوئیٹس میں اعتراف کرتے ہوئےکہا کہ، "پوچھتے ہو کیا کیا؟ایک آمر نےفون کال پہ سر نڈر کیا،وطن کو بارود و خون سے نہلا یا افغانستان پر اپنے اڈوں سے تمھارے 57800 حملے،ہماری گزرگا ھوں سےتمھارا اسلحہ،بارود گیا،ہزاروں سویلین ،فو جی، بریگیڈیئر،جنرل، جواں سال لیفٹیننٹ آپکی چھیڑی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔۔۔۔ جوآپ کادشمن،وہ ہمارا دشمن۔ ہم نے گوانٹانامو بے کو بھر دیا۔ ہم آپ کی خدمت میں اتنے مگن ہوئے کہ پوری ملک کو دس سال تک لوڈشیڈنگ اور گیس شارٹیج کے حوالے کیا، معیشت برباد ہو گئی لیکن خواہش تھی آپ راضی رہیں، ہم نے لاکھوں ویزے پیش کئے بلیک واٹر،ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک جگہ جگہ پھیل گئے۔۔۔" اس سے زیادہ واضح اورصاف بات نہیں ہوسکتی کہ پاکستان نے ایک ایسی جنگ لڑی جو اس کی جنگ نہیں تھی۔۔۔ اس نے امریکہ کی خاطر مسلمان بچوں کا خون بہایا۔۔۔ اور اس نے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے اپنے اسلامی دین کی اقدار کو پامال کیا۔۔۔

 

 3۔ جیسا کہ وہ باقی کاموں میں ناکام رہا ، اُسی طرح بھارت کے حوالے سےبھی عمران نے زبانی جمع خرچ کے سوا، کشمیر کے بھارت سے جبری الحاق کے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ ہم نے18اگست 2019کو سوال کے جواب میں کہا تھا، "جب ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اپنے حالیہ فیصلے کا اعلان کیا تب پاکستان کا موقف رسوا کن تھا اور بات مذمت سے آگے نہیں بڑھی۔ پاکستانی دفترخارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ: ' پاکستان نئی دلی کی جانب سے آج(پیر، 5 اگست 2019) کو کیے جانے والے اعلان کی مذمت کرتا ہے اور اس اعلان کو مسترد کرتا ہے۔ ہندوستانی حکومت کی جانب سے کوئی یکطرفہ اقدام اس کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسلUNSC) )کی قراردادوں میں درج ہے، پاکستان غیر قانونی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ آپشن استعمال کرے گا۔'( اے ایف پی 5 اگست 2019)۔۔۔ یعنی بالکل اسی طرح جیسے عباس کی (فلسطینی ) اتھارٹی اور اس کے ارد گرد کی عرب حکومتیں کرتی ہیں، وہ یہودی وجود کی جانب سے فلسطین کی مبارک سرزمین القدس کو پامال کرنے کی مذمت اور اس پر احتجاج کرتی ہیں مگر جنگ کےلیے افواج کو متحرک نہیں کرتیں۔ پاکستان بھی یہی کردار دہرارہا ہے اور افواج کو حرکت میں لائے بغیر محض بھارتی اقدامات کو مسترد کرتا ہے!"

 

           4۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ لین دین کیا جبکہ آئی ایم ایف کو امریکہ کنٹرول کرتا ہے۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو نافذ کیا، حالانکہ اس نے انتخابی مہم میں اُن سے معاہدوں کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل 18 ستمبر 2011کو برطانوی اخبار "دی گارڈین" کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ،"ایک ملک جو امداد پر انحصار کرتا ہے؟ اس سے تو موت بہتر ہے۔ یہ آپ کو اپنی صلاحیتوں کو حاصل کرنے سے روکتا ہے، جیسا کہ استعمار نے کیا تھا۔ امداد ذلت آمیز ہے۔ ہر وہ ملک جس کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ انہوں نے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے پروگرام لیے، اس نے صرف غریبوں کو غریب اور امیروں کو مالا مال کیا ۔" پھر اقتدار میں آنے کے بعد اس نے اپنا وعدہ توڑ دیا! بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ گفت و شنید کا آغاز ہو گیا۔ پھر، 3 جولائی، 2019 کو،آئی ایم ایف نے 39 ماہ کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے قرض کا بندوبست کرنے پر اتفاق کیا۔۔۔

 

 5۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے22 جولائی 2019کو فاکس نیوز کو انٹرویو میں امریکہ کےلیے اپنی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: "پاکستان میں ہم نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ہم امریکہ کے اتحادی ہیں اور اگر ہمیں اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات دی جاتیں تو ہم اسے پکڑ لیتے۔ لیکن اس کے باوجودپاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی نے امریکی سی آئی اے کو وہ معلومات فراہم کیں جن سے القاعدہ تنظیم کے بانی اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک پہنچنا ممکن ہوا۔ اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں تو یہ آئی ایس آئی تھی جس نے فون کنکشن کے ذریعے ابتدائی جگہ کے متعلق معلومات فراہم کیں"۔ یہ باتیں " پاکستان میں ایک سال پہلے ہونے والے انتخابات کے بعد، پاکستانی سابق کرکٹر ہیرو نےوائٹ ہاوس کے پہلےدورے میں کہیں جہاں اس نےامریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی،"(القدس العربی23جولائی 2019 )۔

 

 تیسرا: عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان ، اور پھر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی

 عمران خان اپنی حکمرانی کے تین سال تک فوجی قیادت اور امریکہ کے سامنے جھکا رہا اور تیسرے سال کے اواخر میں اس کے اور فوج کے سربراہ باجوہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور امریکہ کی جانب سے فوج کے موقف کی حمایت کرنے پر امریکہ کے ساتھ بھی کشیدگی پیدا ہوئی۔۔۔ عمران نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کےلیے فوج کے امیدوار لیفٹیننٹ جنرل انجم ندیم کی تعیناتی کی مخالفت کی اور یہ نامزدگی ایک طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہی، اور اس مخالفت کو فوج کے اندر ناپسند کیا گیا۔۔۔المنار ٹی وی ویب سائٹ نے 27 اکتوبر 2021 کو رپورٹ کیا کہ،" انجم اپنے نئے منصب کی ذمہ داری 20 نومبر کو سنبھالیں گے۔ 6 اکتوبر کو باجوہ نے انجم کو آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ آئی ایس آئی کا سربراہ مقررکیا تھا۔ اس سے قبل انجم ساحلی شہر کراچی کے کور کمانڈر تھے۔ باجوہ نے فیض حمید کو اسی مہینے پشاور کا کور کمانڈر تعینات کیا۔" عمران خان اعلانیہ طور پر داخلی انٹیلی جنس کی سربراہی کے لیے فیض حمید کی حمایت کر رہے تھے۔ یوں فیض حمید کی جگہ انجم کی تعیناتی کے بعد عمران حکومت کے فوج کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ یہ تعلقات مزید اس وقت کشیدہ ہوگئے جب یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ عمران خان جنرل باجوہ کی نومبر 2022 میں ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں۔

 

 ظاہری بات ہے امریکہ آرمی چیف کے ساتھ کھڑا رہا۔ اسی لیے عمران خان کو فراہم کیا جانے والا اعتماد واپس لینے، اور اس کے ساتھ ہی اس کا متبادل لانے کا بھی فیصلہ ہوا ۔ عمران خان تک یہ معلومات پہنچیں تو اس نے فوجی قیادت کے ساتھ صلح صفائی اور اپنے دوست فیض حمید کی جگہ انجم کی تعیناتی کی حامی بھرلی، مگر فوجی قیادت نے امریکی حمایت سے عمران کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹا کر کسی اور کو لانے پر اصرار کیا! فوج اور امریکہ کو اس بات کا ڈرتھا کہ فوج کے فیصلے، کہ جس کو امریکی آشیرباد بھی حاصل تھی، کی اس طرح مخالفت فوج کو نیچا دیکھانے کا باعث بنے گی۔ لہٰذاعمران کو ہٹانے پر اصرار کیا گیا۔۔۔

 

 چوتھا: عمران خان نے احتجاج کیا کیونکہ اس نے امریکہ کی بڑی خدمت کی تھی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اوراسی طرح اس نے فوجی قیادت کی اطاعت بھی کی تھی ۔۔۔گویا اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ فوج اور امریکہ اتنی ساری خدمات کے بعد بھی اس کو تنہا کر سکتے ہیں۔ وہ بھول گیا یا بھلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کافر ممالک اپنے ایجنٹوں کو سانس لینے کے لیے بھی گنجائش نہیں دیتے! بہر حال اس سے عمران خان سیخ پا ہوا اور امریکہ کے حوالے سے بیانات داغ دیے، لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی! اس کے امریکہ مخالف بیانات میں سے کچھ بیانات یہ ہیں:

 

 1۔4 فروری 2022 کو یورو نیوز عربیہ نے بتایا کہ"پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے آج ہفتے کو غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا'مجھے برطرف کرنے کےلیے دوڑ دھو پ امریکہ کی جانب سے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت ہے'"۔ عرب پوسٹ نے 3 اپریل 2022 کو بتایا کہ،"مقامی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ عمران خان کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کا پیغام موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ اعلیٰ سطحی امریکی عہدیدار، جس کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ جنوبی اور وسطی ایشیا کےامور کےلیے امریکی سیکریٹری خارجہ کے معاون، ڈونلڈ لو، ہیں نے بتایا کہ امریکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ خان کے چلے جانے کے بعد ہی امریکہ پاکستان تعلقات بہتر ہوں گے۔ "

 

 2۔ عمران خان نےیوکرائن پر روسی حملے کے حوالے سے واشنگٹن کے موقف کے برخلاف موقف اپنایا اور حملے کی مذمت سے انکار کیا اور یہاں تک کہ ماسکو کا دورہ کیا، اور24 فروری2022 کو روسی صدر پوٹن کے ساتھ نظر آئے یعنی روس کی جانب سے یوکرائن پر حملے کے پہلے دن۔ جبکہ اس کے برخلاف پاکستانی فوج کے سربراہ باجوہ نے واضح طور پر امریکی موقف کی تائید کرتے ہوئے یوکرائن پر روسی حملے کی مذمت کی ، جو خان کے حالیہ بیان کے برعکس تھا۔ الحرۃ نے 2 اپریل 2022 کو بتایا کہ،" پاکستانی فوج کے سربراہ نے یوکرائن پر روسی جنگ کی مذمت کی، اس کو فوراً روکنے کا مطالبہ کیا اور اسے ایک "بہت بڑا سانحہ" قرار دیا جس سے ایک چھوٹا ملک متاثر ہورہا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی جانب سے روس پر تنقید اپنے ملک کے وزیر اعظم عمران خان کے موقف کے برخلاف ہے۔ عمران خان نے یوکرائن میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کے حوالے سے اسلام آباد کے غیر جانبدار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نے روسی صدر ولادی میر پوٹن پر تنقید کرنے سے بھی انکار کیا۔"

 

 3۔ ایک اور جگہ، ' الربی الجدید ' نے 7 مارچ 2022 کو بتایاکہ، "عمران خان نے بتایا کہ یورپی یونین کے سفیروں نے خط لکھ کر اس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرائن میں روسی فوجی آپریشن کی مذمت کرے ۔۔۔۔ عمران نے کہا، 'میں یورپی یونین کے سفیروں سےپوچھنا چاہتا ہوں: کہ کیا تم نے ہندوستان کوبھی کوئی ایسا خط لکھا تھا؟'۔ انہوں ے مزید کہا کہ :'ہم آپ کے سامنے کیا ہیں؟ کیا ہم کوئی غلام ہیں۔۔۔ کہ جوآپ کہیں گے ہم کرلیں؟' پاکستانی حکمران نےبات جاری رکھتے ہوئے کہا،"جب ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوے کشمیر کا سٹیٹس ختم کیا تو کیا آپ میں سے کسی نے ہندوستان کے ساتھ رابطہ توڑا؟کیا اُن (پر) تنقید کی؟ کوئی تجارت بند کی؟" ۔

 

 پانچواں: جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ عمران یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ فوج اور امریکہ کی اتنی ساری خدمات اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی! گویا وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جو استعماری کفار کا ایجنٹ بن کر ان کی حمایت سے اقتدار میں آتا ہے وہ ان کےلیے شطرنج کا ایک مہرہ ہوتا ہے، اور وہ اس کو جیسا چاہیں استعمال کرتے ہیں ، بلکہ جب چاہیں اس کو پھینک دیتے ہیں اگر وہ بال برابر بھی ان کے مفادات کے خلاف جائے، اور عمران خان کے ساتھ یہی ہوا! پاکستانی سپریم کورٹ نے7 اپریل2022 کو ڈپٹی اسپیکر کی اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کو مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ اسی طرح صدر کی جانب سے 3اپریل 2022 کو پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور وزیر اعظم عمران خان کے مشورے پر قبل از وقت انتخابات کروانے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کردیا۔ اسپیکر کو 10اپریل 2022 کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا حکم دیا، جس میں پاکستانی پارلیمنٹ نے 342 اراکین میں سے174 نے عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت میں ووٹ دیا۔۔۔ واضح رہے کے ان سارے اقدامات میں فوج ہی پس پردہ معاملات کی نگرانی کر رہی تھی، سینئر ججز فوج کی مکمل حمایت کے بغیر کبھی اس طرح کے اقدامات نہیں اٹھاتے۔۔۔

 

 چھٹا: اگلے دن 11 اپریل 2022 کو پارلیمنٹ نے شہباز شریف کو اگست 2023 کے انتخابات تک کےلیے وزیر اعظم منتخب کرلیا۔ شہباز شریف سابق وزیر اعظم نواز شریف کا چھوٹا بھائی ہے۔ شہباز شریف 2018 سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرتھا۔ شہباز نے اپنے بھائی نواز کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن )کی قیادت سنبھالی جس نے پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ شہباز شریف فوج اور امریکہ کے اشاروں پر چلنے کے لیے تیار تھا ۔۔۔اسی لیے فوج نے عمران خان کی جگہ اس کی حمایت کی، اور اس نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے:

 

 1۔ شہباز نے امریکہ کی مرضی کے مطابق اپنی پالیسی شروع کی۔۔۔ ہندوستان کے ساتھ مصالحانہ لہجے سے ابتدا ء کی کہ وہ مزاحمت کی بجائے ہندوستان کے ساتھ بات چیت کےلیے تیار ہے۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں شہباز شریف نے کہا: " پاکستان ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ تاہم مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہندوستانی وزیر اعظم کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی اجازت دے تاکہ ہماری توانائیاں دونوں ملکوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کےلیے استعمال ہوں۔"(سکائی نیوز 14 اپریل 2022)۔ ہندوستانی وزیراعظم نےٹوئٹر پر شہباز شریف کو جواب دیا کہ، " میں شہباز شریف کو پاکستان کا وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دیتا ہوں۔ ہندوستان خطے میں امن واستحکام کا خواہاں ہے وہ دہشت گردی سے پاک خطے کا خواہاں ہے، تاکہ ہم ترقی اور اپنی عوام کی خوشحالی پر توجہ مرکوز کر سکیں۔" یا د رہے کہ یہ وہی ہندوستانی وزیر اعظم ہے جو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے، وہ اپنے ہندو کارندوں کو ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا ہے، ان کے گرد گھیرا تنگ کرتا ہے، ہندوستان میں مسلمانوں کے رہنے کو قبول نہیں کرتا، اور تعلیمی اداروں میں مسلمان بچیوں کو شرعی حجاب کے حوالے سے تنگ کرتاہے۔

 

 2۔ اخبارات کے مطابق شہباز شریف نے منتخب ہونے کی صورت میں جنریلوں کو مل کر کام کرنے کی پیش کش کی تھی۔ اُس نے کہا تھاکہ ملک کو ضرورت ہے کہ ہم فوج کے ساتھ اختلافات بھلا کر آگے بڑھیں۔ اس سے قبل وہ 1999 میں اپنے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹنے پر فوج پر تنقید کرتا رہا ہے۔ شہباز شریف 2018 میں عمران خان کے مقابلے میں الیکشن بھی ہار چکا ہے۔ دسمبر 2019 کو نیب نے دونوں بھائیوں کی 23 جائیدادوں کو منجمد کیا تھا اور ان پر کرپشن کا الزام لگایا تھا۔ ستمبر 2020 میں شہباز شریف کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا پھر اپریل 2021 میں اُس کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ اُس کے برسرِ اقتدار آنے میں فوج کے ساتھ صلح کئی عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔

 

 3۔ یہاں شہباز شریف کو امریکہ کی تیز رفتار مبارکباد کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ امریکی سیکریٹری خارجہ بلینکن نے کہا: " امریکہ پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کو مبارک باد دیتا ہے، ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔"( سکائی نیوز 14 اپریل 2022)۔ اس بیان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امریکہ نے فوج کے ساتھ اس کی صلح اور امریکی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے وعدےکو قبول کرلیاہے اسی لیے اس کو کامیاب بنانے اور اور برسر اقتدار لانے کی حامی بھرلی جبکہ اس سے قبل اسے اور اس کے بھائی نواز، دونوں کو اقتدار سے دور کردیا گیا تھا ۔ اب امریکہ نے صرف شہباز کے امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہونے کے بعد ہی رضامندی ظاہر کی ہے، جبکہ اس نے امریکہ کی وفادار فوج سے مفاہمت کر لی ہے!

 

 4۔ 12 پریل 2022 کو وائس آف امریکہ نے بتایا کہ " پاکستان کی نئی حکومت نے منگل کے دن کہا کہ وہ"امریکہ کے ساتھ امن وسلامتی اور خطے کی ترقی کے مشترکہ اہداف کے حصول کےلیے مل کر کام کرے گی۔ " ۔۔۔"شہباز شریف کےدفتر نے وائٹ ہاوس کی پریس سیکریٹری، جین بساکی کے پیر کو جاری ہونے والے اس بیان کہ واشنگٹن اس بات سے قطع نظر کہ اسلام آباد کا رہنما کون ہے، اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، کے جواب میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا،" ہم امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ طویل مدتی تعلقات دوبارہ شروع کرنے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔۔۔ ہم ان اہم تعلقات کو برابری کے اصولوں اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں"۔۔۔ وائٹ ہاوس کی پریس سیکریٹری، جین بساکی، نے کہا" بائیڈن انتظامیہ آئینی جمہوری اصولوں کو پُرامن طریقے سے برقرار رکھنے کی حمایت کرتی ہے ، اورہم پاکستان میں کسی ایک سیاسی جماعت کے مقابلے میں دوسری جماعت کی حمایت نہیں کرتے۔۔۔ہم پاکستان کے ساتھ اپنے طویل مدتی تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ خوشحال اور جمہوری پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے۔۔۔طویل مضبوط اور دائمی تعلقات نئی اسلام آباد کی قیادت کے سائے میں جاری رہیں گے۔"

 یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ ہی اپنے سابق ایجنٹ عمران خان کو ہٹانے اور شہباز شریف کو لانے کے پیچھے ہے جو واضح طور پر اعلان کر رہا ہے کہ وہ عمران خان سے بڑھ کر امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کےلیے تیار ہے!

 

 ساتواں: یہ ایجنٹ نصیحت حاصل نہیں کرتے اورنہ عقل رکھتے ہیں۔ جب امریکہ ان میں سے ایک کو گراتاہے تو دوسرا اس کو خوش کرنے کےلیے دوڑا چلا جاتاہے، اور اقتدار تک پہنچنے کےلیے اسے اپنی خدمات پیش کرنے کےلیے تیار ہوتاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی نظریاتی، آئیڈیا لوجیکل سیاسی رہنما نہیں ہیں کیونکہ ان کا مقصد کسی نہ کسی طرح اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے نصیحت حاصل نہیں کی کہ امریکہ نے کیسے ایک بار سے زیادہ اس کے بھائی کوگرایا اور اس کو سزا دے کر جلا وطن کیا۔ امت کو آئیڈیالوجیکل سیاسی قائدین کی ضرورت ہے۔ امت کی آئیڈیالوجی اسلام ہے جو کہ تمام مسائل کا بنیادی اور درست حل دیتاہے۔ ایسے ہی قائدین امت کو بچائیں گے، اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے او رامریکہ کی باج گزار ریاست سے نکال کر عظیم ریاست بنائیں گے۔ اللہ کے اذن سے پاکستان کے اندر عظیم ریاستِ خلافت راشدہ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔

﴿إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغاً لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾

" بیشک عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں کی) تبلیغ ہے ۔ "(الانبیاء، 21:106)

پانچ شوال 1443 ہجری

 

5 مئی 2022 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال کا جواب

امریکہ اور اس کی جانب سے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کی تبدیلی

سوال:

الجزیرہ نے 28 اپریل 2022 کو رپورٹ کیا کہ، "پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ کے عہدے پر تعینات کردیا ہے جو کہ سابق مقتول وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بیٹے ہیں۔۔۔صرف 33 سال کی عمر میں بلاول بھٹو زرداری دنیا کے کم عمرترین وزیر خارجہ بن گئے ہیں۔۔۔۔اس مہینے کے آغاز میں عمران خان کو ہٹائے جانے اور وزارت اعظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شہباز شریف نے 41 رکنی کابینہ کا اعلان کیا ہے۔۔۔" شہباز شریف کی حکومت ، جس نے بطور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اپنے بھائی نواز شریف کی جگہ لی ہے، نے19 اپریل 2022کو حلف اٹھایا، یعنی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے ایک ہفتے بعد۔ سوال یہ ہے کہ اس تبدیلی کا سبب کیا ہے؟ یاد رہے کہ پارلیمنٹ نے فوج کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی عمران خان پر اعتماد کیا تھا، جبکہ اس وقت فوج دونوں جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے ناراض تھی۔ اُس وقت سے اب تک کیا ہوا ہے ؟ کیا اس سارے معاملے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے جبکہ یہ سب جانتے ہیں کہ سالہاسال سے وہی پاکستان میں ہر حکومت کے پیچھے ہوتاہے؟

جواب:

ان سوالات کے جواب کو واضح کرنے کےلیے ہم مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھیں گے:

پہلا: عمران خان کیسے حکومت میں آیا تھا؟

1۔ عمران کو فوج ہی حکومت میں لائی تھی۔ عمران خان نے جنریلوں کی اس قدر تابع داری کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ 2018 میں انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران پر فوج کے بہت زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے بہت تنقید کی گئی ۔ یہ وہی وقت تھا جب اُس نے احتساب اور کرپشن سے جان چھڑوانے اور "نیا پاکستان" بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک عمران خان کو فوجی قیادت سے سب سے زیادہ قریبی تعلقات رکھنے والا سربراہِ حکومت قرار دیا جا تا رہا بلکہ اُس کو تو جنریلوں کے ماتحت ہونے کا الزام لگایا جا رہا تھا ۔

اگراُسے فوج کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو عمران خان کو حکمرانی کرنے کے لیے درکار اعتماد کبھی نہ ملتا! عمران خان نے 1996 میں" پاکستان تحریک انصاف" کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ 1997 کے عام انتخابات میں عمران خان قومی اسمبلی کی ایک نشست پر بھی کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ 2013 کے انتخابات میں اس کی جماعت فوج کی مدد سے ہی پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوئی۔ اُس کی جماعت قومی اسمبلی کی 30 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، چنانچہ وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعد اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پھر فوج نے عمران خان کو 2018 کے انتخابات جیتنے کا موقع فراہم کیا۔ مگر یہ اس وقت ممکن ہوا جب عمران خان کو فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کی حمایت حاصل ہوئی جو عام انتخابات کی نگرانی کررہے تھے۔

2۔ فوج اور انٹیلی جنس ادارے نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں عمران خان کے لیے سیاسی فضاء ہموار کرنے کےلیے بھر پور کام کیا۔ پاکستانی انٹیلی جنس نے ملک کے طول وعرض میں اُس کے جلسوں کو منظم کیا اور اُس کو ایک کامیاب امیدوار کے طور پر پیش کیا۔ فوج نے دوسری جماعتوں میں سے سیاست دانوں کو اپنی اپنی پارٹیوں سے منحرف کراکر اپنے ووٹرز کے ساتھ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہونے کےلیے قائل کیا۔ فوج نے ہی مسلم لیگ (ن) کے خلاف اقدامات کے دوران میڈیا کو ڈرا کر تحریک انصاف کے بارے میں مثبت رپورٹینگ کروائی، سیکیوریٹی اہلکاروں نے مسلم لیگ (ن) کےکارکنوں کو تنگ اور گرفتار کیا۔ فوج نے ہی پس پردہ مسلم لیگ (ن )کے امیدواروں کو نااہل کروایا تا کہ وہ انتخاب میں حصہ ہی نہ لے سکیں۔۔۔

3۔ اتنی مدد کے باوجود عمران خان کی جماعت عام انتخابات میں 149 نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کرسکی، جو کہ اکثریت کی حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ 172 نشستوں سے کم تھیں۔ مگر وہ فوج کی جانب سے جوڑ توڑ کرنے کے بعد اتحادی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اتحادی حکومت پاکستانی فوج کا منصوبہ تھا کہ اگر عمران خان کی رائے تبدیل ہوجائے اور وہ فوج کے خلاف عمل کرے، تو اس کو واپس گھر بھیجا جاسکے ۔ اسی طرح انٹیلی جنس ادارے نے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو عمران خان کی حکومت کی جانب مائل کیا۔ اسی لیے پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی نے 17 ارکان کو عمران خان کی کابینہ میں شامل کرایا ۔ اور کابینہ میں صرف تین ارکان ایسے تھے جن کا تعلق خالصتاً تحریک انصاف سے تھا اور وہ کبھی کسی دوسری جماعت کا حصہ نہیں رہے تھے!

دوسرا: وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے امریکہ کو کئی خدمات فراہم کیں:

1۔ پاکستانی ٹی وی چینل جیو نے عمران خان کا یہ قول نقل کیا کہ،"3 دسمبر 2018کو انہیں (عمران خان کو)امریکی صدر ٹرمپ کا خط موصول ہوا، جس میں اُس نے افغان امن مذاکرات میں پاکستان سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا، اورتحریک طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کرنے کا کہا۔"(روسی سپوٹینک-3 دسمبر 2018 )۔ اسی وجہ سے عمران خان نے دو دن بعد امریکہ کے نمائدہِ خصوصی زلمے خلیل زاد سے اسلام آباد میں ملاقات کرکے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ پاکستان افغانستان میں امریکہ کے منصوبے پر عمل کرے گا!

2۔ سابق پاکستانی وزیر دفاع، خواجہ آصف، نے پاکستانی حکمرانوں ،جن میں وہ خود بھی شامل ہے، کی خیانت کا 3 جنوری 2018 کو کیے جانے والے ٹوئیٹس میں اعتراف کرتے ہوئےکہا کہ، "پوچھتے ہو کیا کیا؟ایک آمر نےفون کال پہ سر نڈر کیا،وطن کو بارود و خون سے نہلا یا افغانستان پر اپنے اڈوں سے تمھارے 57800 حملے،ہماری گزرگا ھوں سےتمھارا اسلحہ،بارود گیا،ہزاروں سویلین ،فو جی، بریگیڈیئر،جنرل، جواں سال لیفٹیننٹ آپکی چھیڑی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔۔۔۔ جوآپ کادشمن،وہ ہمارا دشمن۔ ہم نے گوانٹانامو بے کو بھر دیا۔ ہم آپ کی خدمت میں اتنے مگن ہوئے کہ پوری ملک کو دس سال تک لوڈشیڈنگ اور گیس شارٹیج کے حوالے کیا، معیشت برباد ہو گئی لیکن خواہش تھی آپ راضی رہیں، ہم نے لاکھوں ویزے پیش کئے بلیک واٹر،ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک جگہ جگہ پھیل گئے۔۔۔" اس سے زیادہ واضح اورصاف بات نہیں ہوسکتی کہ پاکستان نے ایک ایسی جنگ لڑی جو اس کی جنگ نہیں تھی۔۔۔ اس نے امریکہ کی خاطر مسلمان بچوں کا خون بہایا۔۔۔ اور اس نے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے اپنے اسلامی دین کی اقدار کو پامال کیا۔۔۔

3۔ جیسا کہ وہ باقی کاموں میں ناکام رہا ، اُسی طرح بھارت کے حوالے سےبھی عمران نے زبانی جمع خرچ کے سوا، کشمیر کے بھارت سے جبری الحاق کے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ ہم نے18اگست 2019کو سوال کے جواب میں کہا تھا، "جب ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اپنے حالیہ فیصلے کا اعلان کیا تب پاکستان کا موقف رسوا کن تھا اور بات مذمت سے آگے نہیں بڑھی۔ پاکستانی دفترخارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ: ' پاکستان نئی دلی کی جانب سے آج(پیر، 5 اگست 2019) کو کیے جانے والے اعلان کی مذمت کرتا ہے اور اس اعلان کو مسترد کرتا ہے۔ ہندوستانی حکومت کی جانب سے کوئی یکطرفہ اقدام اس کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسلUNSC) )کی قراردادوں میں درج ہے، پاکستان غیر قانونی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ آپشن استعمال کرے گا۔'( اے ایف پی 5 اگست 2019)۔۔۔ یعنی بالکل اسی طرح جیسے عباس کی (فلسطینی ) اتھارٹی اور اس کے ارد گرد کی عرب حکومتیں کرتی ہیں، وہ یہودی وجود کی جانب سے فلسطین کی مبارک سرزمین القدس کو پامال کرنے کی مذمت اور اس پر احتجاج کرتی ہیں مگر جنگ کےلیے افواج کو متحرک نہیں کرتیں۔ پاکستان بھی یہی کردار دہرارہا ہے اور افواج کو حرکت میں لائے بغیر محض بھارتی اقدامات کو مسترد کرتا ہے!"

         4۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ لین دین کیا جبکہ آئی ایم ایف کو امریکہ کنٹرول کرتا ہے۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو نافذ کیا، حالانکہ اس نے انتخابی مہم میں اُن سے معاہدوں کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل 18 ستمبر 2011کو برطانوی اخبار "دی گارڈین" کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ،"ایک ملک جو امداد پر انحصار کرتا ہے؟ اس سے تو موت بہتر ہے۔ یہ آپ کو اپنی صلاحیتوں کو حاصل کرنے سے روکتا ہے، جیسا کہ استعمار نے کیا تھا۔ امداد ذلت آمیز ہے۔ ہر وہ ملک جس کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ انہوں نے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے پروگرام لیے، اس نے صرف غریبوں کو غریب اور امیروں کو مالا مال کیا ۔" پھر اقتدار میں آنے کے بعد اس نے اپنا وعدہ توڑ دیا! بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ گفت و شنید کا آغاز ہو گیا۔ پھر، 3 جولائی، 2019 کو،آئی ایم ایف نے 39 ماہ کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے قرض کا بندوبست کرنے پر اتفاق کیا۔۔۔

5۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے22 جولائی 2019کو فاکس نیوز کو انٹرویو میں امریکہ کےلیے اپنی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: "پاکستان میں ہم نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ہم امریکہ کے اتحادی ہیں اور اگر ہمیں اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات دی جاتیں تو ہم اسے پکڑ لیتے۔ لیکن اس کے باوجودپاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی نے امریکی سی آئی اے کو وہ معلومات فراہم کیں جن سے القاعدہ تنظیم کے بانی اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک پہنچنا ممکن ہوا۔ اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں تو یہ آئی ایس آئی تھی جس نے فون کنکشن کے ذریعے ابتدائی جگہ کے متعلق معلومات فراہم کیں"۔ یہ باتیں " پاکستان میں ایک سال پہلے ہونے والے انتخابات کے بعد، پاکستانی سابق کرکٹر ہیرو نےوائٹ ہاوس کے پہلےدورے میں کہیں جہاں اس نےامریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی،"(القدس العربی23جولائی 2019 )۔

تیسرا: عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان ، اور پھر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی

عمران خان اپنی حکمرانی کے تین سال تک فوجی قیادت اور امریکہ کے سامنے جھکا رہا اور تیسرے سال کے اواخر میں اس کے اور فوج کے سربراہ باجوہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور امریکہ کی جانب سے فوج کے موقف کی حمایت کرنے پر امریکہ کے ساتھ بھی کشیدگی پیدا ہوئی۔۔۔ عمران نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کےلیے فوج کے امیدوار لیفٹیننٹ جنرل انجم ندیم کی تعیناتی کی مخالفت کی اور یہ نامزدگی ایک طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہی، اور اس مخالفت کو فوج کے اندر ناپسند کیا گیا۔۔۔المنار ٹی وی ویب سائٹ نے 27 اکتوبر 2021 کو رپورٹ کیا کہ،" انجم اپنے نئے منصب کی ذمہ داری 20 نومبر کو سنبھالیں گے۔ 6 اکتوبر کو باجوہ نے انجم کو آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ آئی ایس آئی کا سربراہ مقررکیا تھا۔ اس سے قبل انجم ساحلی شہر کراچی کے کور کمانڈر تھے۔ باجوہ نے فیض حمید کو اسی مہینے پشاور کا کور کمانڈر تعینات کیا۔" عمران خان اعلانیہ طور پر داخلی انٹیلی جنس کی سربراہی کے لیے فیض حمید کی حمایت کر رہے تھے۔ یوں فیض حمید کی جگہ انجم کی تعیناتی کے بعد عمران حکومت کے فوج کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ یہ تعلقات مزید اس وقت کشیدہ ہوگئے جب یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ عمران خان جنرل باجوہ کی نومبر 2022 میں ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے ہیں۔

ظاہری بات ہے امریکہ آرمی چیف کے ساتھ کھڑا رہا۔ اسی لیے عمران خان کو فراہم کیا جانے والا اعتماد واپس لینے، اور اس کے ساتھ ہی اس کا متبادل لانے کا بھی فیصلہ ہوا ۔ عمران خان تک یہ معلومات پہنچیں تو اس نے فوجی قیادت کے ساتھ صلح صفائی اور اپنے دوست فیض حمید کی جگہ انجم کی تعیناتی کی حامی بھرلی، مگر فوجی قیادت نے امریکی حمایت سے عمران کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹا کر کسی اور کو لانے پر اصرار کیا! فوج اور امریکہ کو اس بات کا ڈرتھا کہ فوج کے فیصلے، کہ جس کو امریکی آشیرباد بھی حاصل تھی، کی اس طرح مخالفت فوج کو نیچا دیکھانے کا باعث بنے گی۔ لہٰذاعمران کو ہٹانے پر اصرار کیا گیا۔۔۔

چوتھا: عمران خان نے احتجاج کیا کیونکہ اس نے امریکہ کی بڑی خدمت کی تھی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اوراسی طرح اس نے فوجی قیادت کی اطاعت بھی کی تھی ۔۔۔گویا اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ فوج اور امریکہ اتنی ساری خدمات کے بعد بھی اس کو تنہا کر سکتے ہیں۔ وہ بھول گیا یا بھلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کافر ممالک اپنے ایجنٹوں کو سانس لینے کے لیے بھی گنجائش نہیں دیتے! بہر حال اس سے عمران خان سیخ پا ہوا اور امریکہ کے حوالے سے بیانات داغ دیے، لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی! اس کے امریکہ مخالف بیانات میں سے کچھ بیانات یہ ہیں:

1۔4 فروری 2022 کو یورو نیوز عربیہ نے بتایا کہ"پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے آج ہفتے کو غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا'مجھے برطرف کرنے کےلیے دوڑ دھو پ امریکہ کی جانب سے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت ہے'"۔ عرب پوسٹ نے 3 اپریل 2022 کو بتایا کہ،"مقامی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ عمران خان کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کا پیغام موصول ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ اعلیٰ سطحی امریکی عہدیدار، جس کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ جنوبی اور وسطی ایشیا کےامور کےلیے امریکی سیکریٹری خارجہ کے معاون، ڈونلڈ لو، ہیں نے بتایا کہ امریکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ خان کے چلے جانے کے بعد ہی امریکہ پاکستان تعلقات بہتر ہوں گے۔ "

2۔ عمران خان نےیوکرائن پر روسی حملے کے حوالے سے واشنگٹن کے موقف کے برخلاف موقف اپنایا اور حملے کی مذمت سے انکار کیا اور یہاں تک کہ ماسکو کا دورہ کیا، اور24 فروری2022 کو روسی صدر پوٹن کے ساتھ نظر آئے یعنی روس کی جانب سے یوکرائن پر حملے کے پہلے دن۔ جبکہ اس کے برخلاف پاکستانی فوج کے سربراہ باجوہ نے واضح طور پر امریکی موقف کی تائید کرتے ہوئے یوکرائن پر روسی حملے کی مذمت کی ، جو خان کے حالیہ بیان کے برعکس تھا۔ الحرۃ نے 2 اپریل 2022 کو بتایا کہ،" پاکستانی فوج کے سربراہ نے یوکرائن پر روسی جنگ کی مذمت کی، اس کو فوراً روکنے کا مطالبہ کیا اور اسے ایک "بہت بڑا سانحہ" قرار دیا جس سے ایک چھوٹا ملک متاثر ہورہا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی جانب سے روس پر تنقید اپنے ملک کے وزیر اعظم عمران خان کے موقف کے برخلاف ہے۔ عمران خان نے یوکرائن میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کے حوالے سے اسلام آباد کے غیر جانبدار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نے روسی صدر ولادی میر پوٹن پر تنقید کرنے سے بھی انکار کیا۔"

3۔ ایک اور جگہ، ' الربی الجدید ' نے 7 مارچ 2022 کو بتایاکہ، "عمران خان نے بتایا کہ یورپی یونین کے سفیروں نے خط لکھ کر اس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرائن میں روسی فوجی آپریشن کی مذمت کرے ۔۔۔۔ عمران نے کہا، 'میں یورپی یونین کے سفیروں سےپوچھنا چاہتا ہوں: کہ کیا تم نے ہندوستان کوبھی کوئی ایسا خط لکھا تھا؟'۔ انہوں ے مزید کہا کہ :'ہم آپ کے سامنے کیا ہیں؟ کیا ہم کوئی غلام ہیں۔۔۔ کہ جوآپ کہیں گے ہم کرلیں؟' پاکستانی حکمران نےبات جاری رکھتے ہوئے کہا،"جب ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوے کشمیر کا سٹیٹس ختم کیا تو کیا آپ میں سے کسی نے ہندوستان کے ساتھ رابطہ توڑا؟کیا اُن (پر) تنقید کی؟ کوئی تجارت بند کی؟" ۔

پانچواں: جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ عمران یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ فوج اور امریکہ کی اتنی ساری خدمات اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی! گویا وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جو استعماری کفار کا ایجنٹ بن کر ان کی حمایت سے اقتدار میں آتا ہے وہ ان کےلیے شطرنج کا ایک مہرہ ہوتا ہے، اور وہ اس کو جیسا چاہیں استعمال کرتے ہیں ، بلکہ جب چاہیں اس کو پھینک دیتے ہیں اگر وہ بال برابر بھی ان کے مفادات کے خلاف جائے، اور عمران خان کے ساتھ یہی ہوا! پاکستانی سپریم کورٹ نے7 اپریل2022 کو ڈپٹی اسپیکر کی اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کو مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ اسی طرح صدر کی جانب سے 3اپریل 2022 کو پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور وزیر اعظم عمران خان کے مشورے پر قبل از وقت انتخابات کروانے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کردیا۔ اسپیکر کو 10اپریل 2022 کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا حکم دیا، جس میں پاکستانی پارلیمنٹ نے 342 اراکین میں سے174 نے عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت میں ووٹ دیا۔۔۔ واضح رہے کے ان سارے اقدامات میں فوج ہی پس پردہ معاملات کی نگرانی کر رہی تھی، سینئر ججز فوج کی مکمل حمایت کے بغیر کبھی اس طرح کے اقدامات نہیں اٹھاتے۔۔۔

چھٹا: اگلے دن 11 اپریل 2022 کو پارلیمنٹ نے شہباز شریف کو اگست 2023 کے انتخابات تک کےلیے وزیر اعظم منتخب کرلیا۔ شہباز شریف سابق وزیر اعظم نواز شریف کا چھوٹا بھائی ہے۔ شہباز شریف 2018 سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرتھا۔ شہباز نے اپنے بھائی نواز کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن )کی قیادت سنبھالی جس نے پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ شہباز شریف فوج اور امریکہ کے اشاروں پر چلنے کے لیے تیار تھا ۔۔۔اسی لیے فوج نے عمران خان کی جگہ اس کی حمایت کی، اور اس نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے:

1۔ شہباز نے امریکہ کی مرضی کے مطابق اپنی پالیسی شروع کی۔۔۔ ہندوستان کے ساتھ مصالحانہ لہجے سے ابتدا ء کی کہ وہ مزاحمت کی بجائے ہندوستان کے ساتھ بات چیت کےلیے تیار ہے۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں شہباز شریف نے کہا: " پاکستان ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ تاہم مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہندوستانی وزیر اعظم کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی اجازت دے تاکہ ہماری توانائیاں دونوں ملکوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کےلیے استعمال ہوں۔"(سکائی نیوز 14 اپریل 2022)۔ ہندوستانی وزیراعظم نےٹوئٹر پر شہباز شریف کو جواب دیا کہ، " میں شہباز شریف کو پاکستان کا وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دیتا ہوں۔ ہندوستان خطے میں امن واستحکام کا خواہاں ہے وہ دہشت گردی سے پاک خطے کا خواہاں ہے، تاکہ ہم ترقی اور اپنی عوام کی خوشحالی پر توجہ مرکوز کر سکیں۔" یا د رہے کہ یہ وہی ہندوستانی وزیر اعظم ہے جو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے، وہ اپنے ہندو کارندوں کو ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا ہے، ان کے گرد گھیرا تنگ کرتا ہے، ہندوستان میں مسلمانوں کے رہنے کو قبول نہیں کرتا، اور تعلیمی اداروں میں مسلمان بچیوں کو شرعی حجاب کے حوالے سے تنگ کرتاہے۔

2۔ اخبارات کے مطابق شہباز شریف نے منتخب ہونے کی صورت میں جنریلوں کو مل کر کام کرنے کی پیش کش کی تھی۔ اُس نے کہا تھاکہ ملک کو ضرورت ہے کہ ہم فوج کے ساتھ اختلافات بھلا کر آگے بڑھیں۔ اس سے قبل وہ 1999 میں اپنے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹنے پر فوج پر تنقید کرتا رہا ہے۔ شہباز شریف 2018 میں عمران خان کے مقابلے میں الیکشن بھی ہار چکا ہے۔ دسمبر 2019 کو نیب نے دونوں بھائیوں کی 23 جائیدادوں کو منجمد کیا تھا اور ان پر کرپشن کا الزام لگایا تھا۔ ستمبر 2020 میں شہباز شریف کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا پھر اپریل 2021 میں اُس کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ اُس کے برسرِ اقتدار آنے میں فوج کے ساتھ صلح کئی عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔

3۔ یہاں شہباز شریف کو امریکہ کی تیز رفتار مبارکباد کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ امریکی سیکریٹری خارجہ بلینکن نے کہا: " امریکہ پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کو مبارک باد دیتا ہے، ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔"( سکائی نیوز 14 اپریل 2022)۔ اس بیان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امریکہ نے فوج کے ساتھ اس کی صلح اور امریکی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے وعدےکو قبول کرلیاہے اسی لیے اس کو کامیاب بنانے اور اور برسر اقتدار لانے کی حامی بھرلی جبکہ اس سے قبل اسے اور اس کے بھائی نواز، دونوں کو اقتدار سے دور کردیا گیا تھا ۔ اب امریکہ نے صرف شہباز کے امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہونے کے بعد ہی رضامندی ظاہر کی ہے، جبکہ اس نے امریکہ کی وفادار فوج سے مفاہمت کر لی ہے!

4۔ 12 پریل 2022 کو وائس آف امریکہ نے بتایا کہ " پاکستان کی نئی حکومت نے منگل کے دن کہا کہ وہ"امریکہ کے ساتھ امن وسلامتی اور خطے کی ترقی کے مشترکہ اہداف کے حصول کےلیے مل کر کام کرے گی۔ " ۔۔۔"شہباز شریف کےدفتر نے وائٹ ہاوس کی پریس سیکریٹری، جین بساکی کے پیر کو جاری ہونے والے اس بیان کہ واشنگٹن اس بات سے قطع نظر کہ اسلام آباد کا رہنما کون ہے، اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، کے جواب میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا،" ہم امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ طویل مدتی تعلقات دوبارہ شروع کرنے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔۔۔ ہم ان اہم تعلقات کو برابری کے اصولوں اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں"۔۔۔ وائٹ ہاوس کی پریس سیکریٹری، جین بساکی، نے کہا" بائیڈن انتظامیہ آئینی جمہوری اصولوں کو پُرامن طریقے سے برقرار رکھنے کی حمایت کرتی ہے ، اورہم پاکستان میں کسی ایک سیاسی جماعت کے مقابلے میں دوسری جماعت کی حمایت نہیں کرتے۔۔۔ہم پاکستان کے ساتھ اپنے طویل مدتی تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ خوشحال اور جمہوری پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے۔۔۔طویل مضبوط اور دائمی تعلقات نئی اسلام آباد کی قیادت کے سائے میں جاری رہیں گے۔"

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ ہی اپنے سابق ایجنٹ عمران خان کو ہٹانے اور شہباز شریف کو لانے کے پیچھے ہے جو واضح طور پر اعلان کر رہا ہے کہ وہ عمران خان سے بڑھ کر امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کےلیے تیار ہے!

ساتواں: یہ ایجنٹ نصیحت حاصل نہیں کرتے اورنہ عقل رکھتے ہیں۔ جب امریکہ ان میں سے ایک کو گراتاہے تو دوسرا اس کو خوش کرنے کےلیے دوڑا چلا جاتاہے، اور اقتدار تک پہنچنے کےلیے اسے اپنی خدمات پیش کرنے کےلیے تیار ہوتاہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی نظریاتی، آئیڈیا لوجیکل سیاسی رہنما نہیں ہیں کیونکہ ان کا مقصد کسی نہ کسی طرح اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے نصیحت حاصل نہیں کی کہ امریکہ نے کیسے ایک بار سے زیادہ اس کے بھائی کوگرایا اور اس کو سزا دے کر جلا وطن کیا۔ امت کو آئیڈیالوجیکل سیاسی قائدین کی ضرورت ہے۔ امت کی آئیڈیالوجی اسلام ہے جو کہ تمام مسائل کا بنیادی اور درست حل دیتاہے۔ ایسے ہی قائدین امت کو بچائیں گے، اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے او رامریکہ کی باج گزار ریاست سے نکال کر عظیم ریاست بنائیں گے۔ اللہ کے اذن سے پاکستان کے اندر عظیم ریاستِ خلافت راشدہ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔

﴿إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغاً لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾

" بیشک عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں کی) تبلیغ ہے ۔ "(الانبیاء، 21:106)

پانچ شوال 1443 ہجری

5 مئی 2022

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.