Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

کیا ڈالر پر انحصار میں کمی اس کی بالا دستی کو متاثر کرتی ہے؟

 

فاطمہ مصعب، پاکستان

 

اس بارے میں بحث بڑھ رہی ہے کہ آیا بعض تجارتی معاہدات میں ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں کے استعمال کی طرف تبدیلی ڈالر کے خاتمے کے عمل کی طرف لے جائے گی، اور کیا اس کے نتیجے میں موجودہ عالمی نظام میں ڈالر کی بالادستی میں کمی آئے گی یا نہیں۔

 

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ لوگوں نے ڈالر کے زوال کے امکان کے بارے میں قیاس آرائیاں کی ہوں، اور معیشت میں ہونے والے مسلسل اتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہوئے، یہ آخری بار بھی نہیں ہوگا۔ لیکن موجودہ بحث کو سمجھنے اور اسے تناظر میں رکھنے کے لیے، ہمیں نظام کی حقیقت ، اس کے سیاسی اور اقتصادی دونوں پہلوؤں کو دیکھنے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھنا ہوگا کہ کس طرحامریکہ اُس سرمایہ دارانہ ورلڈ آرڈر کی جڑوں میں موجود ہے جس ورلڈ آڈر کے ساتھ تمام ممالک اپنی وفاداریاں جوڑے ہوئے ہیں۔

 

یہ بحث دوبارہ کیوں شروع ہوئی؟

حالیہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ ریاستوں نے امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی ( Yuan) میں معاہدات کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ڈالر پر ان کا انحصار کم ہوجائے گا۔

 

- عراق کا مرکزی بینک،جو تیل کا ایک بڑا سپلائر ہے،اس نے اعلان کیا کہ وہ چین کے ساتھ تجارت کو پہلی بار Yuan میں طے کرنے کی اجازت دے گا۔

 

- بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نےبھی ستمبر میں اسی طرح کا اعلان کیا تھا۔

 

- چین کے زیرِ اثر شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا۔ چین کے علاوہ یہ بلاک روس، بھارت، پاکستان، ازبکستان، قازقستان، تاجکستان اور کرغزستان پر مشتمل ہے۔

 

- دسمبر میں، چین اور سعودی عرب نے Yuan میں اپنا پہلا لین دین  کیا۔

 

- روس نے 2023 میں اپنی تمام تیل اور گیس کی اضافی آمدنی کو Yuan میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے زیادہ سے زیادہ چینی کرنسی کا رخ کررہاہے۔ (ماخذ: الجزیرہ)

 

- برازیل اور چین نے امریکی ڈالر کے بجائے اپنی اپنی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے تجارت کرنے کا معاہدہ کیا۔ چین فروری سے اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے کہ وہ برازیل میں Yuanپر مبنی تجارت کو آباد کرنے کے لیے ایک کلیئرنگ ہاؤس کھولے گا۔چین اس سے قبل پاکستان، قازقستان اور لاؤس میں بھی اسی طرح کے کلیئرنگ ہاؤسز کا اعلان کر چکا ہے۔ (ذرائع)

 

- چین اپنے امریکی ٹریژری بانڈز سے چھٹکارا حاصل کر رہا ہے، جو مختلف  ممالک میں ڈالر کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقے میں ایک ہے۔ اس کے پاس اب 870 ارب ڈالر کا امریکی قرض ہے، جو 2010 کے بعد سے اب تک سب سے کم رقم ہے۔

(CFR)

- چین اور روس دونوں تیل کا لین دین اپنی مقامی کرنسیوں میں کر رہے ہیں۔

 

- یورپی یونین نے ایرانی تیل کی تجارت کو یورو میں طے کرنے کے انتظامات کیے ہیں۔

 

- بھارت نے ایرانی تیل کی قیمت بھارتی روپے میں ادا کرنے کا ایک معاہدہ کیا ہے۔

 

یہ فیصلے مختلف سیاسی حقائق سے متاثر شدہ ہیں: امریکہ کے روس پر مالی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے سے لے کر ایران سے تیل خریدنے کی خواہش اور جوہری ڈیل کے گرد موجود سیاسی تناؤ سے بچنے تک۔

 

اسٹریٹجک نقطہ نظر سے، ڈالر پر ان کا انحصار کم کرنے کی کوشش اس خوف کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ڈالر کی طاقت کو دوسرے ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جیسا کہ اس نے روس پر پابندیاں عائد کرتے وقت کیا تھا۔ ڈالر پر اپنا انحصار کم کرکے، اور اپنی تجارت کو Yuan جیسی دوسری کرنسی میں منتقل کرکے، ریاستیں ممکنہ طور پر ڈالر کی طاقت کو کمزور کرسکتی ہیں۔

 

اقتصادی نقطہ نظر سے، ڈالر پر ان کے انحصار میں کمی انہیں اپنی معیشت کو برقرار رکھنے اور امریکی اقتصادی پالیسیوں کے ان پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے سہارا دے سکتی ہے۔

 

یہ اہم ہے کیونکہ جیسے جیسے ڈالر کی طاقت بڑھتی ہے، یہ دوسرے ممالک پر افراطِ زر کے دباؤ کو بڑھاتا ہے۔ اس سے مرکزی بینکوں کے لیے بلند افراطِ زر پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ تکلیف تب  بڑھ جاتی ہے جب ڈالر کی طاقت تجارتی حجم، سخت تجارتی مالیاتی شرائط اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے ساتھ ساتھ قرض پر سود کے اخراجات پر دباؤ کا سبب بنتی ہے۔ پھر یہ حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ڈالر کی طاقت بڑھتی ہے، یہ عالمی اقتصادی سرگرمیوں پر ایک بوجھ بن جاتا ہے، جس سے دیگر کرنسیوں کو کمزور کرنے کے لیے دباؤ پڑتا ہے اور اس سے ڈالر کی طاقت کو مزید ہوا ملتی ہے۔ یہ نتیجہ معاشی سرگرمیوں پر مزید بوجھ پیدا کرتا ہے، کرنسی کو مزید کمزور کرتا ہے،اور خود اپنے آپ کو تقویت دینے والے ایک خوفناک چکر کو متحرک کردیتا ہے جہاں ایک منفی نتیجہ دوسرے کو متحرک کرتا ہے۔

 

لہٰذا، متنوع بنانے سے انہیں ڈالر کے اثرات سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے، اور اس کا انحصار متعدد دیگر عوامل پر ہوگا۔

 

لیکن کیا اس تنوع کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر مکمل طور پر اپنا غلبہ کھو دے گا؟

نہیں، ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ڈالر اب بھی غالب ہے، دوسری کرنسیوں کے استعمال میں اضافے نے اس کے غلبے میں زیادہ کمی نہیں کی ہے۔

 

"حیرت انگیز طور پر، ڈالر کے تناسب میں کمی پاؤنڈ سٹرلنگ، ین اور یورو یا دیگر دیرینہ ریزرو کرنسیوں کے تناسب میں اضافے کے ساتھ نہیں ہے…. بلکہ، ڈالر کی منتقلی دو سمتوں میں ہوئی ہے: ایک چوتھائی چینی Renminbi  (Yuan) میں، اور تین چوتھائی چھوٹے ممالک کی کرنسیوں میں جنہوں نے ریزرو کرنسیوں کے طور پر زیادہ محدود کردار ادا کیا ہے"۔ (ذرائع)

 

"یہ ایک مزید ٹوٹے ہوئے نظام کے آغاز کی طرف جا سکتا ہے جو بالآخر امریکہ کی مالی پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت کو ختم کر سکتا ہے… "آپ جتنے زیادہ ممالک کو ایسے متبادل تلاش کرنے پر مجبور کریں گے، تو دراصل آپ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں وہ ہے ان علاقوں میں اقتصادیات کے پیمانے اور تجربے کو وسعت دینا"۔ (WSJ)

 

لیکن جبکہ مرکزی بینکوں کے پاس ذخائر کے طور پر (پچھلے سال کے مقابلے میں)کم ڈالر رکھے ہوئے ہیں ، آئی ایم ایف نوٹ کرتا ہے کہ عالمی تجارت، بین الاقوامی قرضوں اور غیر بینک قرضوں میں ڈالر کے غالب کردار کی وجہ سے یہ عالمی منڈیوں میں اب بھی "ایک بڑا کردار" ادا کر رہا ہے،جو ابھی تک تجارت، بانڈ کے اجراء، اور بین الاقوامی قرضوں میں امریکہ کے حصے سے کہیں زیادہ ہے۔ (ذرائع)

 

"ڈالر کے غلبے میں کردار ادا کرنے والے عوامل میں اس کی مستحکم قدر، امریکی معیشت کا حجم، اور امریکہ کا جغرافیائی سیاسی وزن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، کسی بھی دوسرے ملک کے پاس اپنے قرضوں کے لیے امریکہ جیسی منڈی نہیں ہے، جو کہ تقریباً 180 کھرب ڈالر ہے۔ "امریکی سرکاری خزانے کو دنیا کے اولین ریزرو اثاثے کے طور پر دیکھنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر آپ کے پاس سرکاری خزانے  کی منڈی کے مقابلے کی منڈی نہیں ہے تو ڈالر کا مقابلہ کرنا مشکل ہے"۔ (CFR)

 

زرمبادلہ کے ذخائر کے تناسب میں کمی کے باوجود، ڈالر اب بھی دیگر تمام کرنسیوں کے مجموعے سے زیادہ ہے۔ Yuan عالمی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کا صرف 2.7 فیصد ہے۔ (WSJ)

 

صورت حال کی گہرائی کو سمجھنا ضروری ہے۔

یہ سچ ہے کہ ممالک متنوع بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ موجودہ نظام کی ایک ناگزیر حقیقت ہے جہاں ممالک اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مسلسل ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ لیکن صورت حال کو سمجھنے کے لیے، صرف معاشی اعدادوشمار، یا انفرادی سیاسی واقعات کو دیکھ لینا کافی نہیں۔ صورت حال کی گہری سمجھ حاصل کرنے کے لیے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نظام کیسے کام کرتا ہے اور ڈالر اس میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔

 

اگر صورتحال کا خالصتاً ایک مجموعی لاحاصل نظام کے طور پر جائزہ لیا جائے، جس میں ریاستوں کے مختلف ایجنڈے ہیں جو ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے چین اور دیگر ریاستیں جو اقدامات کر رہی ہیں، وہ امریکہ اور ڈالر سے آزادی کا باعث بن جائیں گے۔ لیکن جب صورتحال کو نظریاتی نقطہ نظر سے سمجھا جاتا ہے، ان ریاستوں کے ساتھ جو ایک مخصوص دائرہ کار میں اپنے مفادات کی پیروی کرتی ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا غلبہ برقرار رہے،تو صورتِ حال کا تجزیہ کچھ بدل جاتا ہے، خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح امریکہ نے ڈالر کو اس نظام میں شامل کیا جو سرمایہ دارانہ نظریے سے پھوٹا تھا۔

 

ڈالر کی بالادستی کا مقام ومرتبہ

1971 میں صدر نکسن نے ڈالر کو سونے سے الگ کر دیا۔ اس کے بعد سے، اہم اشیاء، جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر تیل ہے،ان کو سونے یا چاندی کی پشت پناہی دینے کی بجائے فیاٹ(fiat) ڈالرمیں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکہ نے ڈالر کی پوزیشن کو مضبوط کر لیا، جب اس نے سعودی عرب جیسے تیل پیدا کرنے والے ممالک سے معاہدہ کیا کہ وہ تیل صرف ڈالر میں فروخت کریں گے، جس کو 'پیٹرو ڈالر' کہا جاتا ہے۔ چنانچہ باقی دنیا نے ڈالر کو قبول کر لیا، کیونکہ انہیں تیل خریدنے کے لیے ڈالر کی ضرورت تھی۔

 

اس سے تجارت متاثر ہوتی ہے، کیونکہ برآمدات کرنے والے ممالک عالمی منڈی میں مقابلہ کرتے ہیں تاکہ ڈالر سے متعین شدہ غیر ملکی سرمائے اور قرض کی کی ادائیگی کے لیے، درآمدشدہ توانائی، خام مال اور سرمائے کے سامان کی ادائیگی، فکری املاک(intellectual property) کی فیسوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیسوں کی ادائیگی کے لیے درکار ڈالر حاصل کریں۔

 

اور دیگر کرنسیوں کو ڈالر کے ساتھ جوڑ کر، ڈالر ہر کرنسی کی تجارتی قدر کو اس کو جاری کرنے والی معیشت کی پیداواری صلاحیت سے براہ راست لاتعلق کرتا ہے تاکہ اسے ڈالر جاری کرنے والے مرکزی بینک کے پاس موجود ڈالر کے ذخائر کے حجم سے براہ راست منسلک کیا جا سکے۔

 

نتیجتاً، ڈالر کی بالادستی امریکہ کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کی دولت کو ان  فیاٹ ڈالروں پر مبنی کر کے بالواسطہ طور پر پوری عالمی معیشت کا مالک بن جائے ، جنہیں امریکہ اپنی مرضی سے تھوڑے سا مالی جرمانے کے ساتھ چھاپ سکتا ہے۔

 

ڈالر اس نظام کا صرف ایک حصہ ہے، جس میں امریکہ  کی عالمی بالادستی ہے۔

بیسویں صدی کے وسط میں، جب سابقہ سامراجی دور کا خاتمہ ہو رہا تھا اور عالمی جنگوں نے پوری دنیا میں تباہی مچائی تھی، امریکہ ایک غالب بالادست کے طور پر ابھرا اور اپنے ساتھ ایک نیا ورلڈ آرڈر لے کر آیا جو سرمایہ دارانہ نظریے پر مبنی تھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ باقی تمام دنیا اپنی وفاداریاں اس کے ساتھ جوڑ دے۔

 

انہوں نے متعدد اقدامات متعارف کروائے جن میں ڈالر کے غلبہ کی اجازت دے کر عالمی معیشت کو ٹھیک کرنے کی خواہش بھی شامل ہے، جیسا کہ دوسرے ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں کو ڈالر کے ساتھ منسلک کیا اور اپنی شرح مبادلہ کو برقرار رکھنے کے لیے ڈالر کو اپنے ذخائر میں رکھا۔ ڈالر اس نظام کی گہرائی میں پیوست ہو گیا، اور امریکہ کی گہری اور لچکدار مالیاتی منڈی، نسبتاً شفاف کارپوریٹ گورننس کے اصولوں اور ڈالر کے استحکام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کرنسی کا غلبہ برقرار ہے۔ (ذرائع)

 

لیکن یہ معاملہ ڈالر کے محض ایک کرنسی ، جسے ریاستیں آپس میں استعمال کرتی ہیں،اس کے طور پرموجود ہونے سے بہت آگے جاتا ہے اوریہاں سیاسی اور معاشی دائرے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

 

جب امریکہ عالمی جنگ کے بعد کے دور میں غالب طاقت کے طور پر ابھرا تو اس نے اپنی معاشی طاقت کو عالمی نظام کو دوبارہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے بین الاقوامی تنظیموں کا قیام کیا، نظام میں ڈالر کو شامل کیا، مختلف اتحاد قائم کیے، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ ریاستوں کے مفاد میں ہو کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے امریکی زاویے کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ جب امریکہ نے یہ ورلڈ آرڈر قائم کیا تو اس نے اسے دیگر طاقتور ممالک کے تعاون کے ساتھ کیا ، جن میں سے سب نے اپنی ریاست کی خودمختاری کا کچھ حصہ بین الاقوامی نظام کے لیے کم کرنے پر اتفاق کیا، اس فائدے کے بدلے میں جو وہ امریکہ کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق نظام کے اندر کام کرکے حاصل کریں گے۔

 

نتیجے کے طور پر، ریاستیں ایک مجموعی لاحاصل میں پھنس جانے کے باوجود اس نظام میں سرایت کیے ہوئے ہیں جس میں امریکہ غالب ہے اور امریکہ کو ہٹانے کے لیے انہیں ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہوگی جو اس موجودہ ورلڈ آرڈر میں اس کی جگہ لے سکے جو جلد ہونے والا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر ریاستوں کے پاس وہ طاقت یا قانونی حیثیت نہیں ہے جو اس وقت امریکہ کے پاس ہے،اور امریکہ کی جگہ ایک نئےبالادست کو مقبول ہونے کیلئے اسے دونوں کی ضرورت ہوگی ۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ڈالر غالب کرنسی کے طور پرموجود رہے گا، چاہے ریاستیں اس پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کرلیں۔ یہ خاص طور پر تب بھی درست ہے جب آپ اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ ہر کرنسی، بشمول چینی Yuan کے ، ڈالر سے ہی منسلک ہے۔

 

چین عالمی بالادست  کے مقام کا دعویدار نہیں ہے، اس لیے اس کی کرنسی ڈالر کی بالادستی کی جگہ نہیں لے گی۔

"واحد کرنسی جو طویل عرصے کیلئے امریکی ڈالر کی جگہ لے سکتی ہے وہ ہے Renminbi(Yuan)، لیکن یہ کردار ادا کرنے کے لیے، کرنسی کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے قابل ہونا ضروری ہے... ایک کرنسی مکمل طور پر قابلِ تبدیل ہو جاتی ہے جب اسے آزادانہ طور پر دیگر کرنسیوں کے ساتھ  تمام مقاصد کیلئے تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسے مالیاتی منڈیوں میں ، تجارت کیلئے یا عالمی زرمبادلہ کی منڈیوں میں۔ تاہم،Yuan صرف محدود مقاصد کے لیے قابل تبدیل ہے، جیسے کہ تجارت، جو عالمی معیشت پر چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باوجود اپنی رغبت کو محدود کرتا ہے"۔ (ماخذ: الجزیرہ)

 

لیکن کرنسی کے مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے، چین کا طویل المدتی مقصد امریکہ کی تباہی نہیں ہے،بلکہ یہ امریکہ کے بنائے ہوئے ورلڈ آرڈر میں اپنی آزادی کو بڑھانا ہے، تاکہ وہ امریکہ کی مداخلت کے بغیر اپنے قومی مفاد کو بروئے کار لا سکے۔ دونوں ممالک ایک ہی نظام میں کام کر رہے ہیں، اور معیشت نے انہیں ایک دوسرے پر منحصر کر دیا ہے۔

 

یہی وجہ ہے کہ موجودہ نظام اور اس کی کرنسی کا مکمل رد کرنا ضروری ہے۔

ڈالر پر انحصار میں کمی (de-dollarization) کے معاملے کی بحث سے ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ ایک بہت اہم وجہ موجود ہے کہ جب خلافت دوبارہ قائم ہو جائے گی تو ہم موجودہ کرنسیوں کو کیوں مسترد کر دیں گے۔

 

اس معاشی نظام کا حصہ ہونا  اور موجودہ فیاٹ کرنسیوں کو قبول کرنا ہمیں مکمل طور پر امریکہ جیسی دشمن ریاستوں پر منحصر کردیتا ہے۔ ڈالر کے ذریعے، وہ اس بات کو یقینی بنانے کے قابل ہیں کہ ہماری معیشت ان پر منحصر رہے اور یہ امریکہ کو (بلاواسطہ  اور بالواسطہ دونوں طرح)ہماری پالیسیوں  پر حکم چلانے کی اجازت دیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم ان کے تابع رہیں۔

 

اسلام میں ہمیں غیر ملکی ریاستوں کے تابع یا محتاج رہنے کی اجازت نہیں دیتا ہے، خصوصاً جب بات امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس جیسی دشمن ریاستوں کی ہو، جو خلافت کو مغلوب یا تباہ کرنا چاہیں گے۔ ہمیں ان کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، اگر ہم ایک دوسرے پر منحصرر ہیں گے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج موجود فیاٹ کرنسیوں کا استعمال ہمیں ان ریاستوں پر منحصر کر دے گا۔

 

اس طرح، خلافت میں، ہماری اپنی خود مختار کرنسی ہوگی، اور اسے کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

 

"ریاست کے لیے مخصوص کرنسی جاری کرنا مباح  میں آتا ہے۔  خلیفہ کے لئے جائز ہے کہ وہ ایک مخصوص کرنسی جاری کرے اور اگر وہ ایسا نہ بھی کرنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔ ۔۔  یوں مخصوص نقد کرنسی کا اجرا ریاست کے لئے مباح ہے واجب نہیں ہے۔  تاہم اگر کرنسی جاری نہ کرنے کے نتیجے میں ملکی معیشت کو نقصان ہونے کا خدشہ ہو یادوسری ریاستوں کی جانب سے معاشی یلغار کا خدشہ ہو ، اس وقت اس کا اجراء واجب ہوگا"۔

ہماری کرنسی کو کسی غیر ملکی کرنسی سے جوڑنا منع ہے کیونکہ " ایسا کرنے کے نتیجے میں ریاست اقتصادی میدان کے ہر پہلو میں کافر ریاست کے پنجوں میں پھنس جائے گی " (مسودہ آئین کا آرٹیکل 166)۔

 

یہ کرنسی سونے اور چاندی تک ہی محدود رہے گی، چاہے سکوں کی شکل میں ہو یا نہ ہو۔ ریاست کے لیے کرنسی کی کسی دوسری شکل کی اجازت نہیں ہے۔

 

"ریاست سونے یا چاندی کے متبادل کے طور پر سکے یا کاغذی کرنسی جاری کر سکتی ہے بشرطیکہ بیت المال کے پاس جاری کردہ سکے کی پشت پناہی کے لیے سونے اور چاندی کی مساوی مقدار موجود ہو"۔ اور ہمیں اسلامی ریاست کی سرزمین میں کسی دوسری کرنسی کے داخلے کی اجازت دینے کی اجازت نہیں ہے، اگر اس سے ہماری کرنسی، مالیات یا معیشت کو نقصان پہنچے…. "اس کا اطلاق ریاست کی کرنسی کی برآمد، اور غیر ملکی کرنسی کی درآمد اور برآمد پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح ریاست کے اندر لین دین پر لاگو ہوتا ہے"۔ (ریاستِ خلافت کے مسودہ آئین کا آرٹیکل 167)۔

 

اللہ نے مسلم دنیا کو اس کو ممکن بنانے کے لیے وسائل فراہم کیے ہیں۔ ہمارے پاس سونا بھی ہے اور ہمارے پاس چاندی بھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فی الحال ہمارا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور ہم آپس میں تقسیم شدہ ہیں، اس لیے مسلمانوں کی سرزمین کے ایک حصے کے وسائل باقی مسلم علاقوں کے مسلمانوں کی رسائی میں نہیں ہیں۔ یہ حقیقت اس وقت بدل جائے گی جب نبوت کے طریقے پر دوبارہ خلافت قائم ہو جائے گی، اگرچہ آج اس حقیقت کی تصویر کشی ہمارے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔

 

اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب خلافت آجائے گی تو حالات بدل جائیں گے اور کیوں اس سرمایہ دارانہ نظام میں، جو آج ہم پر حکومت کر رہا ہے، اسلامی قوانین کا اطلاق ممکن نہیں ۔

Last modified onجمعرات, 11 مئی 2023 20:17

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.