Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ

"میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی "کی تشریح سے متعلق سوال و جواب

 

سائل : عبد اللہ عمر ، افغانستان

 

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

            ہمارے شیخ مکرم ، اللہ آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے، میر انام عبد اللہ ہے، افغانستان سے ہوں، میرا سوال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

((ستنقسم امتی الیٰ ثلاثۃ و سبعین فرقۃ و کلھا فی النار ماعدا واحدا))

"میرے امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو گی، سب جہنم میں ہیں سوائے ایک کے"۔

براہ ِکرم اس حدیث کی تشریح کر دیں۔

 

جواب:  و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

 

پہلی بات: جس حدیث کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے اس کے الفاظ وہ نہیں جو آپ نے سوال میں ذکر کیے ہیں، ہم نے اس سے پہلے بھی 24 ربیع الثانی 1439ھ بمطابق11 جنوری 2018 کو جاری کردہ سوال و جواب میں اس حدیث شریف پر  بحث کی تھی ، اس کی مختلف روایات بیان کی تھیں، جن میں کچھ روایات میں مختلف اضافے بھی ہیں، پھراس جواب کے آخر میں ہم نے جو خلاصہ بیان کیا تھا وہ یہ  تھا کہ:

 

]73 فرقوں میں اُمّت کے تقسیم ہو جانے سے متعلق حدیث کے الفاظ ( الیٰ ثلاث و سبعین فرقۃً"73 فرقوں میں تقسیم ہو گی"،تک تو صحیح ہیں ،یعنی جس میں مزید الفاظ کا اضافہ موجود نہیں، ان الفاظ کے بعد پہلا اضافہ یعنی(کلھا فی النار الا واحدۃ)"سب جہنم میں ہیں سوائے ایک کے"،اس کو اکثر محدثین نے حسن قرار دیا ہے،جبکہ دوسرا اضافہ(کلھا فی الجنۃ الا واحدۃ )"سب جنت میں ہیں سوائے ایک کے"،اس کو بہت زیادہ محدثین نے ضعیف کہا ہے ،محدثین کی کم تعداد نے اس کو صحیح یا حسن کہا ہے۔ لہذااُصولِ حدیث کے پیش نظرمیں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ پہلا اضافہ  (کلھا فی النار الا واحدۃ) "سب جہنم میں ہیں سوائے ایک کے"،کو تو لیا جائے گا  جبکہ دوسرے اضافے(کلھا فی الجنۃ الا واحدۃ) "سب جنت میں ہیں سوائے ایک کے"،کونہیں لیا جائے گا۔یہ ان روایات کے حوالے سے ہے جن میں دونوں اضافے موجود ہیں۔[

 

مذکورہ سوال و جواب میں ہم نے  جو ذکر کیا ہے ،اس کی بنا پر کچھ روایات جن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، جو قابل استدلال ہیں ،وہ یہ ہیں:

            ترمذی ؒ نے اپنی سنن میں روایت کی ہے

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:تَفَرَّقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ أَوْ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً»، وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ))

"ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:  یہود71 یا 72 فرقوں میں بٹ گئے ،عیسائی بھی اتنے ہی فرقوں  میں بٹ گئے،اور میری امت 73 فرقوں میں بٹے گی"۔

 

اسی باب  میں سعدؓ ، عبد اللہ بن عمروؓ اور عوف بن مالک ؓ سے بھی روایات موجود ہیں، ابو عیسیٰ کہتے ہیں : ابو ہُریرہؓ کی حدیث  حسن  صحیح ہے۔ ترمذیؒ نے ایک اور روایت میں عبداللہ بن عمرؓ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

((وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي))

"اور بے شک بنی اسرائیل 72فرقوں میں تقسیم ہوگئے،میری اُمّت 73فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ،ایک  کے سوا  سب فرقے جہنم میں ہوں گے، صحابہؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا : جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں"۔

ابو عیسیٰ(ترمذی) کہتے ہیں،یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

            حاکم نے مستدرک علی الصحیحین میں روایت نقل کی ہے:

((عَنْ أَبِي عَامِرٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ لُحَيٍّ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ... ثُمَّ قَامَ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ تَفَرَّقُوا فِي دِينِهِمْ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ هَذِہِ الْأُمَّةُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ))

"ابو عامر  عبد اللہ بن لُحی ّ   سے روایت ہے  کہ: ہم نے معاویہ بن ابی سفیانؓ کے ساتھ حج کیا ، پھر جب معاویہؓ مکہ میں ظہر کی نماز پڑھ چکے تو وہ کھڑے ہو گئے اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اپنے دین میں72 فرقوں میں بٹ گئے ، اور یہ امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، یہ سب جہنم میں ہوں گے ،سوائے ایک فرقے کے،یہی فرقہ الجماعت ہے"۔

حاکم کہتے ہیں: یہ تمام اسناد اس حدیث کو صحیح قرار دینے میں حجت ہیں۔ اس میں امام ذہبی بھی ان سے متفق ہیں۔ ابو داؤد نے اپنی سنن میں اور ابن ماجہ نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔

 

دوسری بات: ہمارے نزدیک اس حدیث کا  راجح مطلب یہ ہے کہ :

- 1شریعت میں انتشار اور تفرقہ جیسے الفاظ کا استعمال اکثر عقیدے، اُصول ِدین، قطعی اور واضح اُمور میں اختلاف میں ہوا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں

﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾

"ان لوگو ں کی طرح مت ہو جو متفرق ہو گئے بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح احکام آئے انہوں نے اختلاف کیا اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے"(آلِ عمران:105)۔

 

اور ارشاد ہے:

﴿وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ﴾

"اور اہلِ کتاب نے جو اختلاف(تَفَرَّقَ) کیا تو واضح دلیل آنے کے بعد"(البینہ:4)۔

اور ارشاد ہے

﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْياً بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾

"بےشک دین الله کے ہاں فرمابرداری ہی ہے اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے صحیح علم ہونے کے بعد آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا اور جو شخص الله کے حکموں کا انکار کرے تو الله جلد ہی حساب لینے والا ہے"(آلِ عمران:19)۔

اور ارشاد ہے

﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾

"جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے(فَرَّقُوا) کر دیا اور کئی جماعتیں بن گئے،آپ کاان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا کام الله ہی کے حوالے ہے پھر وہی انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کرتے تھے"(الانعام:159)۔

 

-2الجماعۃ: کا لفظ  جویہاں ان احادیث میں  آیا ہے ،اس کا اطلاق شریعت میں مسلمانوں کی جماعت پر  کیا جاتا ہے،جو اسلامی عقیدے پر اکٹھی ہوئی ہو ،شرعی نصوص سے یہی معنی معلوم ہوتے ہیں،اس بارے میں  متفق علیہ احادیث وارد ہیں۔ عبد اللہ بن مسعودؓنے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ الثَّيِّبُ الزَّانِي وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ))

" کوئی بھی مسلمان جو یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  اور میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کا خون صرف ان تین وجوہات کے باعث حلال ہے؛ شادی شدہ ہو اور زنا کرے، قتل کے قصاص میں قتل کیا جائے اور دین کو چھوڑنے والا،الجماعۃ سے الگ ہونے والاہو"۔

یہ مسلم سے روایت ہے۔ اس حدیث شریف میں نبی ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ جماعت سے الگ ہونا دین سے خروج ہے اور دین چھوڑنا ہے،کیونکہ  دین چھوڑنے والا اس کو کہا گیاہے جو جماعت سے الگ ہو جائے۔تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ کفر کرنا اوردین و ملت سے خروج ہی جماعت سے علیحدگی ہے۔

 

            علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں کہا ہے:

((قولہ:وَالْمُفَارِقُ لِدِينِهِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ كَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ عَنِ الْكُشْمِيهَنِيِّ وَلِلْبَاقِينَ وَالْمَارِقُ مِنَ الدِّينِ لَكِنْ عِنْدَ النَّسَفِيِّ وَالسَّرَخْسِيِّ وَالْمُسْتَمْلِي وَالْمَارِقُ لِدِينِهِ قَالَ الطِّيبِيُّ الْمَارِقُ لِدِينِهِ هُوَ التَّارِكُ لَهُ مِنَ الْمُرُوقِ وَهُوَ الْخُرُوجُ وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ وَلَهُ فِي رِوَايَةِ الثَّوْرِيِّ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ... وَالْمُرَادُ بِالْجَمَاعَةِ جَمَاعَةُ الْمُسْلِمِينَ أَيْ فَارَقَهُمْ أَوْ تَرَكَهُمْ بِالِارْتِدَادِ فَهِيَ صِفَةٌ لِلتَّارِكِ أَوِ الْمُفَارِقِ...وَقَالَ الْبَيْضَاوِيُّ التَّارِكُ لِدِينِهِ صِفَةٌ مُؤَكِّدَةٌ لِلْمَارِقِ أَيِ الَّذِي تَرَكَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَخَرَجَ مِنْ جُمْلَتِهِمْ...))

" آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ : دین سے الگ ہونے والا جماعت کو چھوڑنے والا، اسی طرح کے الفاظ کُشمِیھَنی کی روایت میں ابو ذرؓ سے منقول ہیں ۔ باقیوں نے وَالْمَارِقُ مِنَ الدِّينِ  کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے،یعنی دین سے پار نکل جانے والا، لیکن نسفی،سرخسی اور مستملی کے نزدیک یہ حدیث   وَالْمَارِقُ لِدِينِہٖ کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔اس کے معنی خروج (نکلنے) کے ہیں،مسلم کی ایک روایت میںوَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ آیا ہے۔ الثوری کی روایت میں  الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ کے الفاظ ہیں،اور جماعت سے مراد مسلمانوں کی جماعت ہے، اب مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمانوں سے الگ ہوجائے یا مرتد ہوکر ان کو چھوڑ دے، یہی چھوڑنے اور الگ ہونے والے کی صفت ہے،بیضاوی نے کہا ہے: التارک لدینہٖ المارق کے لیے صفت مؤکدہ ہے ، یعنی المارق التارک ہی کے معنی میں ہے، یعنی جو مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر ان کے درمیان سے نکل جائے"۔

 

-3اس حدیث کی مختلف روایات میں حضور ﷺ کا یہ قول مبارک کہ »وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي«"میری امت متفرق ہو جائے گی"،»وَتَفْتَرِقُ هَذِهِ الْأُمَّةُ«"یہ امت متفرق ہو جائے گی"، »وَإِنَّ هَذِہِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ«"یہ عقیدہ متفرق ہو جائے گا"،اس  سے واضح ہوتا ہےکہ یہاں  اُمّت یا مِّلت سے مراد اُمت ِ مسلمہ ہی ہے، جو دین اسلام پر ایمان لاچکی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روایت میں امت کی نسبت اپنی طرف کی ہے، یعنی»أُمَّتِي«"میری امت"،فرمایا ہے،بعض روایات میں آپ ﷺ نے اس کی پہچان کرائی ہے کہ   اس سے »هَذِہِ الْأُمَّة«"یہ امت"،»وهَذِہِ الْمِلَّةَ«"یہ عقیدہ"، مراد ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حدیث مخصوص امت اور مخصوص ملت  کے بارے میں ہے،اور وہ امت ِمسلمہ ہے۔

 

-4جیسا کہ معلوم ہے کہ اسلام میں کچھ اختلافات مذموم بھی ہیں اورکچھ ممدوح بھی ہیں ۔ ممدوح اختلاف(جس کی تعریف کی گئی ہے) اجتہادی مسائل میں اختلاف ہے،جس کی بنیاد نصوص کی سمجھ میں اختلاف پر ہے، اور درست اجتہاد کرنے والے کے لیے اس میں دو اجر ہیں ، غلطی کرنے والے کوبھی بہر حال ایک اجر ملتا ہے جیسا کہ  صحیح امام بخاری میں روایت کردہ حدیث میں وارد ہے کہ عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا:

((إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ))

" جب فیصلہ کرنے والاکوئی فیصلہ کرے اور وہ ( درست سمجھ تک رسائی کے لیے) اجتہاد کرے (کوشش میں حد کردے) پھر وہ درست رائے تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دو اجر ہیں، اور جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے پھر(حکم دینے میں ) اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے"۔

اور مذموم اختلاف  جیسے عقیدے میں اختلاف ، بینات یعنی واضح دلائل اور قطعیات میں اختلاف ،یہی وہ اختلاف ہے جو اختلاف کرنے والے کو اسلام سے خارج کردیتا ہے،اس کی ایک اور قسم وہ اختلاف ہے جو خواہش نفس پر مبنی ہو، جیسے اُن اہلِ بدعت کا اختلاف  جو اپنی بدعت سے انکار نہیں کرتے،یا پھر امام یعنی حاکم وقت یا اس کی اطاعت پر اختلاف بھی مذموم اختلاف ہے،اسی  طرح اور اختلاف ہیں جو مذموم ہونے کے باوجود  اختلاف کرنے والے کو اسلام سے خارج نہیں کرتے۔

 

            تیسری  بات:  مذکورہ بالا نکات کو مد نظر رکھ ہم یہود و نصاریٰ  اور امت  کے انتشار و تفریق سے متعلق مذکورہ حدیث شریف  کو سمجھ سکتے ہیں، اور اس کی تفصیل یوں ہے:

 

-1        اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دینِ حق دے کر بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا ،ان پر کچھ لوگ ایمان لے آئے اور توحید کے سچے عقیدے پراکٹھے ہوکر ان کا ساتھ دیا ،چنانچہ وہ ایک ہی ملت بن گئے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس ملت سے کچھ گروہ الگ ہوگئے جنہوں نے توحید پر ایمان رکھنے والی ملت سے دین میں اختلاف کیا؛ جیسا کہ حدیث میں ہے ((إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ تَفَرَّقُوا فِي دِينِهِمْ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً))" بے شک اہل کتاب دین میں 72 فرقوں میں بٹ گئے "۔ سو انہوں نے عقیدے ، واضح دلائل  اور دینِ موسیٰ کے قطعی و یقینی تصورات میں صحیح عقیدے والوں سے اختلاف کیا، یوں وہ موسیٰ کے دین سے نکل گئے اور کافر ہوئے،جو فرقے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین سے پھِر گئے اور اصل دین سے اختلاف کرنے کے باعث مستقل ملتوں کی شکل اختیار کرگئے ((إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ تَفَرَّقُوا فِي دِينِهِمْ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً))" بے شک اہل کتاب دین میں 72 فرقوں میں بٹ گئے "، ان کی تعداد 70 یا 71 فرقوں  تک پہنچ گئی،یہ سب کفریہ ملتیں ہیں اور جہنمی فرقے  ہیں،جبکہ دین موسیٰ پر برقرار رہنے والی ملت جو 71ویں یا 72 ویں  ملت تھی ، وہ اہل حق اور جنتی ہے،اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پیرو کاروں میں سے یہی فرقہ ناجیہ کہلایا۔

 

-2 اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو دین حق دے کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا، چنانچہ ان پر بھی کچھ لوگ ایمان لے آئے اور توحید کے حق اور سچے عقیدے پر ان کے ساتھ متفق ہوگئے ،یوں وہ لوگ ملت ِواحدہ اور ملتِ مومنہ بن گئے۔ لیکن وقت کے ساتھ اس ملت سے نکل کر مختلف گروہ بن گئے ،یعنی پہلی امت مومنہ سے انہوں نے دین میں اختلاف کیا، چنانچہ اُنہوں نے عقیدے ، بینات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے دین کے قطعی افکار میں سے اپنا جدا رستہ اپنایا، یوں وہ ان کے دین سے نکل گئے اور کفار بن گئے، فرقوں کی تعداد  جوحضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے دین سے نکلے اور حضرت عیسیٰ کی ملت سے اختلاف رائے کی وجہ سے علیحدہ ملتیں بن گئے،ان کی تعداد 71 فرقوں  تک پہنچی،یہ سب کفریہ ملتیں ہیں اور جہنم والوں میں سے ہیں، وہ ملت جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین پر برقرار رہی تھی ، 72واں فرقہ ہے وہ اہلِ حق اور اہلِ جنت میں سے ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے یہی فرقہ ناجیہ ہے۔

 

-3پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے محمد ﷺ کو دین حق اور عقیدہ توحید کے ساتھ بھیجا ،پھر ان پر مسلمان ایمان لےآئے اور جس عقیدے پر نبی کریم ﷺ اور صحابہ کا ایمان تھا ، بعینہٖ وہی عقیدہ اختیار کر لیا ،اس طرح اس اجتماعی عقیدے کی وجہ سے وہ امت مسلمہ کہلائے یا ملت اسلامیہ اور الجماعت کہلائے۔ لیکن دین محمدی ﷺ سے کچھ قومیں نکل گئیں (اور مزید نکلیں گی) اور جس عقیدے، قطعی نصوص اور بینات پر نبی ﷺ،صحابہ کرام اور مسلمان  تھےان   سے الگ ہوگئیں (مزید الگ ہوں گی)۔ یہ جتنے لوگ الگ ہوئے ہر ایک فرقہ بن گیا اور ملت اسلامیہ سےجدافرقہ بن گیا، کیونکہ وہ اسلامی عقیدے کے مخالف عقائد پر ایمان لے آئے۔   یہ فرقےجن کے پیروکار مسلمان تھےپھر اسلام سے خارج ہو گئے، 72 فرقے  یا عقائد بنے،یا بنیں گے یہ سب کافر فرقے ہیں  اور اہلِ جہنم میں سے ہیں،ایک فرقہ جو 73 واں فرقہ ہے جو اصل فرقہ ہے ،یعنی جسے الجماعت اور ملت اسلامیہ کہا جاتا ہے ،جس کا نبی ﷺ اور صحابہؓ کے عقائد پر ایمان ہے، جو اسلام کی قطعی نصوص اور بینات پر پکا ایمان رکھتے ہیں  اور یہی مسلم امت کہلاتا ہے، جن کا اللہ تعالیٰ، فرشتوں ، اللہ کی کتابوں ، پیغمبروں اور قیامت کے دن ، قضا و قدر اور اس میں خیر و شرکے اللہ کی طرف سے ہونے  پر ایمان ہے،یہی اسلام کی امت ہےجو کامیاب فرقہ ہے اور جو اہل جنت میں سے ہے، تو یہی وہ فرقہ اور ملت  ہے جو نبی ﷺ اور صحابہؓ کے عقیدے پر متفق ہے  اور الجماعت ہے۔

 

چوتھی بات: حدیث کی اس تشریح اور اس کی حقیقت کے مطابق ہم اس کا خلاصہ یوں بیان کرسکتے ہیں کہ:

-1 کامیاب فرقہ (فرقہ ناجیہ)ہی اپنے عمومی مفہوم میں مسلم امت ہے،جو اسلامی عقیدے اور دین کے قطعیات و بینات پر اکٹھی ہوگئی ہے، خواہ اس کو ماننے والوں کی آرا ، افکار اور مذاہب میں عقیدے سے نکلنے والے فروعی مسائل اور احکامِ شریعت میں اختلافات ہوں،اس کی نجات اور جنتی ہونے کا سبب اسلامی عقیدے ،اس کے قطعیات اور واضح دلائل(بینات) پراس کا ایمان ہے، اس بنا پر:                

            ا۔   پس اہل سنت و الجماعت کےاشعری و ماتریدی متکلمین اور دیگر کلامی مذاہب و مسالک ، اسی طرح سلفی کہلانے والے ،اہلِ حدیث اور ان کے علاوہ دیگر اسلامی فکری مذاہب اور اصحابِ اقوال ؛ سب کے سب فرقہ ناجیہ والوں میں سے ہیں،ان شا ءاللہ ! کیونکہ یہ سب محمد ﷺ کے پیرو کار ہیں، اسلامی عقیدے اور اس کے قطعیات و بینات پر ایمان لانے والے ہیں، ان کے درمیان موجود اختلافات ان کو اسلام سے نہیں نکالتے۔

 

            ب۔ مختلف فقہی مذاہب جیسے احناف، مالکی، شافعی اور حنبلی اور دوسرے فقہی مذاہب اور مختلف مجتہدین کے  پیرو کار ،سب فرقہ ناجیہ والے ہیں ان شا ءاللہ ! کیونکہ یہ سب محمد ﷺ کے پیرو کار ہیں، اسلامی عقیدے اور اس کے قطعیات و بینات پر ایمان لانے والے ہیں، ان کے درمیان موجود اختلافات ان کو اسلام سے نہیں نکالتے۔

 

            ج۔ اسلامی جماعتیں ، تحریکات اور تنظیمیں جو ہمارے اس دور میں میدان عمل میں ہیں، جیسے حزب التحریر، اخوان المسلمون، تبلیغی جماعت والے ،جہادی تنظیمیں، سلفی جماعتیں، وغیرہ، سب فرقہ ناجیہ ہیں ان شا ءاللہ ! کیونکہ یہ سب محمد ﷺکے پیرو کار ہیں، اسلامی عقیدے اور اس کے قطعیات و بینات پر ایمان لانے والے ہیں، ان کے درمیان موجود اختلافات ان کو اسلام سے نہیں نکالتے۔

            یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے کسی بھی گروہ کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اس حدیث کی بنیاد پر اپنے تئیں فرقہ ناجیہ یا کامیات گروہ ہونے کا دعویٰ کرے، کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے  کہ وہ اپنے مخالفین جو کہ مسلمان ہیں ،ان کو دائرہ اسلام سے باہر کرکے دائرہ کفر میں داخل کردیں  ،جو کسی طرح درست نہیں ۔ پس سب مسلمان جو اسلامی عقیدہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے قطعیات و بینات  پر یقین رکھتے ہیں ، ان شاء اللہ فرقہ ناجیہ(نجات یافتہ گروہ) میں سے ہیں۔

 

فرقے جو اسلام سے خارج ہوکر کافر بن چکے  اور جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہونے والے جہنمی فرقے کہلانے کے مستحق ٹھہرے،وہ فرقے ہیں جو دین کے مخالف ہوئے اور مسلمانوں کے عقیدے سے نکلے ، اسلام  کے قطعیات و بینات پر تجاوز کیا، اللہ کے ساتھ غیر اللہ کو شریک بنایا، یا محمد ﷺ کے بعد کسی غیر کو نبی مانا یا سنت رسول ﷺ کا انکار کیا وغیرہ۔ جیسے دروز ، نصیری ، بہائی، قادیانی وغیرہ ، سب کافر فرقے ہیں اور اسلام سے خارج ہیں۔ یہود میں سے ان کی مثال وہ لوگ ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے دین سے نکلے تھے وہ قوم تھی جس نے عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا، عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے وہ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا۔ یہ دو فرقے تھے جو اپنے عقیدے میں ان دو نبیوں کے عقیدے اور دین سے باہر ہوئے، جس کی وجہ سے وہ کفار میں سے ہوگئے۔

 

            اُمید ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کا مطلب اس  شرح  و بیان کے بعد واضح ہوگیا ہوگا۔ واللہ اعلم  واحکم۔

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

16 جمادی الثانی 1442ھ

29 جنوری 2021 ء


Last modified onاتوار, 20 فروری 2022 22:12

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.