Logo
Print this page

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    14 من محرم 1442هـ شمارہ نمبر: 07 / 1442
عیسوی تاریخ     بدھ, 02 ستمبر 2020 م

پریس ریلیز

کراچی جس آگ میں جل رہا ہے اسے صرف خلافت بجھا سکتی ہے،انتشار پھیلانی والی ناکام وفاقی پارلیمانی جمہوریت یا صدارتی ریپبلک نہیں

 

کراچی میں موسلادھار بارش کو ہوئے کئی دن گزر گئے ہیں لیکن اس کے باوجود کئی علاقوں میں بارش اور ابلتے گٹروں کا پانی کھڑا ہے، بجلی کی فراہمی مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکی ہے جبکہ عدم توجہی کی وجہ سے کراچی کاپہلے سے ہی خستہ انفراسٹرکچر مزید خستہ ہوگیا ہے۔ شدید عوامی ردعمل سے پریشان ہو کر باجوہ-عمران حکومت نے دو سال کے خواب خرگوش سے جاگ کر اعلان کیا کہ اب وہ "کراچی تبدیلی پلان" پر کام کررہی ہے۔ تاہم کراچی کے دہائیوں پر محیط ، مختلف النوع، پیچیدہ مسائل کو ناکام اور انتشار پر مبنی وفاقی جمہوری ڈھانچے میں بے اصول (Pragmatic) ردعمل پر مبنی پیوند کاری کے ذریعے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا، چاہے اٹھارویں ترمیم واپس لے لی جائے، صدارتی نظام نافذ کردیا جائے، کراچی کو علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے یا اس کو آرمی کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔

 

وفاقی ریاست کا  ڈھانچہ معاشرے میں منظم طریقے سے طبقات اور گروہ پیدا کرتا ہے، اور ریاست کو صوبائی اور شہری سطح پر چھوٹے چھوٹے سیاسی معاشرتی گروہوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اس کے بعد یہ ریاستی ڈھانچہ مدمقابل گروہوں کو ایسے حکومتی ڈھانچے تک رسائی فراہم کرتا ہے جو کہ تین سطحوں پر مشتمل ہے؛ وفاقی، صوبائی اور شہری۔ مختلف سطحوں پر مختلف جماعتوں کی حکمرانی کی وجہ سے وفاقی جمہوریت ان مختلف حکمران جماعتوں  کے درمیان طا قت و اختیارات کے حصول کے لیے ایک تباہ کن کشمکش پیدا کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کے امور بدترین پیمانے پر نظر انداز ہونے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ احتساب کے نام پر پارلیمانی اور صدارتی، دونوں قسموں کی جمہوریت، اختیارات کو حکومت کے مختلف سطحوں ؛ وزارتوں ، اداروں اور حکومت کے مختلف سطحوں کے درمیان، تقسیم کردیتی ہے جس کے نتیجے میں مشترکہ حکمرانی سامنے آتی ہے ۔  اختیارات کی اس تقسیمکے باعث نہ صرف حکومتی نظام افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ کوئی احتساب بھی نہیں ہوپاتا، جس کا مشاہدہ کراچی کے حالیہ بحران میں کیا جارہا ہے۔ جب کراچی ڈوب رہا ہے تو وفاقی، صوبائی اور شہری سطح پر ہر سرکاری عہدیدار اپنی ذمہ داری دوسرے کے کندھے پر ڈال کر خود ایک طرف ہورہا ہے، اور اس پوری تباہی کا کوئی بھی ذمہ دار اور جواب دہ نہیں۔  اس پر مستزاد جمہوریت عوامی نمائندوں کو اپنے مرضی اور خواہشات کے مطابق  قوانین بنانے کا اختیار دیتی ہےجس کے باعث ان 'نمائندوں' کے پاس اپنے مفادات کے حصول کے لیے قوانین بنانے کا راستہ کھل جاتا ہےجبکہ عوام کے امور کھڈے لائن لگ جاتے ہیں۔  

 

جمہوریت کے برخلاف اسلام کی حکمرانی کا نظام یعنی خلافت، خلیفہ کو صوبوں میں والیوں اور شہروں میں عاملین کے اعمال کا براہ راست ذمہ دار قرار دیتا ہے۔  خلیفہ کے پاس مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی شکایت پر  نااہل والی(گورنر) یا عامل (مئیر)کو فوری طور پر ہٹا کر ان کی جگہ   اہل لوگوں کو مقرر کرے۔  خلیفہ پورے معاشرے کو ایک کُل کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ ریاست کی صوبوں اور شہروں کی سطح کی تقسیم پورے معاشرے کو خلیفہ کی مرکزی  قیادت میں حکمرانی میں مدد مہیا کرتی ہے۔ اگرچہ خلافت میں حکمرانی مرکزیت (centralization) پر مبنی ہوتی ہے، تاہم ہنگامی حالات سے جلد نمٹنے کیلئے انتظامی ڈھانچہ عدم مرکزیت کےتحت کام کرتا ہے ۔ خلافت ریاست کے وسائل کو صوبوں اور شہروں میں ان کی جماعتی نمائندگی کے تناسب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتی بلکہ شریعت کے احکامات اور ان کی ضروریات کے مطابق فراہم کرتی ہے۔ خلافت میں خلیفہ ، والی اور عامل، سب کے سب قرآن و سنت کے احکام کے پابند ہوتے ہیں ۔ خلافت میں مرکزی مجلس امت، نہ ہی مجلس ولایہ قوانین بناتی ہیں، بلکہ وہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانوں کا احتساب کرتی ہیں۔  یقیناً یہ عظیم اسلامی تہذیب ہی تھی جس نے سمرقند، بخارا،غرناطہ، بغداد، قاہرہ، دمشق اور استنبول جیسے شہر بسائے جو دنیا میں ترقی و خوشحالی کی پہچان بن گئے۔ اور ان شاء اللہ ایک بار پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہی ہو گی جو آج کی دور میں مسلمانوں کے شہروں؛ کراچی، لاہور، کابل، تہران، سرینگر، ڈھاکہ، جکارتہ اور تیونس کو ترقی و خوشحالی کی پہچان بنا دے گی۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.