Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    2 من جمادى الأولى 1442هـ شمارہ نمبر: 1442 / 34
عیسوی تاریخ     جمعہ, 18 دسمبر 2020 م

پریس ریلیز

ریگولیٹری کیپچر (Regulatory Capture) کی بنیادی وجہ جمہوریت ہے جس کے ذریعے عوامی مفاد کو سرمایہ داروں کے مفاد پر قربان کردیا جاتا ہے

 

14 دسمبر 2020 کو وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے پندرہ رکنی تحقیقاتی کمیشن نے جون 2020 میں پیدا ہونے والے تیل کے بحران پر اپنی 163 صفحات پر مبنی رپورٹ پیش کی اور اس شعبے کو ریگولیٹ (منظم) کرنے کی ذمہ دار تنظیم اوگرا(آئیل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کو اس بحران کا بنیادی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کو ختم کرنے کی سفارش کی۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئل سیکٹر میں وسیع پیمانے پر کارروائیاں قانون و قواعد کے منافی بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے خلا میں چل رہیں ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اوگرا کے امور کو دیکھ کر کمیشن تمام ریگولیٹری اداروں (نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ، مسابقتی کمیشن آف پاکستان اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان) کے پرفارمنس آڈٹ کی "سفارش کرنے پر مجبور"ہے۔ اس سے قبل سیکیوریٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے سابق سربراہ کی سربراہی میں قائم کمیشن نے بجلی کے شعبے میں پچھلی حکومتوں اور ریگولیٹری اتھارٹیوں کی ملی بھگت سے عوام کے کھربوں روپوں کی لوٹ مار کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا تھا، جو آج بھی دھڑلے سے جاری و ساری ہے۔

 

تیل کے بحران پر قائم کمیشن کی رپورٹ نے جس مسئلے کی نشاندہی کی ہے اسے معاشی زبان میں ریگولیٹری کیپچر (Regulatory Capture) کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت کی ناکامی کی ایک شکل ہے جس میں کسی شعبے کی تنظیم کیلئے قائم ریگولیٹری اتھارٹی، جو عوامی مفادات کی نگہبانی کی ذمہ دار ہوتی ہے، وہی اتھارٹی بذاتِ خود نجی سیکٹر کے زیر اثر آ جاتی ہے ، یوں عوامی مفاد کو نجی شعبے کے مفاد پر قربان کردیا جاتا ہے۔ ریگولیٹری کیپچر کا مسئلہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جہاں سیاسی نظام جمہوریت کمزور ہے، یا قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے، بلکہ یہ مسئلہ ترقی یافتہ ممالک امریکا و یورپ سے درآمد شدہ ہے جہاں جمہوریت مستحکم ہے اور قانون کی بالادستی کا بظاہر کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اس مسئلے کی جڑیں بذات خود سرمایہ داریت اور جمہوریت میں پیوست ہیں۔ اس کی حالیہ مثال امریکا میں فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کی ہے جس نے 2005 میں طیاروں کی حفاظتی سرٹیفیکٹ جاری کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں سے اتار کر طیارے بنانے والی کمپنیوں پر ڈال دی اگر وہ کچھ مخصوص شرائط پوری کردیں۔ اور پھر جب 2018 اور 2019 کے دوران محض چھ مہینے کے وقفے سے بوئنگ کا جدید ترین طیارہ 737 میکس 8 کےدو جہاز سفر کے دوران تباہ ہوئے ، اور اس کے بعد بھی ایف اے اے نےاس وقت تک بوئنگ کےیہ طیارےگراونڈ نہیں کئے جب تک بوئنگ نے خود ان طیاروں کو گراونڈ کرنے کی درخواست نہیں کی۔

 

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جمہوریت عوامی مفاد کا تحفظ نہیں کرتی اور نہ ہی کبھی کرسکتی ہے کیونکہ جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ جو طبقہ طاقتور ہوگا ، جیسے کہ سرمایہ دار یا اشرافیہ یا فوجی و سیاسی قیادتیں، وہ اپنی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر حکمرانوں اور قانون سازوں پر آسانی سے اثر انداز ہوکر اپنی مرضی کے ریگولیٹری قوانین عوامی مفاد کی قربانی کی قیمت پر بنوا لیتے ہیں۔ لہٰذا اوگرا یا اس جیسی اتھارٹیوں کا آڈٹ کرانے یا انہیں ختم کر کے ان کی جگہ دوسری ایجنسی یا اتھارٹی قائم کرنے سے ریگولیٹری کیپچر کا مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔ مسئلہ جمہوریت اور انسانی حاکمیت ہے لہٰذا جمہوریت کا خاتمہ اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام اس مسئلے کا مستقل حل ہے۔ خلافت میں ویسے بھی ہیوی انڈسٹری کا وسیع حصہ، توانائی، اور انفراسٹرکچر پروجیکٹس ریاست کے انتظام میں ہوتے ہیں، لہٰذا ریگولیٹری کیپچر کا مسئلہ سرے سے ہی ختم ہو جا تا ہے۔ دیگر شعبوں کے لیے بھی خلافت میں بنائی گئی ریگولیٹری اتھارٹیز پر نجی شعبہ اثر انداز نہیں ہوسکے گا کیونکہ خلافت میں کسی کے پاس قانون سازی کا اختیار ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح جمہوریت نہیں بلکہ صرف خلافت ہی حقیقی معنوں میں عوامی مفادات کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرتی ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے

؛﴿ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيۡنَ ٱلۡأَغۡنِيَآءِ مِنكُمۡۚ﴾

"تاکہ مال تمہارے دولت مندوں ہی کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتا رہے"(سورہ الحشر:7)

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.