Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

  نفسانی خواہشات کا مقابلہ

 

ہم نے اکثر اپنے کانوں میں شیطان کی سرگوشیاں سُنی ہوں گی جب وہ ہمیں راہِ حق سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسی سرگوشیاں اور وسوسے  مثلاً  " صرف ایک بار..." ،" صرف ایک بار سے تو کُچھ نہیں ہوتا ..."، " تم ابھی بھی ایک اچھے انسان ہو..."، "اللہ بہت معاف کرنے والا (الغفورالرحیم) ہے"۔

 

ہم کتنی بار ایسے الفاظ سُن چکے ہیں ؟  چاہے وہ ہمارے دوستوں ، جاننے والوں، خاندان والوں  کی طرف سے ہوں یا پھرجیسے کسی نے ہمارے ذہن میں ڈال  دیا  ہو۔ کیا یہ صرف اتنی سادہ سی بات ہے یا پھرواقعی ایک بار ہے ؟  "صرف ایک جھوٹ"،"صرف ایک نظر"،"صرف ایک کلِک"،  " صرف ایک بار"۔ لاحولَ ولا قوۃ الا باللہ!

یہ تین  سادہ سے الفاظ "صرف ایک بار"، ہماری دُنیا  اُلٹ سکتے ہیں۔

 

یہ کہنا کہ :

"شاید  یہ کوئی اتنی بھی بڑی بات نہیں ہے، میرا مطلب ہے آؤ یار ...بس  صرف ایک نظر ، استغفراللہ"۔

"ایک زوردار تالی! یار  میرا مطلب ہے ہم کوئی ہاتھ تو نہیں پکڑ رہے"۔

 

"یار! بس ایک چھوٹا سا سفید جھُوٹ ہی تو ہے، اس سے اب تم جھوٹے تو نہیں بن جاؤ گے، لیکن یہ بہتر ہے کہ اُن کو کچھ پتا نہ چلے"۔

 

" ہائے دیکھو ! وہ شراب پی رہا ہے  ...لیکن اُسے معلوم توہے ہی کہ یہ حرام ہے، لیکن مُجھے اس سے  کیا، میں کسی کے معاملے میں کیوں پڑوں"۔

 

"دیکھو میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں ،  ... کیا ہی  بہتر لگے گا کہ  بغیر حجا ب کے ہی چلی جاؤں!"۔

"ایک معمولی سی سرگوشی  کی خیر ہے،یہ کسی کو  نقصان نہیں پہنچاتی"۔

"کوئی بھی گھر پر نہیں ہے، کسی کو پتہ بھی نہ چلے گا، بس ایک کلِک ہی تو دبانا ہے"۔

"وہ صبر کر لیں گے! فکر کی بات نہیں،  مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اُنہیں کیسے کنٹرول کرنا ہے!"۔

خیالات ... بہانے... بہلاوے ... وسوسے ... لالچ !

 

آج کل کے دَور اور زمانے میں وہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بہت سادہ اور آسان لگتی ہیں  جو ہم اپنے زمانے میں شاید کبھی سوچ بھی سکتے تھے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان ہماری سوچ سے زیادہ خطائیں کررہے ہیں اور یقیناً   جو ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ سوچ کہ جو ہم کر رہے ہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے، یا اس کا ہم پر یا کسی دوسرے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یا اس کا ہم پر پہلے ہی کوئی اثر نہیں پڑ رہا تو اب کیا پڑے گا، اور یہ سوچنا کہ اللہ تو الغفور الرحیم ہے۔

 

غور کریں، جس حقیقت کی طرف ہم زیادہ توجہ  نہیں دیتے، وہ یہ ہے کہ وہ ایک نظر،وہ دانستہ ڈالی گئی ایک نظر چاہتے ہوئے یا  نہ چاہتے ہوئے ،ہم پر  کسی نہ کسی طرح اثر کرتی ہے ۔ کیونکہ وہ دانستہ نظر ، شیطان کے لئے  ہمارے نفس  کا دروازہ  کھول دیتی ہے۔ یہ ہمیں ایک درجہ نیچے لے جاتی ہے اوراگلی بار جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ شیطان کے لئے قَدرے آسان ہوتا ہےاور اس سے اگلی نگاہ مزید آسان اور پھر ایک اورنگاہ، اور یوں  یہ سلسلہ چلتاہی  رہتا ہے۔ وہ معمولی سی اُچٹتی ہوئی نگاہ ہمیں اندر سے مَیلا کردیتی ہے  اور ہمارے خالص اور سچے دل پر ایک  کالا دھبّہ چھوڑ جاتی ہے۔

 

ہاں بے شک، اللہ سبحانہ وتعالیٰ الغفورالرحیم ہیں ، لیکن وہ شدیدالعقاب بھی ہیں، یعنی سزا دینے میں بہت سخت۔ صحابۂ کرام ؓسے جنت کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود  بھی ان کی  نیتوں اور  اعمال کو پرکھا گیا ۔ ہم آج جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے لئے جانچنے کا معیار نہیں ہونا چاہئے کہ جس سے ہم اعمال کا موازنہ کرسکیں، کیونکہ چھوٹے سے چھوٹا عمل  بھی ہمیں جنت میں لے جاسکتاہے اور بالکل اسی طرح ،   یقیناً چھوٹے سے چھوٹا عمل  جہنم کی آگ میں بھی لے جا سکتاہے  !

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہت رحیم ہیں اور ان شاءاللہ ہم پر رحم کریں گے ... رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

« سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ إِمَامٌ عَدْلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ»

" سات قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اللہ اپنے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہو گا: عادل حکمران، وہ نوجوان جس کی پرورش اللہ عزوجل کی عبادت میں کی گئی، وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے، وہ دو لوگ جو محض اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتےہیں، اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور اللہ کی خاطر جدا ہوتے ہیں، وہ شخص جسے اعلیٰ خاندان کی خوبصورت عورت (زنا کی) دعوت دے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو مخفی طور پر یوں صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہ چلے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے اور وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں میں آنسو بَھر جائیں"۔

 

جب ہم کوئی نافرمانی کرتے ہیں تو غور کریں کہ ہم اُس پروردگار ِعظیم  کی نافرمانی کررہے ہیں جو اگر پکڑکرے تو اپنے بندوں کے کسی  "چھوٹے" سے گناہ پر بھی سزا دے سکتا ہے اور اگر مغفرت کردے تو بڑے بڑے کبیرہ گُناہ بھی معاف کردیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے دِلوں کے احوال جانتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ہمارے اعمال کوبھی دیکھتے ہیں،  جن اعمال  کو اداکرنے کا حُکم دیا ہے اور جن اعمال سے منع فرمایاہے اور وہ منع کیے گئے اعمال اگر سرزد ہو جائیں تو ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے رحم وکرم سے دور لے جاتے ہیں۔  ‏‏‏

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 

﴿ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا ۥۖ وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ ﴾

" جب تم اس کو اپنی زبانوں پر لینے لگے اور اپنے منہ سے بولنے لگے، جس چیز کی تم کو خبر نہیں، اور تم اس کو ہلکی بات سمجھتے ہو، اور یہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات ہے"(النور : 15)۔

 

کبھی کبھار کچھ غلط یا نقصان دہ بات پر ہم   اس لیے   خاموش ہو جاتے ہیں کہ ہم اعمال کو بہت چھوٹا اور غیر اہم سمجھتے ہیں۔  جب ہرکسی کو حق ہے کہ وہ جو جی چاہے کرے، تو ہم کون ہوتے ہیں اس سے پوچھنے  والے ؟  یہ کیسی نام نہاد آزادی ہے؟۔یہ تو صاف واضح ہے، ہم چاہے ان سے اتفاق نہ بھی کرتے ہوں لیکن ہم پھر بھی خاموش رہتے ہیںیا پھر ہم یہ سوچتے ہوئے  ان کے حق میں ایسے الفاظ  کہہ دیتے  ہیں کہ جیسے وہ  معمولی اورغیر اہم سے الفاظ ہیں   ، یہ سوچتے ہوئے کہ اللہ دِلوں کا حال جانتا ہے  اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم اُس وقت کتنے دباؤ  میں تھے۔ وہ یقیناً ہمیں معاف کردے گا ، یہ کہہ کر ہم اپنے آپ کو تسلی دے دیتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے طائف  میں بہت نفرت  اور سخت تکلیف تک کا سامنا کیا حتیٰ کہ آپ ﷺپر پتھر بھی برسائے گئے، رسول اللہ ﷺ  وہاں کھڑے رہے اور کوئی بھی آپ ﷺ  کے ساتھ نہ تھا۔ ہمارے پیارے نبی  ، محمد ﷺ بہت ثابت قدم  تھے، اس یقین کے ساتھ ،کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ  آپ ﷺکے ساتھ ہیں  اور آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے اور آپ ﷺ کو مضبوط کر دیں گے۔

 

اللہ سبحانہ وتعالی کا قول ہے :

 

﴿ أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

" بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اسکی) تکلیف کو دور کرتا ہے، اور تم کو زمین پر نائب کرتا ہے؛ اب کوئی ہے حاکم اللہ کے ساتھ؟ تم سوچ کم کرتےہو"(النمل : 62)۔

 

ہرنفسانی خواہش، ہر آزمائش کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں حل فراہم کیاہے کہ ہم اپنے آپ کو مضبوط کریں اور پہلی بارمیں ہی اس کا شکار ہونے سے محفوظ ہو جائیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ ہماری نگاہیں نیچی رکھنے میں ہماری مدد ہوسکے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں شراب کو ہاتھ میں پکڑنے اور چھُو کر دیکھنے سے بھی منع کیا یا ایسی کسی میز پر بیٹھنے سے بھی جس پر شراب پی جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے دوست بنانے میں بھی محتاط رہنے کا حکم دیا۔  ایک وقت ایسا آئے گا جب اسلام پر چلنا ایسے ہو گا جیسے ہاتھ میں گرم انگارہ پکڑنا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

 

« يأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلَى دِينِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِ »

" لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ان میں کسی کیلئے اپنے دین پر کاربند رہنا ایسا ہو گا کہ گویا اس نے دہکتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں پکڑ رکھا ہو"

 

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ سچی توبہ قبول کریں گے اور ہمیشہ رحم کا معاملہ کریں گےاور جب ہم اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہیں اور اپنے رب  سے سچے خلوص کے ساتھ رحم کی  التجا  کریں ۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ آج کا دور اور زمانہ  آسان  نہیں ہے۔ یہی مؤمنین کی دُنیا ہے ! ہمیں اپنی آخری سانس تک بھی آزمائے جانے کے لئے تیاررہنا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اللہ کی رسّی کومضبوطی سے پکڑ کر رکھیں اور اُسی پر بھروسہ رکھیں یا  اپنی خواہشات وآرزوؤں  کے آگے  گِر جائیں اور ان کے نتائج ہمیں نِگل جائیں جن کا ہم اس دُنیا اور اگلے جہان میں سامنا کریں گے۔

 

اس اُمت میں قیامت تک نیکی وخیر رہے گا! اس اُمت میں ایسے مردوعورت آخر تک موجود رہیں گے جو اپنے رسول محمد ﷺ سے مخلص ووفادار ہوں گے۔نوجوان مرد اور عورتیں جو اسلام کی دعوت کا بار اپنے کاندھوں اور پیٹھ پر لیے  فخر سے اسے پُوری دُنیا تک لے کر جائیں گے!اور اپنے  اس پیغام پر فخر کریں گے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرمانبردار بندے بننے کا فخر!۔ یہ نوجوان کبھی  کسی کے آگے نہیں جھکیں گے، سوائے نماز ادا کرنے کیلئے ۔  وہ  کبھی اس دُنیا کی چاہت میں  گرفتار نہیں ہوں گے اور اگر وہ پھِسل بھی گئے تو وہ واپس لوٹیں گے اور چٹانوں کو بھی اپنے قدموں میں جھُکا لیں گے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ اس  دنیا میں صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کرنے کے لئے  اور اُس خالق کی  ہمیشہ رہنے والی جنت کو پانے کے لیے آئے   ہیں جس کی وہ اس عارضی   دنیا میں موجود چاہتوں سے کہیں زیادہ چاہت رکھتے ہیں ! وہ ایک ایسی نسل ہوں گے  جنہیں ان مشکل حالات میں اپنے چاروں طرف پھیلی ہر طرح کی بُرائی کے خلاف  ہمت و حوصلہ عطا کیا جائے گا۔ ایک ایسی نسل جونیکی کی ترغیب دے گی اور برائی سے منع کرے گی۔ ایک ایسی نسل جِسے  سیدنا ایوبؑ  کا صبر اور سیدنا یوسف ؑ کی نفسانی مضبوطی عطا کی جائے گی ۔

 

ایک ایسی نسل جس کا ایک مقصد ہوگا

ہاں یہ درست ہے کہ ہم مادی و نفسانی خواہشات میں گھِرسکتے ہیں ... لیکن ہمیں یاد رکھنا ہے کہ ہم  ان عظیم اور زبردست، مضبوط ارادے والے  ، صابر مؤمنین کے ورثأ  تھے اور ہیں ،جنہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ  نے اسلام کے خلاف ہونے والے تمام تر اقدامات و صعوبتوں کے باوجود اس قدر حوصلہ دیا تھا کہ وہ اسلام کی دعوت کو تمام جہانِ عالم تک لے جاسکیں ۔  تو یہاں پر سوال یہ ہے کہ ... کیا آپ بھی دعوت کے ان علمبرداروں میں ہوں گے؟   

 

Last modified onپیر, 09 جنوری 2023 06:53

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.