Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف افغان اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں

 

سوال:

 

وقتاًفوقتاً ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب  افغان اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم اور جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، ان جھڑپوں میں دونوں ملکوں کے دسیوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔2021 میں اگست کے وسط میں طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس کے اسباب کیا ہیں؟ کیا اس کے اسباب علاقائی ہیں یا خارجی ہیں؟

 

جواب:

 

ان اسباب کو واضح کرنے کےلیے ہم پہلے یہ وضاحت کرتے ہیں:

 

پہلا: افغانستان اور پاکستان کی تاریخی اور جعرافیائی حقیقت:

1۔1893 ءمیں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ سر مورٹیمور ڈیورانڈ (Sir Mortimer Durand)اور افغان بادشاہ امیر عبد الرحمن خان کے درمیان بڑی حد بندی (جس کو ڈیورنڈلائن کا نام دیا گیا)کا معاہدہ ہوا جس کی لمبائی 2649 کلومیٹر ہے جو افغانستان اور پاکستان کے درمیان شمال مشرق سے جنوب مغرب تک  پھیلا ہوا ہے۔ اس سرحد  کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان باقاعدہ سرحد تسلیم کیا گیا،  اس نے پشتون قبائل کو  لائن کی دونوں جانب تقسیم کرکے رکھ دیا۔ یاد رہے کہ دونوں طرف سرحدی علاقوں میں  پشتون قبائل کی اکثریت ہے  جو افغانستان میں بھی سب سے بڑے قبائل ہیں اور افغانستان کی آبادی کا40 فیصد  پشتون ہیں، اور دو صدیوں سے افغانستان کے تمام حکمران پشتونوں  میں سےآئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی پشتون پنجابیوں کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔

 

بہرحال  افغانستان  اس لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ  برطانیہ نے اس وقت   ڈیورنڈ لائن کھینچتے ہوئے خطے کی نسلی اور قبائلی  ڈیموگرافک  بنیاد کو خاطر میں نہیں لایا اور 21 نومبر1893ء کو اپنے استعماری مفاد کےلیے مصنوعی طور پر یہ لکیر کھینچ لی۔ برطانویوں نے اپنے سے  پہلے والے بہت سے لوگوں کی طرح  ان سرحدی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی  مگر ان سنگلاخ پہاڑیوں کے قبائل نے  اس بات کو کبھی قبول نہیں کیا کہ ان پر ایران یا ہندوستان کے  توسیع پسند حکمران حکومت کریں ۔ برطانیہ نے1839ء سے 1842ء  تک افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن شرمناک عسکری شکست کا سامنا کیا۔  پھر 1878ء میں دوبارہ  حملہ کیا  مگر دو سال بعد ہی پسپا ہوا۔ مگر برطانیہ نے افغان حکمرانوں پر سیاسی اثرورسوخ حاصل کیا جنہوں نے1879ء میں اس کے ساتھ جانڈاماک (Gandamak)کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس معاہدے  کی وجہ سے افغانستان  اپنی وسیع اراضی سے محروم ہوا اور وہ برطانوی استعمار کے قبضے میں گئی جس نے  اسلامی برصغیر پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ افغان حکمرانوں نے اپنی خارجہ پالیسی کو برطانیہ کی پالیسی کے مطابق چلانے کو  قبول کیا، بلکہ  برطانیہ نے اُن کے خارجی تعلقات کو محدود کیا اور اس کے بدلے افغانستان کو مالی مراعات دیں ۔۔۔

 

2۔ بیسویں صدی کے وسط تک  برطانیہ نے دونوں ملکوں( افغانستان اور پاکستان) اور ان کی پالیسیوں پر کنٹرول حاصل کرلیا۔یہ کنٹرول اس قت تک جاری رہا   جب پاکستان میں امریکہ کی جانب سے فوجی انقلاب لائے گئے۔ افغانستان میں  اس کا کنٹرول بادشاہت کے اختتام  اور سوویت  یونین کے دور میں  روسی بالادستی اور 1979 میں روسی  قبضے کے ساتھ ختم ہوا،  تاہم روس کو افغانستان میں شرمناک شکست کا سامنا ہوا اور وہ ذلیل ہوکر افغانستان سے نکل گیا۔ پھر امریکہ نے  روس کی جگہ لینے اور   اپنے تابع پاکستان اور سعودیہ کی مدد سے اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے  کی کوشش کی۔ چنانچہ 1996 میں طالبان کی پہلی حکومت ہوئی، جس کو2001ء میں امریکہ نے حملہ کرکے ختم کردیا اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔  مگر امریکہ بھی 20 سال افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد بلا  آخر 2021 میں  عسکری شکست کے بعد ذلیل ورسوا ہو کر نکلا، اور  طالبان  دوبارہ15 اگست 2021 کوبرسر اقتدار آئے۔

 

دوسرا: افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپیں

1۔ اگست 2021 ءمیں امریکہ کے نکلنے کے بعد طالبان دوحہ معاہدے کے مطابق  کابل میں حکمران بن گئے، انہوں نے  پاکستان کی جانب سے سرحدی کو کنٹرول کرنے کے لیےاٹھائے جانے والےاقدامات  کو پرزور طور پر مسترد کیا،  یوں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف  سرحدی کشیدگی  میں اضافہ ہوا۔ افغان پناہ گزینوں اور پشتون قبائل کو تنگ کرنے پر  سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا ، پہلے یہ لوگ بلا روک ٹوک آزادی سے سرحد کی دونوں جانب  آتے جاتے تھے، لوگوں اور اشیا کی منتقلی کی اجازت کےلیے سرحد کھولنے  کےلیے ان جھڑپوں میں تیزی آتی گئی، پھر پاکستان نے تاریخ میں پہلی بارافغانیوں کے داخلے کےلیے ویزے کی پابندی لگائی،  باڈر پر 3میٹر انچی خاردار تاریں لگائی  اور سینکڑوں کلومیٹر خادار تاروں پر سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کیے جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ پاکستان یہ سب اشیا اور افراد کی نقل وحرکت روکنے اور"دہشت گردی" سے حفاظت  کے نام پر کیا۔ یوں یہ خاردار تاریں  حالات کشیدہ کرنے  اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے اسباب میں سے ایک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت  پاکستانی سیکورٹی فورسز کو دونوں ملکوں کے درمیان 2700 کلومیٹر سرحد پر ان خاردار تاروں کو لگانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے  جبکہ یہ ۹۰ فیصد لگائی جاچکی ہیں۔ اشرف غنی حکومت نے ختم ہونے سے پہلے ان خاردار تاروں کو لگانے کی حمایت کی تھی۔ طالبان حکومت نے  پاکستانی سیکورٹی فورسز کو ان تاروں کو نصب کرنے سے روکنے  کی کوشش کی جس کی وجہ سرحدی علاقوں میں  طرفین کے درمیان مختلف  سرحدی علاقوں میں  جھڑپیں ہوئیں جس میں دونوں اطرف سے لوگ زخمی اور جاں بحق ہوئے۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنوبی  خوست قبائلی سردار  مینا گل زدران نے  کہا کہ"تحریک طالبان کا موقف  دونوں طرف رہنے والے قبائل کی حقیقت سے ہم آہنگ ہے کیونکہ  ایک ہی نسل کے لوگوں کے درمیان خاردار تاریں نہیں لگائی جاسکتی جن کے خاندان، قبیلے  رسم ورواج،  دین اور معاشرہ ایک ہے۔  دونوں طرف خاندانی تعلقات ہیں،  اسی لیے قبائل شروع سے ہی ان خاردار تاروں کی تنصیب کے خلاف تھے،  مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اشرف غنی حکومت نے ان خاردار تاروں کے  حوالے سے پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا تھامگر طالبان  تحریک اپنے لیے ان قبائل کی اہمیت سے باخبر ہیں،  کیونکہ طالبان کی قوت کا دارومدار ان قبائل پر ہے۔۔۔"(العربی الجدید19 اپریل 2022 )

 

2۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان  حالات بگڑ گئے خاص طور پر جب پاکستان نے  طالبان حکومت پر یہ الزام لگایا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کو  پاکستانی فوج پر حملوں سے نہیں روکتی۔  اس کے بعد پاکستان نے یہ کہتے ہوئے افغانستان کے اندر چند مقامات کو نشانہ بنایا کہ یہ  تحریک طالبان پاکستان کے اڈے تھے،   جس کے بعد دونوں  کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعدطالبان نے پاکستان پر الزام لگایا کہ  امریکی طیارے پاکستان کے اوپر سے پرواز کرکے  افغانستان پر بمباری کرتے ہیں اور  ایسی ہی ایک بمباری میں القاعدہ تنظیم کے سربراہ  ایمن الظواہری کابل میں مارے گئے۔" طالبان حکومت کےقائم مقام وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نےاتوار کو کہا کہ  پاکستان نے  افغانستان پر حملوں کےلیے امریکی ڈرون کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، جس کی پاکستان کے وزیر خارجہ نےتردید کی۔  پاکستانی حکام نے اِس سے قبل اُس ڈرون حملے میں ملوث ہونے یا اس سے متعلق علم ہونے کی تردید کی تھی جس کے متعلق امریکہ نے کہا تھا کہ اس نے جولائی میں کابل میں حملہ اس نے کیا تھا جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مارے گئے تھے۔ قائم مقام افغان وزیر دفاع ملا محمدیعقوب نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ  یہ ڈرونز افغانستان میں پاکستان سے داخل ہوتے تھے۔"( راٹرز،28 اگست 2022)۔

 

3۔پاکستان کے مفادات ٹی ٹی پی کےحملوں کا نشانہ بنے، خواہ وہ حملے ملک ہوئے یا افغانستان کے اندر۔  اس لیے پاکستانی فوج نے افغانستان کے اندر تحریک کے ٹہکانوں کو نشانہ بنایا۔   افغانستان سے   متصل وزیرستان میں  حملے سے ۷ فوجیوں کے مرنے پر  ا پریل 2022میں افغانستان کے مشرق میں خوست اور کنڑ میں پاکستانی طیاروں نے بمباری کی  جس کے نتیجے میں 47 لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ طالبان حکومت نے پاکستانی حکومت کو خبردار کیا کہ  اگر دوبارہ ایسا حملہ ہوا تو  وہ  خاموش نہیں رہیں گے بلکہ  اس کا بھر پور طاقت سے جواب دیں گے۔ حلانکہ 2 جون 2022 کو کابل میں  افغان حکومت کی وساطت سے تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکومت کے درمیان جنگ  بندی کا معاہدہ ہوا تھا مگر یہ معاہدہ اس وقت ختم ہوا جب پاکستان نے  اگست 2022 میں تحریک طالبان ایک کمانڈر کو اس کےتین ساتھیوں سمیت  قتل کیا،  جس کو 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور میں132 بچوں کا قاتل سمجھاجاتا تھا۔ اس کے بعد دونوں طرف سے حملے شروع ہوگئے۔۔۔چنانچہ 15 دسمبر2022 کو پاکستانی اور افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان ایک  ہفتے سے بھی کم مدت  میں دوسری بار  تصادم ہوا جس میں 16 پاکستانی شہری زخمی ہوئے۔ چمن باڈر کو ایک ہفتے کےلیے بند کردیا گیا،  جو کہ سب سے زیادہ پر ہجوم گزرگاہوں میں سے ایک  اور اہم تجارتی راستہ ہے۔ فائرنگ کے اس تبادلےاور  اس کشیدگی کے بعد دونوں اطراف سے اعلیٰ سطحی فوجی اور سیاسی  عہدہ داروں نے 20 دسمبر 2022 کو پاک افغان دوستی گیٹ کے سامنے  دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی کے ماحول میں   امن کو برقرار رکھنے کےلیے   اجتماع کا اہتمام کیا اور اس دوران پاکستان نے وقتی طور پر گزرگاہوں کو بند رکھا،  تاہم یہ اجتماع  ناکام ہوا اور کوئی قابل ذکر نتائج  نہیں نکلے!

 

تیسرا: ان جھڑپوں کی محرکات اور دونوں ملکوں کے درمیان اس تناؤ  میں اضافے کا سبب

اس سوال کا جواب دینےکےلیے دو اہم امور پر غوروفکر  درکار ہے

امریکہ اور پاکستان کی جانب سے طالبان کو  ہراساں کرنا اور اشتعال دلانا ہے جو کہ یوں ہے:

1۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے  ہراسانی اور اشتعال انگیزی:

ا۔ پاکستان کی جانب سے سرحدپر افغانوں کو اشتعال دلانا جیسے  ان کو تنگ کرنا  اور نقل وحرکت سے روکنا، افغانستان کے اندر   بمباری کرنا، سرحد پر خاردار تاریں لگانا اور اس عمل کو زبردستی مسلط کرنا اور سر حدوں پر سخت سیکورٹی اقدامات کرنا ۔   پاکستان کی جانب سے  یہ سب اشتعال انگیز اقدامات   نےافغانستان میں قائم طالبان حکومت کو جوابی اقدامات پر مجبورکیا ، لہٰذا انہوں نے بمباری کا جواب  توپخانے سے بمباری کر کے دیا اور پاکستانی فوج کی جانب سے سرحد پر لگائی گئی باڑ کے بعض حصوں کو اکھاڑ دیا، جس کی وجہ سے دوطرفہ تناؤ اور کشیدگی میں مزید گرما گرمی پیدا ہوئی۔

 

ب۔ اسی طرح پاکستانی فوج کی پاکستان میں پشتونوں کے خلاف جنگ اور  سرحدی لائن کو  افغانستان کے اندر لے جانا،  افغان پناہ گزینوں کو تنگ کرنا اور بلاروک ٹوک سرحد کے دونوں اطرف آنے جانے والے پشتون خاندانوں  کو تنگ کرنا، اور افراد اور اشیاء کے منتقلی کو روکنے   سے کشیدگی میں اضافہ ہوا  جس پر جھڑپیں ہوئیں۔  پاکستان نے مزید تنگ کرتے ہوئے  تاریخ میں پہلی بار افغانوں کےلیے پاکستان میں داخل ہونے کے لیے ویزا کی شرط لگائی ۔۔۔

 

ج۔ اس کشیدگی میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ پاکستانی حکومت نے  امریکی طیاروں کی افغانستان میں بمباری کےلیے سہولت کاری کی جیسا کہ کابل میں بمباری میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو قتل کیا گیا جس کے حوالے سے ملا محمد یعقوب کے بیان کا ہم نے اوپر ذکر کیا تھا۔

 

2۔ امریکہ کی جانب سے طالبان حکومت کو تنگ کرنا:

ا۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہ کیا جائے، امریکہ نے   بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کےلیے  بہت سی شرائط رکھیں۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم نہ کیا جانا  طالبان حکومت  پر لٹکتی تلوار بن چکی ہے۔ تسلیم کرنے کےلیے بین الاقوامی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے جیسے  مٹھی بھر سیکولر لوگوں  اور  امریکہ کے سابق ایجنٹوں کو اقتدار میں شریک کرنا،  عورتوں کے حقوق  اور مصنوعی مطالبات ، اور ان کو جواز بنا کر تحریک طالبان پر حملے کرنا۔۔۔

 

ب۔ بیرون ملک موجود افغانستان کی رقوم کو منجمد کرنا اور نئی حکومت کو ان اموال سے استفادہ کرنے سے روکنا، بلکہ ان کے کچھ حصے کو  غیر حکومتی طریقے سے خرچ کرنا  یعنی  تحریک طالبان حکومت کو کمزور کرنے کےلیے خرچ کرنا، جن میں سے ایک افغانستان میں مغرب سے جڑی سول سوسائٹی کے قیام کا مطالبہ اور اس کی کوششیں ہے۔

 

ج۔ امریکہ چاہتاہے کہ  ہندوستان  پاکستان کی طرف سے بے فکر ہوکر چین پر توجہ مرکوز رکھے جس کےلیے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں الجھانا ضروری ہے، تا کہ پاک افغان سرحد  پر امن  نہ ہولیکن پاکستان  ہندوستان سرحد پر امن رہے اور ہندوستان پوری یکسوئی کے ساتھ چین کی طرف متوجہ رہے۔۔۔

۳۔طالبان پر اس دباؤ کا تعلق امریکہ اور پاکستان دونوں کی طرف سے ہے، خصوصاً11 اپریل 2022کو شہباز شریف کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں  امریکہ کی بھرپور وفادار حکومت قائم ہے جو  بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی میں  امریکہ کی ضرورت کے مطابق ہی چلتی ہے۔۔۔اس سب باتوں کو جوڑنے سے یہ واضح ہوجاتاہے:

 

ا۔ امریکہ نے 2020 میں قطر کے دار الحکومت دوحہ میں تحریک طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا، جس میں تحریک نے امارت اسلامی افغانستان کی جانب سے  یہ عہد کیا کہ" امارات افغان سرزمین کو  امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گی،  وہ  افغانستان میں کسی بھی جماعت اور فرد کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کےلیے خطرہ بننے نہیں دے گی، وہ ایسے لوگوں کی بھرتی، تربیت اور فنڈنگ کو روکے گی اوران کی میزبانی نہیں کرے گی" اور یہ کہ"امریکہ اور امارت اسلامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔"

 

یہ سب کچھ اور دوحہ معاہدے کے باوجود افغان سرزمین بدستور امریکی حملوں کی زد میں ہے۔  امریکہ نےیکم اگست 2022 کو اپنے صدر جو بائیڈن کے ذریعے اعلان کیا، جیسا کہ امریکی انتظامیہ کے آفیشل صفحے پر آیا کہ " امریکہ نے افغان دار الحکومت کابل میں ایک فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہر مارے گئے۔۔۔" جیسا کہ ملا محمد یعقوب کے بیان میں اوپر گزر چکا ہے۔  یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ  امریکہ بدستور  اپنی انٹیلی جنس اور جاسوسوں  کے ساتھ افغانستان میں سرگرم ہے، اور  اس کے ایجنٹوں کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان  بدستور امریکہ کے کنٹرول میں ہے  جہاں سے امریکہ متحرک ہے اور  اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے افغانستان میں اقدامات کر رہا ہے۔

 

ب۔ اس طرح یہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں  امریکہ کی جانب سے اکسانے اور شہ دینے پر ہورہی ہیں،  جس کا مقصد  پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحدی تنازعات میں الجھا کر  ہندوستان کو چین پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل بنانا  ہے۔اس کے علاوہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ  طالبان، اور  خاص طور پر  تحریک طالبان میں حقانی نیٹ ورک کو،  جن  سے افغانستان میں امریکی  اور نیٹوفورسز پر متعددحملوں کو منسوب کیا جاتاہے، دباؤ میں لایا جائے۔ اس طرح طالبان کو کچھ بین الاقوامی معاہدوں، یا تصورات، یا   امریکہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا جائے ۔

 

چوتھا: امریکہ اور بطور ایجنٹ کے اس کے ساتھ مل کر کام کرنے والے اور ان کے پیرو کار ہی  اسلامی سرزمین میں فساد کی جڑ ہیں۔  امریکہ اور اس کے ایجنٹ  کسی مؤمن کے حوالے سے  رشتہ داری کا کوئی لحاظ رکھتے ہیں نہ کسی عہد کا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ﴾

"یہی دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہو"(المنافقون، 63:4)۔   

 

اس لیے   یہ حیران کن ہے کہ اس سب کے باوجود  طالبان حکومت  کے عہدہ دار  قطر میں امریکی عہدہ داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں حلانکہ امریکہ افغانستان اور تمام مسلمانوں کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے اور تاک میں بیٹھا ہوا ہے، یہ کبھی اپنے عہد کو پورا نہیں کرتا،  اس نے افغانستان کے اموال کو منجمد کیا ہوا ہے جو کہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور افغانستان  سرزمین اور فضاوں کی حرمت کو پامال کرتا ہے۔۔۔ کافر استعماری ممالک کا یہی حال ہے، کفر ایک ہی ملت ہے۔۔۔یہ اپنے عہد وپیمان کی پابندی کبھی نہیں کرتے۔۔۔

 

مسلمانوں کا معاملہ اسی طرح ہی درست ہو سکتا ہے جیسے پہلے ہوا تھا:  اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام، جو  کفار اور ان کے پیچھے آنے والوں کو دھتکار دے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾

"اور جب جنگ میں تم ان پر قابو پالو تو ان کے ذریعے ان کے بعد آنے والوں کو بھی دھتکار دو۔"(الانفال، 8:57)

 

۔۔۔خلافت، جس کا دستور اسلام ہے، وہ دستور جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت  اور اسی سے نکلنے والے اجماع صحابہ اور شرعی قیاس سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ کوئی انسانوں کا بنایا ہوا دستور نہیں ہے، چاہے وہ افغانستان میں  ظاہر شاہ کا 1964 ءکا دستور ہو  جس کی حکومت 1973ء میں ختم ہوئی، اور اس کے دستور کو طالبان نے اختیار کیا جیسا کہ وزیر انصاف نے28 ستمبر 2021 کو اعلان کیا( الجزیرہ، اناتولیہ اوروائس آف امریکہ، 28 ستمبر 2021 )، یا جیسا دیگر مسلم ممالک کے انسانوں کے بنائے دستور ہیں،  یہ سب اللہ کے حکم کے خلاف ہیں،

 

﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ﴾

"اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے فیصلے کیجئے ، ان کی خواہشات کی پیروی مت کریں  اور ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں  اللہ کے نازل کردہ میں سے بعض کے بارے میں تمہیں فتنے میں نہ ڈالیں اور اگر یہ منہ موڑ لیں  تو جان لیجئےکہ  اللہ ان کو ان کے بعض گناہوں کی سزا دینا چاہتاہے۔"(المائدہ، 5:49)۔

 

مسلمانوں کے علاقوں کو جن مصائب اور فتنوں کا سامنا ہے  اور استعماری کفار کی مسلمانوں کی سرزمین پر لالچی نظریں لگی ہیں،  اس سب کی وجہ  مسلمانوں کا اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی نہ کرنا  اور نبوت کے طرز پر خلافت کا موجود نہ ہونا ہے،  یہ کوئی نامعلوم بات نہیں بلکہ ہر بصارت اور بصیرت والے عقلمند کو معلوم ہے۔

 

افغانستان اور پاکستان دونوں کو، جن کو امریکہ باہمی تنازعات میں الجھا رہا ہے، چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان لڑائی کے جرم کا ادراک کریں، حقیقی دشمنوں امریکہ اور ہندوستان کی چالوں کو سمجھیں جو  ان تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں اور اپنے خبیث مقاصد کے لیے ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔۔۔دونوں کو چاہیے کہ اپنے برادرانہ  اسلامی تعلقات کو مزید مستحکم کریں ، کفر کے سرغنہ امریکہ اور دوسرے کافر استعماری ریاستوں سے  رابطہ توڑ دیں جو  ہماری سرزمین کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں،  دونوں کو چاہیے کہ  خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی مدد کریں تاکہ  اسلام اور مسلمان سربلند ہوں اور کفار اور کفر ذلیل ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

"اس دن مؤمن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہی جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے، وہی غالب اور حم کرنے والا ہے۔"(الروم، 5-4)

 

6 رجب 1444 ہجری

بمطابق 28 جنوری 2023

Last modified onبدھ, 08 فروری 2023 20:46

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.