Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

دولت کی عالمی غیر منصفانہ تقسیم صرف اُسی اقتصادی آرڈر سے ہی ختم ہو گی جو خلافت نافذ کرے گی


                   موجودہ سرمایہ دارانہ ورلڈ آرڈر کے تحت، دولت کا بے پناہ ارتکاز اب ناقابلِ برداشت سطح پر پہنچ چکا ہے۔ پیرس کی عالمی عدم مساوات کی لیب سے شائع کردہ  "عالمی عدم مساوات کی رپورٹ 2022" میں بیان  کیا گیا ہے کہ " دنیا کی کُل عالمی دولت میں نچلے50%لوگوں کا حصہ2% ہے---جبکہ اُوپر کے10% کا حصہ76%ہے"۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ "1995 سے 2021 کےعرصہ میں، اوپر کے1% نے عالمی دولت میں اضافے کا 38% اکٹھا کرلیا جبکہ نچلے50% لوگ پریشان کن حد تک صرف 2% ہی لے پائے۔ اس عرصہ کے دوران، عالمی سطح پر اوپر کے 0.1% امیر ترین لوگوں کا عالمی دولت کی مالکیت میں حصہ7% سے بڑھ کر11%ہو گیا اور عالمی ارب پتی لوگوں کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوا"۔ مزید برآں، 2020 میں ارب پتی لوگوں کی دولت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا جبکہ 10 کروڑ افراد انتہائی غربت میں ڈُوب گئے۔

 

سرمایہ دارانہ نظام کے تحت دولت کا ارتکاز حادثاتی نہیں بلکہ یہ اس کی فطرتی ساخت سے ہی ہے۔ سرمایہ داریت کے قوانین خود ہی دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتے ہیں۔ سود قرض دہندگان کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتا ہے، جب کہ قرضہ داروں پر اضافی بوجھ ڈالتا ہے۔ فریکشنل ریزرو بینکنگ نے سود کی دولت کے ارتکاز کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا۔ اسٹاک شیئر کمپنی کے ڈھانچے اپنے  بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہی دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتے ہیں، کیونکہ وہ کثیر سرمایہ کاری کی صنعتوں، جیسے مواصلات، گاڑیوں کی تیاری اور نقل و حمل کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ توانائی اور معدنیات کی نجکاری اس کے نجی مالکان میں دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتی ہے، جب کہ عوام  سستی سہولیات سے محروم رہ جاتی ہے۔ امیر اور غریب پر یکساں نوعیت کے ٹیکس امیروں کے مقابلے میں غریبوں پر ایک بڑا متناسب بوجھ ہے، کیونکہ یہ سب لوگوں  پر مالی قابلیت، غربت یا قرض پر غور کیے بغیر لاگو ہوتا ہے۔ کاغذی کرنسی سرکاری قرضوں کی مالی اعانت کے لیے نوٹ چھاپنے کی اجازت دیتی ہے  ،تاکہ  امیروں کو بیل آؤٹ فراہم کیا جائے،اور اس کی قیمت   غریبوں کی جیبوں میں موجود کرنسی کی قدر کو کم کرنے کی شکل میں دینی پڑتی ہے ۔

 

صرف اسلام ہی اجیرن کر دینے والے دولت کے ارتکاز کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ اسلام سُود سے سراسر منع کرتا ہے جبکہ بیت المال کو وہ  مال قرض  پر دینے کی اجازت نہیں جو خود اس کے پاس موجود نہیں۔ اسلامی کمپنیوں کی ساخت فطری طور پر اس  سرمائے کی مقدار کو محدود کر دیتے ہیں جو کہ افرادجمع کر سکتے ہیں ۔  جس سے معیشت کے کثیر آمدنی پیدا کرنے والے شعبے، جن میں کثیر سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے،ان  شعبوں پر ریاست حاوی  ہوتی ہے۔ اسلام توانائی اور معدنیات کی نجی یا ریاستی، دونوں طرح کی ملکیت کو روکتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان سے حاصل ہونے والے محاصل اورآمدنی ، ریاست کی نگرانی میں عوام کی ضروریات پر خرچ ہوں اور اسلام  غریب اور مقروض  پر ٹیکس عائد کرنے سے منع کرتا ہے ،  انہیں زکوٰۃ اور دیگر محصولات سے ان کا حق دیتا ہے، جب کہ مالی طور پر استطاعت رکھنے والوں پر ٹیکس لگاتا ہے، جیسے کہ زرعی زمین کے مالکان سے خراج  اور تاجروں اور صنعت کاروں کے تجارتی مال پر زکوٰۃ۔ اور اسلام سونے اور چاندی کی مضبوط بنیادوں پر اپنی کرنسی قائم  کرتا ہے جو کرنسی کی مستحکم قدر کو یقینی بناتے ہوئے، ذمہ دارانہ حکومتی اخراجات اور محصولات کی وصولی کو یقینی بناتی  ہے اور عمومی مہنگائی کی لعنت کو ختم کرتی ہے۔

 

یہ سرمایہ دارانہ نظام یوں ہی  اپنے خاتمے کے گرد لنگڑاتا رہے گا ، مگر ختم نہیں ہو گا، یہاں تک کہ امت اٹھ کھڑی ہو اور اسے خلافت کے ذریعے زمیں بوس کر دے۔ بے شک صرف نبوت کے نقشِ قدم پر قائم ہونے والی خلافت ہی دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گی، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، الغنی، الوہاب، الرزاق چاہتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے،

 

 

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ

 

"تا کہ وہ تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی نہ گردش کرتی رہے "  (الحشر59:7)

 

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا

 

مصعب عمیر۔  ولایہ پاکستان

 

Last modified onپیر, 10 جنوری 2022 02:15

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.