Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

صیہونیوں کی غیر انسانی اور وحشیانہ نفرت کی کوئی حد نہیں 

(ترجمہ)

 

خبر:

 

 گزشتہ جمعہ کے دن 5 اگست 2022 سے یہودی وجود نے ایک بار پھر غزہ کی پٹی پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں دسیوں لوگ مارے گئے جن میں کم ازکم  15 بچے بھی شامل ہیں، اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ساتھ ہی  سیکڑوں یہودی آباد کاروں نے 7 اگست کو قابض فوج کی حفاظت میں اسلام اور پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا۔

 

تبصر:

 

ایک بار پھر صیہونیوں نے پوری دنیا کے سامنے یہ واضح کردیا کہ فلسطین کے مسلمانوں سے ان کے بغض کی کوئی حد نہیں۔ بچوں کے یہ قاتل  کسی بھی مقدس چیز کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، کیونکہ یہ جانتے ہیں  کہ قاہرہ، عمان، انقرہ، ریاض اور تہران میں قیادت کے مراکز ایسے خائن اور کمزور لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جن کو ان بے گناہوں کے خون کی کوئی پرواہ نہیں۔ مغرب کے ان غلاموں کو مسجد اقصیٰ کی  کوئی فکر نہیں، یہ صرف اپنے استعماری آقاوں کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ واقعات کی روشنی میں غزہ اور فلسطین میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنے کے خوہشمندوں کو مندرجہ ذیل باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے:

 

اپنی ذمہ داری سے بھاگنے اور سازش کرنے پر خائن حکمرانوں کا احتساب کریں۔ یہ حکمران ہی یہود کی حقیقی فوج ہیں، اگر ان کی حمایت  نہ ہوتی تو  یہودی وجود زیاد دیر قائم نہ رہتا۔ یہ حکمران ایک طرف مسلمانوں کے بچوں کے خون بہائے جانے پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں، اور دوسری طرف  یہ افواج کو اپنے مغربی استعماری آقا کے مفاد میں  یمن، شام اور دوسرے  ممالک میں مسلمانوں کو قتل کرنے کےلیے بھیجتے ہیں۔ ان حکمرانوں کو مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کا شرعی حق ہی نہیں، بلکہ اسلام کے احکام کے مطابق ان کی مذمت اور ان کا احتساب فرض ہے۔

 

یہودی وجود کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور فلسطین ان کے حوالے کرنے کی ہر سازش کو مسترد کرنا۔یہودی وجود کے ساتھ  تعلقات استوار کرنےکےلیے کسی بھی قسم کے مذاکرات اس کواپنا وجود برقرار رکھنے کا جواز فراہم کرنے اور اسلامی سرزمین کے دل، فلسطین، کو  کاٹنے کے استعماری منصوبے  کے سامنے جھکنے کی کوشش ہے۔  حالیہ برسوں میں  کئی خائن عرب قومی ریاستوں کی جانب سے  یہودی وجود کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی نئی کوششیں کی گئیں۔ جبکہ امت مسلمہ نے عمومی طور پر ان کوششوں کو مسترد کیا،  بعض علماء نے ،جو اپنے آپ کو داعی گمان کرتے ہیں ، تعلقات قائم کرنے کی اس کوشش  میں شریک ہوئے۔  اس قسم کے رویے کو خیانت قرار دینا  فرض ہے۔  اس دباؤ اور جھوٹ کے سامنے جھکنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے،  ہمیں اپنے اسلامی عقیدے  کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے جواسلامی سرزمین کی ایک انچ سے بھی دستبردار ہونے کو حرام قرار دیتاہے، چاہے یہ فلسطین کی مبارک سرزمین ہو یا کوئی بھی اور سرزمین۔  1967 سے پہلے کی سرحد یا بعد کی سرحد کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کے قیام کا مطلب  اسلامی سرزمین پر قبضے کا اعتراف اور اس کو جواز دینے کے مترادف ہے۔

 

مغربی مداخلت کو مسترد کریں، چاہے بڑے استعماری ممالک ہوں، خاص طور پر امریکہ، جس نے ایک بار پھر یہود کی جانب سے فلسطین پر قبضے اور مسلمانوں کے خلاف  یہود کے جرائم کی حمایت کی ہے، یا  نام نہاد"عالمی برادری"، اس کی تنظیموں، جیسے اقوام متحدہ،  جو وہی ادارہ ہے جس کے ذریعے  سب سے پہلےیہودی وجود کو قائم کیا گیا۔ امت مسلمہ کے مسائل ، جن میں فلسطین کا مسئلہ بھی ہے، کےمغربی حل  کا ہدف  موجودہ  ناگفتہ بہ صورت حال کو جوں کا توں رکھنا اور امت کو  کمزوری اور مغربی کی غلامی کی حالت میں رکھنا ہے۔ یہود کی جانب سے فلسطین پر قبضہ  بنیادی طور پر  امت مسلمہ کے خلاف مغرب کی استعماری جنگ کا اگلا محاذ ہے۔ اسی لیے کسی بھی قسم کی مغربی مداخلت  اسلامی  نقطہ نظر سے ناقابل قبول ہے، تمام تجربات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مسلم علاقوں میں مغربی مداخلت مزید خون خرابہ اور ذلت کے سوا کچھ نہیں دیتا، جبکہ امت  اللہ کی بجائے مغرب کے سامنے جھکنے سے انکار کرتی ہے۔

 

مسلمانوں کی افواج سے حرکت میں آنے کا مطالبہ کرنا ۔   مظاہروں، مذمتوں اور بائیکاٹ سے خونخوار قبضے کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔  اگر چہ یہ سب کئی مسلمان  اچھی نیت سے کرتے ہیں، تاہم  حقیقت یہ  ہے کہ  عسکری قبضےکو ختم کرنے کےلیے عسکری حل ضروری ہے۔  مسلم افواج کو امت   سے دور کرنے اور اپنے فرض کی ادائیگی سے روکنے کےلیے اکثر  ناقدین کو ہم یہ سوال کرتے ہوئے سنتے ہیں کہ مسلم افراد کیوں نہیں جاتے ہیں جو تربیت یافتہ نہیں ، ان کے پاس اسلحہ نہیں جن کے پاس جسمانی قوت اور قدرت نہیں، کہ یہ لوگ فلسطین اور دوسری جگہوں میں قتال کیوں نہیں کرتے؟ ایسے وقت میں افواج ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیرکوں بیٹھے ہیں، حلانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی افواج اس امت کی وہ قوت ہیں جو اس یہودی وجود کو جڑ سے اکھاڑنے کی عملی قدرت رکھتی ہیں۔ ہمیں اپنے محبوب نبی ﷺ کی سنت سے یہ معلوم ہے کہ  جب مسلما ن  کے پاس منکر کو ہاتھ سے روکنے کی قدرت نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ اس منکر کو زبان سے روکنے کی کوشش کرے ۔ محرم کے مہینے کے ان ایام میں  جن میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں اور فرعون کے خلاف موسی علیہ السلام کی کامیابی پر  اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، ہمیں اللہ کی مدد اور امت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ کے وعدے اور عنقریب آنے والی مدد  پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیے جس کے بعد اسلام دشمنوں کے سامنے بھاگنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا!

 

ریاست خلافت کو قائم کرو اور فلسطین کو آزاد کراو، اوراسی طرح تمام مقبوضہ اسلامی علاقوں کو بھی آزاد کراؤ۔ خلافت راشدہ  کے علاوہ کوئی دوسرا  ایسا سیاسی ڈھانچہ ہے ہی نہیں جو مسلم علاقوں کو دشمنوں سے آزاد کرائے،  جو دنیا کو سرمایہ داریت کی تاریکیوں میں ڈوبنے اور استعمار کی جانب سے استحصال کے بعد ایک بار پھر اسلام کے نور سے منور کرے۔ اللہ کی رضا کےلیے خلافت کے قیام کی اس دعوت کے عالمبردار بن جاؤ، اللہ تمہیں تمہاری محنت کا مبارک پھل دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ۔

 

یہ مضمون حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے الیاس مرابط نے لکھا

Last modified onمنگل, 16 اگست 2022 21:40

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.