Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سوالات کے جوابات

زکوٰۃ اورکاغذی نوٹ

 

سعد گورزی، محمد الیسا،ہشام جوان،ابو احمد،ایمن محمود حمدی اور اشرف ماجد خلیل ابراھیم کو

 

سوال:

1۔ہشام جوان

میرے پاس مال کی ایک مقدار ہو تو میں اس کا الحاق سونے کے نصاب سے کروں یا چاندی کے نصاب سے۔۔۔یعنی مقامی کرنسی کا نصاب کیا ہے؟؟؟

 

2۔محمدالیسا

کیا جائیداد(پلاٹوں)کی تجارت میں زکوٰۃ ہے؟

 

3۔سعید گورزی

ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ کیا ہمارے ہاں رائج کاغذی نوٹوں کا لین دین جائز ہے؟ سلفی علماء اس کے لین دین کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ یہ ابوبکر صدیقؓ کی جانب سے کرنسی کی تعریف کے موافق نہیں، افراط زر کی شکل میں اس کا خطرہ ہمارے سامنے آشکارہ ہوچکا ہے جو کہ کاغذی نوٹ کا نتیجہ ہے، کاغذی کرنسی سونے چاندی کے برعکس اسے چھاپنے والی ریاست کے زوال سے زائل ہوجاتی ہے، اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ بیسویں صدی میں خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے باوجود الجزائر، تیونس،لیبیا اور مراکش میں اس کی تمام نقدی پر استعماریوں نے قبضہ کر لیا، ایک ہسپانوی محقق کہتا ہے کہ امت مسلمہ کامیاب اقتصادی طریقہ کار پر چلے بغیر کبھی نشاۃ ثانیہ حاصل نہیں کر سکے گی اور امت کی معیشت اسلامی دینار اور درھم کو بحال کیے بغیر کبھی ترقی نہیں کرے گی۔

 

4۔ابواحمد

کیا زکوٰۃ سونے کا نصاب مکمل ہونے پر ادا کی جائے گی یا چاندی کے؟ کیونکہ چاندی کا نصاب ایک ہزار اردنی دینار ہے جبکہ سونے کا نصاب دو ہزار اردنی دینار ہے؟ والسلام

 

5۔ایمن محمود حمدی

ویلیو عقلی علت ہے، کیا احکامِ شرعیہ میں اس کا استعمال درست ہے؟

 

6۔اشرف ماجد خلیل ابراھیم

جب آپ کے پاس 200درھم آجائیں اور ان پر سال بھی گزرے تو5درھم زکوٰۃ ہے، یہاں مقصود ڈھلے ہوئے کی زکوٰۃ ہے یا زکوٰۃ کا نصاب 200درھم ہے؟؟؟

 

ان چھ سوالات کا جواب جن کا ایک ہی موضوع سے تعلق ہے

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

سونے کا نصاب بیس دینار ہے جوکہ" 85 گرام سونا "ہے۔ ایک دینار4.25گرام سونا ہے، اسے بیس سے ضرب دینے سے"85گرام سونا" بنتاہے، جبکہ چاندی کا نصاب دوسو درھم ہے جوکہ"595 گرام چاندی"ہے، ایک دینار2.975گرام چاندی کا ہوتاہے جس کو دوسو سے ضرب دیں"595 گرام چاندی" بنتا ہے،۔۔۔۔اس کی دلیل وہ ہے جسے ابو عبید نے الاموال میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ عِشْرِينَ مِثْقَالا مِنَ الذَّهَبِ، وَلَا فِي أَقَلَّ مِنْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ صَدَقَةٌ» "سونے کے بیس مثقال سے کم اور چاندی کے دو سودرھم سے کم پر زکوٰۃ نہیں"، بخاری نے بھی یحیٰ بن عمارہ بن ابی الحسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سعید ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ"پانچ اوقیہ سے کم پر زکوٰۃ نہیں" اور گنتی میں اس کی مقداردو سو ہے کیونکہ ایک اوقیہ چالیس درھم ہوتے ہیں۔

 


2۔سونےکا نصاب"85گرام" تک پہنچتے ہی یا چاندی کا نصاب"595 گرام" تک پہنچتے ہی ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوجاتی  بلکہ نصاب پورا ہو جانے کے بعد سال گزر جائے ،تب زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔ یعنی جس دن نصاب مکمل ہو اس دن سے شروع کر کے ایک سال گزر جائے اور اعتبار ہجری سال کے گزرنے کا ہے، مثال کے طور پر دس محرم کو نصاب پورا ہوجائے تو آنے والے سال دس محرم کو زکوٰۃ فرض ہو جائے گی۔۔۔یہ اس لیے کہ ترمذی نے ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ : "جس کے پاس مال آئے اس پر سال گزرنے تک رب کی طرف سے اس پر زکوٰۃ فرض نہیں" ۔سونے اور چاندی میں زکوٰۃ کی مقدار دسویں کا ایک چوتھائی ہے(ڈھائی فیصد)یعنی چاندی کے نصاب میں پانچ درھم "875. 14 گرام" چاندی اور سونے کے نصاب میں نصف دیناریعنی "125. 2 گرام"سونا، کیونکہ ابنِ ماجہ نے عبد اللہ بن واقد اور انہوں نےابن عمرؓ اور عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ "كَانَ يَأْخُذُ مِنْ كُلِّ عِشْرِينَ دِينَارًا فَصَاعِدًا نِصْفَ دِينَارٍ، وَمِنَ الْأَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارًا-رسول اللہ ﷺ ہر بیس دینار یا اس سے زیادہ پر نصف دینار وصول کرتے تھے اور چالیس دینار پرایک دینار"،  ترمذی نے علیؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ: مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ»"نقدی کی زکوٰۃ نکال لاؤ، ہر چالیس پر درھم ،درھم ایک سوننانوے پر کچھ نہیں، جب دو سو پورے ہوں تو پانچ درھم"۔

 

3۔جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ سونے اور چاندی میں نصاب پورا ہونے کے بعد سال گزر جائے تب زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، زکوٰۃ پوری رقم پر نکالی جائے گی صرف نصاب سے زیادہ پر نہیں، مثال کے طور پر جس کے پاس"170 گرام سونا ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو "170 گرام" پر زکوٰۃ نکالی جائے گی یعنی 170 گرام کے دسویں کا ایک چوتھائی جو کہ 25. 4 گرام سونا ہے، دوسرے لفظوں میں صرف "85 گرام" پر زکوٰۃ نہیں نکالی جائے جو کہ نصاب سے زیادہ ہے یعنی صرف "125. 2 " گرام زکوٰۃ نہیں نکالی جائے گی جو کہ نصف دینار ہے۔۔۔یہی حال چاندی کا ہے جب نصاب پورا ہو اور سال گزرجائے تو پوری رقم پر زکوٰۃ نکالی جائے گی۔

 

4۔سونے کی زکوٰۃ کے حکم کا تعلق سونے"24 قیراط"کے ساتھ خاص ہے، اسی طرح چاندی میں زکوٰۃ کے حکم کا تعلق خالص چاندی کے ساتھ ہے، اسی لیے اگر سونے میں کسی اور چیز کی ملاوٹ ہو یا چاندی میں کسی اور چیز کی ملاوٹ ہو تو اس چیز کی مقدار وزن میں کم کی جائے گی اور مخلوط مواد کو الگ کرنے کے بعد باقی ماندہ  میں اگر نصاب مکمل ہو تب زکوٰۃ ہوگی، اگر کسی شخص کے پاس "85 گرام سونا " ہو جس میں خالص سونا "18" قیراط ہو تو وہ صاحبِ نصاب نہیں کیونکہ اس کے پاس خالص سونا 85 گرام نہیں۔۔۔ ڈھلے ہوئے سونے کے24 قیراط کی زکوٰۃ ڈھلے ہوئے سونے کے 18 قیراط کی زکوٰۃ سے مختلف ہے۔نصاب کا حساب لگاتے وقت خالص سونے کا اندازہ لگایا جائے گا، 24 قیراط سونے کا نصاب 85گرام ہے، جبکہ 18 قیراط سونے کا نصاب اس سے زیادہ ہوگا کیونکہ اس میں ایک چوتھائی نسبت سے سونے کے علاوہ مواد بھی ہے، یعنی 18 قراط وزن کا صاف سونا 24قیراط وزن کے سونے کے تین چوتھائی کے برابر ہے۔ اسی لیے 18 قیراط سونے کا نصاب صاف سونے کے نصاب  کا 3/1 ہے یعنی 33.113 گرام، یہی وجہ ہے کہ جس کے پاس 85 گرام صاف 24 قیراط سوناہو وہی صاحب نصاب ہے، اگر اس پر سال گزر جائے تووہ اس پر 5. 2 ٪ وزن زکوٰۃ میں دے گا، جبکہ جس شخص کے پاس 85 گرام 18 قیراط سونا ہے وہ صاحب نصاب نہیں جب اس کے پاس سونا 33.113 گرام ہوجائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تب اس کا 5. 2 ٪ وزن زکوٰۃ میں ادا کرے گا، یہ بات واضح ہے کہ زکوٰۃ میں اعتبار صرف خالص سونے کا ہے۔

 

5۔زکوٰۃ فردی عبادت ہے یہ مسلم کے مال پر اس وقت تک فرض نہیں ہوتی جب تک وہ نصاب تک نہ پہنچے، اس لیے مثال کے طور پر اگر ایک شخص60گرام سونے کا مالک بن جائے اور اس کی بیوی بھی 60 گرام سونے کی مالک بن جائے تو نہ شوہر پر زکوٰۃ فرض ہے نہ بیوی پر چاہے دونوں کا مجموعہ نصاب سے زیادہ ہی ہو، ہاں ان میں کسی کا مال اکیلے نصاب تک پہنچ جائے تب اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی، مثال کے طور پر شوہر کے مال میں اضافہ ہوجائے اور اس کے پاس 120 گرام سونا جمع ہوجائے تب اسی پر زکوٰۃ فرض ہوگی ،اس کی بیوی کے 60 گرام کو اس میں جمع نہیں کیا جائے گا۔

 

6۔جس مال کی زکوٰۃ نکالی جارہی ہو وہ اگر رائج الوقت نقدی یا تجارتی سامان ہو تو اس کو سونے یا چاندی میں سے ایک کے نصاب کے پورا ہونے پر ادا کرنا ہوگا، اگر دونوں کا نصاب مختلف ہو جیسا کہ موجودہ وقت میں ہے کہ چاندی کا نصاب سونے کے نصاب سے بہت کم ہے، تو میرے خیال میں کم نصاب یعنی چاندی کے نصاب کے مطابق زکوٰۃ نکالی جائے گی، میں کم نصاب کے مطابق اس لیے کہہ رہا ہوں کہ  جب کم نصاب پوا ہوجائے تو وہ اہل زکوٰۃ میں سے ہوگیا ،اب اس کے لیے زیادہ نصاب کا انتظار کرنا جائز نہیں بلکہ اسے چاہیے کہ اس تاریخ کو نوٹ کرے جس دن وہ صاحبِ نصاب بن گیا پھر ایک سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ادا کرے، چونکہ زکوٰۃ فقراء اور مساکین کا حق ہے۔۔۔(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ...)"زکوٰۃ تو صرف فقراء اور مساکین کے لیے ہے۔۔۔"(التوبۃ: 60)، (وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ * لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ)"اور وہ لوگ جن کے مال میں سائل اور محروم کا معلوم حق ہے"(المعارج: 23-24)، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ»"ان کو بتاؤ کہ اللہ نے ان کے مال پر زکوٰۃ کو فرض کیا ہے ،جو ان کے مالداروں سے لے کر فقراء کو دیا جائے گا"(بخاری)۔ چنانچہ حقدار کے فائدے کا اعتبار کیا جائے گا، یوں کم نصاب یعنی چاندی کے نصاب کے مطابق زکوٰۃ نکالی جائے گی، میری یہ رائے ہے اور اللہ ہی زیادہ علم اور حکمت والا ہے۔

 

7۔رہی یہ بات کہ کاغذی نوٹ کی زکوٰۃ کیوں دی جاتی ہے وہ اس لیے کہ نصوص سے مستنبط شرعی علت کے سبب، شرعی علت کی چار قسمیں ہیں جیسا کہ کتا ب اسلامی شخصیت جزو 3 کے باب"ادلۃ العلۃ" میں آیا ہے:

"کتاب اور سنت میں موجود شرعی نصوص کی چھان بین سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ شرعی نص کی علت پر دلالت: صراحتاً یا دلالتاً یا استنباطاً یا پھرقیاساً ہوتی  ہے، شرعی معتبر نصوص میں ان چار احوال کے علاوہ شرعی علت پر کوئی دلالت نہیں۔

شرعی نص علت پر یا تو نص کی صراحت سے ہی دلالت کرے گی یا پھر علت پر دلالتاً، یعنی نص کے الفاظ یا اس کی ترکیب اور ترتیب اس پر دلالت کریں گے، یا پھر ایک ہی نص یا متعدد متعین نصوص سے استنباطاً دلالت کرے  گی جس کے معین مدلول سے اس کا فہم حاصل ہوتاہے،نہ کہ ان کے مجموعے سے۔ یا پھر قیاس ہوتا ہے کہ ایسی علت کو جو نہ تو نص میں وارد ہو نہ اجماعِ صحابہ میں ،اسے ایسی دوسری علت پر قیاس کیا جائے جو قرآن یا سنت یعنی نص میں وارد ہو یا پھر اجماعِ صحابہ میں وارد ہو؛ دونوں اس چیز پر مشتمل ہوں جو شرع کی جانب سے علت کو علت بنانے کا سبب ہو۔یعنی یہ علت جو نص میں وارد نہیں اس چیز پر مشتمل ہے جس کو شارع نے علت ہونے کا باعث قرار دیا ہو، یعنی اس میں علّیت کی وجہ بعینہٖ وہی وجہ ہو جو نص میں وارد علت کی ہو) اختتام۔

 

مثال کے طور پر: صراحتاً علت یعنی نص میں وارد علت جیسے:

«كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنِ ادِّخارِ لُحُومِ الأَضاحِي لأَجْلِ الدّافَّةِ فَادَّخِرُوها»"میں نے تمہیں رش کی وجہ سے قربانی کے گوشت کوذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا، اب تم اسے ذخیرہ کر سکتے ہو"

«إِنَّمَا جُعِلَ الاِسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ»"(گھر میں داخل ہونے سے پہلے)اجازت لینا نظرپڑنے سے بچنے کے لیے ہے"

ان دونوں میں علت کا ذکر صراحتاً ہے کہ فلاں وجہ سے۔۔۔

مثال کے طور پر علت دلالتاً ہو جیسے:

ا۔علت کی طرف دلالت تنبیہ اور اشارے سے ہو جیسے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ» "جس نے بنجر زمین کو آباد کیا  تو وہ اسی کی ہے"، اس میں فائے تعقیب اور تسبیب کو استعمال کیا گیاہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَلَكْتِ نَفْسَكِ فَاخْتَارِي»"تم اپنے نفس کے خود مالک ہو، پس منتخب کرو"۔

ب۔ایسے مفہم وصف کا استعمال ہو جو علّیت کا فائدہ دے جیسے:

«الْقَاتِلُ لاَ يَرِثُ»"قاتل وارث نہیں ہوتا"قاتل کو ورثاء میں سے نکال دیا گیا، اس کا قاتل ہونا مفہم وصف (causal attribute)ہے۔

«فِيْ الْغَنَمِ السّائِمَةِ زَكَاةٌ»"چرنے والے مویشی میں زکوٰۃ ہے"یہاں زکوٰۃ کے حکم کو اپنے مالک سے چارہ نہ کھانے بلکہ چراگاہ میں چرنے والے(سائمہ) ہونے پر مرتب کیا گیا ، جو کہ مفہم وصف ہے۔

 

اسی طرح:«أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «فَلا إِذًا»"تازہ کھجور سوکھ کر کم ہوجاتی ہے؟" کہا:جی ہاں، فرمایا: "تو پھر نہیں"۔ اس سے سمجھا گیا کہ تازہ کھجور کو سوکھے کھجور کے بدلے نہ بیچنے کی علت وزن میں کمی ہے۔۔۔الخ

 

مثال کے طور پر نص میں علت استنباطاً ہو

وہ اس طرح کہ نص اپنے اندر موجود حکم کے الفاظ کی ترتیب و ترکیب وجہ سے علت کے استنباط میں مدد دے، یہ علت صراحتاً یا دلا لتاً مذکور نہ ہو:

۔روایت ہے کہ عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روزہ دار کی جانب سے بوسہ لینے کے بارے میں سوال کیا کہ کیا اس سے روزہ ٹوٹتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:«أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ أَكَانَ ذَلِكَ يُفْسِدُ الصَّوْمَ؟» "کیا خیال ہے کُلی کرنے سے روزہ فاسد ہوتاہے"انہوں نے کہا: نہیں۔۔۔اس میں بوسہ لینے سے روزہ کے فاسد نہ ہونے کو کُلی کے روزہ کو فاسد نہ کرنے پر قیاس کیا گیا ہےسوائے اس کے کہ اگر کلی کرتے ہوئے پانی پیٹ میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہوتا ہے، اسی طرح بوسہ دیتے ہوئے پانی(مَنی)خارج ہو تو روزہ فاسد ہوتا ہے یعنی اس میں روزے کو فاسد کرنے کی علت انزال ہے اس علت کو "علتِ مستنبط" کہا جاتاہے۔

 

۔ (يَٰٓأَ أيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوٰةِ مِن يَوۡمِ ٱلۡجُمُعَةِ فَٱسۡعَوۡاْ إِلَىٰ ذِكۡرِ ٱللَّهِ وَذَرُواْ ٱلۡبَيۡعَ)

"اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے آذان دی جائے تو اللہ کے ذکرکی طرف دوڑو اور تجارت چھوڑ دو"(الجمعہ)،

 

یہ آیت جمعہ کے احکام کو بیان کر رہی ہے تجارت کے احکام کو نہیں ،اگر تجارت سے روکنا جمعہ کی طرف دوڑنے کے واجب ہونے کی علت نہ ہوتی تو یہ جمعہ کے احکام سے مربوط نہ ہوتی، یہ فرمان کہ"تجارت چھوڑدو" اگرچہ امر کا صیغہ ہے، اورترک کی طلب-نہی- ہے تاہم یہ نہی مباح سے منع کرنے کے قرینے کی وجہ سے طلبِ جازم ہے مزید یہ کہ خطاب کا موضوع جمعے کی نماز کے لیے دوڑنا ہے، یہ فرض ہے اس لیے آذان کے وقت تجارت کی ممانعت نہی جازم (حتمی نہی)ہے۔

اس آیت سے آذان کے وقت تجارت کے حرام ہونے کی علت کو استنباط کیا گیا جو کہ نماز سے غفلت ہے، اس علت کو علت مستنبطۃ کہا جاتا ہے حکم اس کے گرد گھومتاہے، اسی لیے   قیاس کرتے ہوئے آذان کے وقت تجارت اجارہ یا کوئی بھی ایسا کام حرام ہےجو نماز سے غافل کرے۔

 

مثال کے طور پر قیاسی علت:

جب نص میں علت دلالتاً ہو اور دلالتا ًعلت اور اصل حکم کے مابین مؤثر تعلق بھی ہو تو اس تعلق کو استعمال کرتے ہوئے  نص میں موجود دلالتا علت پرنئی علت کو قیاس کیا جا سکتا ہے، اس نئی علت کو قیاسی علت ( علت قیاساً)کہا جاتاہے، یہ بھی نئے احکام کےلیے قیاس میں بالکل اسی طرح استعمال ہوتی ہے جیسے کہ علت کی باقی اقسام۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ علت اور حکم کے درمیان موثر تعلق صرف اس صورت میں پایا جاتا ہے جب علت دلالتاً ایک مفہم وصف ہو(علیت اور تعلیل کے لیے) یعنی وہ وصف  علت ہونے کےلیے مفہم ہو ،اسی طرح اس سبب کے لیے جس کی وجہ سے اس وصف کو علت سمجھا گیا، کیونکہ یہی سبب علت اور حکم کے مابین موثر تعلق کا تعین کرتا ہے۔

 


۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لَا يَقْضِي الْقَاضِي وَهُوَ غَضْبَانُ"قاضی غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے"(غصہ)مفہم وصف ہے جس کو حکم کے ساتھ اس طرح ذکر کیا گیا کہ وہ حکم کی علت ہے۔

 

لیکن یہ مذکورہ علت(دلالتاً)جو کہ غصہ ہے ،اوریہ  فیصلے پر اثر انداز ہونے کا وصف مفہم ہے اور دلالتاً علت(غصہ) اور اصل حکم(فیصلے سے روکنے) کے مابین مؤثر تعلق بھی موجودہے اور یہ مؤثر تعلق فکر کا یکسو نہ ہونا اور حالت کا مضطرب ہونا ہے،کوئی بھی نیا مفہم وصف جس میں یہ موثر تعلق ہو جیسے بھوک ،تواسے  نص میں اس دلالتاً علت   پر قیاس کیا جائے گا اور اس جدید وصف مفہم(بھوک) کو قیاسی علت کہا جائے گا یوں غصہ دلالتاً علت ہے اور بھوک قیاساً علت ہے کیونکہ دونوں علتوں میں مؤثر تعلق مشترک ہے یعنی غصہ اور بھوک میں۔

 

یہ ساری علتیں شرعی علتیں ہیں کیونکہ یہ سب شرعی نصوص پر مبنی ہیں چاہے صراحتاً ہو، دلالتاً ہو استنباطاً ہویا قیاساً ،ان میں سے کسی علت کو عقلی علت نہیں کہا جائے گا۔ لہٰذا کاغذی نوٹ کی زکوٰۃ اور اس میں سود کی حرمت کے سلسلے میں شرعی نصوص سے ان کے نقدی ہونے کی علت کو اخذکیا گیا ہے جو کہ شرعی علت ہے ،اس استنباط کو ہم نے کتاب الاموال میں بیان کیا ہے، اس کا متن یہ ہے:

"مگر جب یہ نوٹ لازمی ہوں تو یہ نقد اور اشیاء کی قیمت، منافع  اور خدمات کی اجرت  ہونے کے اہل ہیں، ان سے سونا چاندی خریدا جاسکتا ہے جیسا کہ ان سے سارے سامان اور اعیان خریدے جا سکتے ہیں، کیونکہ ان میں نقدیت اور قیمت ہونا ثابت ہوا جو کہ سونے اور چاندی میں ثابت ہے، ڈھلے ہوئے سونے  اور چاندی یعنی دینار اور درھم میں۔یہ اس لیے کہ سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کے سلسلے میں وارد نصوص کی دو قِسمیں ہیں:

 

پہلی قسم : وہ دلائل ہیں جوسونے اور چاندی کے بطور اسمائے جنس کے، زکوٰۃ پر دلالت کرتی ہیں، یعنی سونے اور چاندی کے عین میں جو کہ اسم جامد ہیں جس میں تعلیل نہیں ہو سکتی، اس لیے اس پر قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ دوسری معدنیات جیسے لوہا اور پیتل ۔۔۔وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں۔ ابو ہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جس شخص کے پاس سونا اور چاندی ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن ان کو آگ میں گرم کرکے اس کو داغا جائے گا"اسے ترمذی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے۔اس حدیث میں لفظ سونا اور چاندی ہے جو کہ اسمائے جامدہ ہیں جن کی تعلیل(علت بنانا)نہیں ہوسکتی۔

 

دوسری قسم: وہ دلائل ہیں جو سونے اور چاندی پر بطور نقد اور قیمت و اجرت کے زکوٰۃ پر دلالت کرتی ہیں، ان دلائل میں سے علت کا استنباط کیا جاسکتا ہے، جو کہ ان کا نقدی ہونا ہے، اسی لیے لازمی کاغذی نوٹ کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے،  کیونکہ ان کے اندر بھی یہی علت موجود ہے، اس نقدی پر زکوٰۃ کے احکام لاگو ہوتے ہیں،  جو کہ مارکیٹ میں سونے یا چاندی سے مساوی ہونے کے لحاظ سے ہے۔ علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر تمہارے پاس دوسو درھم ہو ں اور ان پر سال بھی گزرجائے توان پر پانچ درھم زکوٰۃ ہے، سونے میں بیس دینار پورے ہونے تک کچھ بھی نہیں جب بیس دینار ہو جائیں اور ان پر سال بھی گزرجائے تب نصف دینار زکوٰۃ ہے"اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح علیؓ کا یہ قول بھی ہے" ہر بیس دینار پر نصف دینار زکوٰۃ ہے، ہر چالیس دینار میں ایک دینار زکوٰۃ ہے" علیؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "۔۔۔ رِقہ چاندی کی زکوٰۃ نکالو ہر چالیس درھم میں ایک درھم، ایک سو ننانوے پر کچھ نہیں ،جب دو سو مکمل ہوجائیں تو پانچ درھم" اسے بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح عبد الرحمن الانصاری نے  زکوٰۃ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ اور عمرؓ کے خطوط میں روایت کیا ہے کہ:"۔۔۔دوسو درھم پورا ہونے تک اس پر کچھ نہیں لیا جائے گا"اسے ابو عبید نے روایت کیا ہے۔

 

یہ تمام احادیث نقدیت اور قیمت پر دلالت کرتی ہیں؛ کیونکہ الرقہ کا لفظ قرینہ "ہر چالیس میں ایک درھم" کے ساتھ ہے، الورق، الدینار اور الدرھم کے الفاظ ڈھلے ہوئے اور کرنسی بنائے ہوئے سونے چاندی کے لیے استعمال ہوتے ہیں،  یعنی جو نقدی اور قیمت ہیں، سونے اور چاندی کوان الفاظ سے تعبیر کرنا ہی احادیث کے مراد کو واضح کرتاہے یعنی نقدیت اور قیمت کو، اسی لیے بہت سارے شرعی احکام ان سے منسلک ہوگئے جیسے زکوٰۃ، دیت، کفارے،چوری میں ہاتھ کاٹنا وغیرہ جیسے احکام۔

 

چونکہ لازمی کاغذی نوٹ کے اندر بھی یہی نقدیت اور قیمت بننا موجود ہے تو یہ بھی احادیث میں دونوں نقدیوں یعنی سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کے زُمرے میں آگئے اور ان میں بھی زکوٰۃ فرض ہے، جیسا کہ سونے چاندی میں فرض ہے،  جس کا اندازہ سونے اور چاندی کے نصاب کے لحاظ سے کیا جائے گا۔ چنانچہ جس کے پاس ان کاغذی نوٹوں میں سے اتنا ہو کہ جو سونے کے بیس دینار کے برابر ہو یعنی 85 گرام سونے کے برابر ہو تو وہ صاحبِ نصاب ہے یا اس کے پاس اتنے کاغذی نوٹ ہوں جو 200 درھم کے برابر ہوں یعنی 595 گرام چاندی کے برابر ہوں اور ان پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے اور ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گی " اقتباس ختم۔

لہٰذا یہ نہیں کہا جائے گا کہ نقدی ہونا یا قیمت ہونا عقلی علت ہے بلکہ یہ ادلہ شرعیہ سے شرعی طور پر مستنبط علت ہے، یہ اوپر مذکور صراحتاً ،دلالتاً، استنباطاً اور قیاساً علتوں کی اقسام میں سے ہی ہے، جو کہ ساری کی ساری شرعی علتیں ہیں۔

 

8۔تجارتی سامان میں زکوٰۃ فرض ہے چاہے یہ سامان جائیداد ہو یا کپڑے، اناج یا مویشی۔۔۔۔الخ، اس کی دلائل ہم نے کتاب الاموال فی دولۃ الخلافۃ میں اس طرح بیان کیے ہیں:

"سامان تجارت نقد کے علاوہ ہر وہ چیز ہے جس کی تجارت کی جاتی ہے، منافع کمانے کے ارادے سے بیچا اور خریدا جاتاہے، جیسے کھانے پینے کی اشیاء، ملبوسات،مفروشات(کارپٹ قالین فرنیچروغیرہ)، مصنوعات،حیوانات، معدنیات،زمین،عمارتیں وغیرہ جو بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔

 

جس سامان کی تجارت ہوتی ہے ان پر زکوٰۃ فرض ہے، اس میں صحابہؓ کا کوئی اختلاف نہیں۔ سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے: "اما بعد، رسول اللہ ﷺ ہمیں ان اشیاء کی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے جن کی ہم تجارت کرتے تھے"اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ ابو ذرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «وفي البَزِّ صدقته»"البَزّپر زکوٰۃ" ہے "دارقطنی اور بیھقی۔ "البَزّ" وہ کپڑے جن کی تجارت کی جاتی ہے، ابو عبید نے ابو عمرہ بن حماس سے ان کے والد کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ :"عمر بن خطابؓ میرے پاس سے گزرے اور کہا: اے حماس اپنے مال کی زکوٰۃ دیا کرو، میں نے کہا: میرے پاس کھالوں اور چمڑوں کے علاوہ کوئی مال نہیں، فرمایا: ان کی قیمت لگا کر زکوٰۃ ادا کیا کرو"۔

 

عبد الرحمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ:"میں عمر بن خطابؓ کے زمانے میں بیت المال میں ہوتا تھا، جب عطاء(بخشش) نکالی جاتی، تو وہ تاجروں کا مال جمع کرتے اور حساب کرتے موجود کا اور غائب کا، پھر موجود مال سے موجود اور غائب دونوں مالوں کی زکوٰۃ لیتے"اسے ابو عبید نے روایت کیا ہے، اسی طرح ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ :"جو غلام یا یونیفام(کپڑے)تجارت کے لیے ہوں ان میں زکوٰۃ ہے"۔ تجارت میں زکوٰۃ کی فرضیت کی روایت عمرؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ساتوں فقہاء حسن، جابر،طاوؤس، نخعی،ثوری،اوزاعی، شافعی،احمد، ابو عبید، اصحاب رائے اور ابوحنیفہ وغیرہ سے مروی ہے۔

 

سامان تجارت میں زکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب ان کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے۔

تاجر نے اگر نصاب سے کم مال سے تجارت شروع کی اور سال کے آخر میں وہ صاحبِ نصاب ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں؛ کیونکہ نصاب مکمل ہونے کے بعد سال نہیں گزرا، صاحبِ نصاب ہونے کے بعد سال گزرنے پر ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔

اگر تاجر نے نصاب سے زیادہ مال سے تجارت شروع کی مثلاً وہ ایک ہزار دینار سے تجارت شروع کرے اور سال کے آخرتک اس کی تجارت پھل پھول کر تین ہزار دینار کے برابر ہوجائے تو اس پر تین ہزار دینار کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے، صرف اس ایک ہزار پر نہیں جسے تجارت شروع کی تھی؛ کیونکہ اس کی نشونما اسی کے تابع ہے"ختم۔

لہذا تجارتی پلاٹس پر زکوٰۃ مندرجہ بالاطریقے سے ہوگی۔

 

9۔جس وقت آپ صاحبِ نصاب بن جائیں تو اپنے مال کی زکوٰۃ کو مندرجہ ذیل طریقے سے مربوط کر سکتے ہیں:

۔جب نصاب مکمل ہوجائے وہ تاریخ لکھ لیں۔

۔نصاب مکمل ہونے کے بعد ایک ہجری سال مکمل ہو تو اپنے مال کا حساب لگائیں کہ نصاب مکمل ہے یا کہ زیادہ ہے

۔اس تمام مال کی زکوٰۃ ادا کریں جو آپ کے پاس موجود ہے ،صرف اس کی نہیں جو نصاب سے زیادہ ہے یعنی نصاب کے برابر مال کی بھی اور زیادہ کی بھی۔

 

۔پھر ہر سال اسی تاریخ کو اپنے مال کا حساب لگائیں اور زکوٰۃ ادا کریں چاہے اس میں جتنا بھی اضافہ ہوجائے۔

10۔ اگر صاحب نصاب بننے کی تاریخ یاد نہ رہے تو اندازہ لگایا جائے گا مگر اندازہ لگاتے ہوئے مستحقین زکوٰۃ کے فائدے کو پیش نظر رکھا جائے گا کیونکہ مال میں ان کا حق صاحبِ مال کے حق پر مقدم ہے۔۔۔ یعنی اگر تاریخ محرم اور شعبان کے درمیان ہو تو شعبان کی بجائے محرم سے حساب کریں کیونکہ یہ اللہ کے دین کے حوالے سے زیادہ احتیاط پر مبنی ہے۔

 

اللہ سے دعاہے کہ یہ وضاحت کافی ہو

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو رَشتہ

27جمادی الآخرۃ1439

بمطابق 15/3/2018

Last modified onاتوار, 31 جنوری 2021 13:55

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.