Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

آیا صوفیا میں نماز کی واپسی اور خلافت کی واپسی کے لیے آوزیں بلند ہونا!


سوال:

ہمیں معلوم ہے کہ محمد الفاتح ؒ نے جب قسطنطنیہ کو فتح کیا تو آیا صوفیا (Hagia Sophia)کے کلیسا کو مسجد بنایا۔۔۔یہ بھی جانتے ہیں کہ  مصطفی کمال اتاترک لعنۃ اللہ نے آیا صوفیا کی مسجد کو عجائب گھر بنادیا۔۔۔سنہ 2013 میں اردوگان نے مسلمانوں کی جانب سے آیاصوفیا کو دوبارہ مسجد بنانے کے مطالبے کو مسترد کردیا۔۔۔پھر اس سال  اردوگان کے حکم سے  ترک سپریم کورٹ نے آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد بنانے کا  فیصلہ صادر کیا۔۔۔پھر 24 جولائی 2020کو یہاں جمعہ کی نماز ادا کی گئی،  اس کی دیواروں پر موجود تصاویر کو صرف نماز کے وقت ڈھانپا جائے گا۔   کیا اس طریقہ کارسے نماز کی ادائیگی درست ہوگی؟ دوسری بات یہ ہے کہ یہ تصاویر کہاں سے آئیں، آیاصوفیا تو 500سال سے صاف ستھری مسجد رہی ہے؟! محمد الفاتح کی جانب سے آیاصوفیا کو فتح کرنے کے حکمِ شرعی کےحوالے سے بھی ہمارے ذہنوں میں کچھ الجھن ہے۔ ہم امید کرتے ہیں اور آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ  مفتوحہ علاقوں میں کفار کی عبادت حانوں کا شرعی حکم بیان کریں گے تاکہ ہمارے دل مطمئن ہوں، آپ کا شکریہ  اور مہربانی۔


جواب:
ان سوالوں کے جواب کی وضاحت کے لیے ہم متعلقہ امور کو زیربحث لائیںاورساتھ ہی اس کا شرعی حکم بیان کریں گے۔ اللہ کی توفیق سے ہم کہتے ہیں کہ:


اول: اس سے قبل7 جمادی الاول 1441 ہجری کوہم نے 1453ءبمطابق 857 ہجری میں قسطنطینیہ کی فتح کی یاد کی مناسبت سےاپنے بیان میں یہ بات کی تھی:

(۔۔۔محمد الفاتح نے 26 ربیع الاول کو قسطنطنیہ پر حملہ اور اس کا محاصرہ شروع کیا، پھر 20 جمادی الاول 857 ہجری منگل کی صبح کو اسے فتح کیا، یعنی تقریباً دو مہینے محاصرہ جاری رہا۔ جس وقت محمد الفاتح فاتح کے طور پر شہر میں داخل ہوئے تو وہ گھوڑے سے اترے اوراس کامیابی اور فتح پر سجدہ شکر ادا کیا، پھر "آیا صوفیا"کے کلیسے کا رخ کیا جہاں بزنطینی قوم اور ان  کے راہب جمع تھے، ان سب کو امان دی، اس کے بعد "آیا صوفیا" کلیسا کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا، اس کے بعد جلیل القدر صحابی ابو ایوب انصاری ؓ کی قبر کے احاطے کو مسجد بنانے کا حکم دیا جو  قسطنطنیہ کی فتح کی پہلی مہم میں شریک تھے۔۔۔محمد الفاتح، جن کو اس فتح کے بعد ہی فاتح کا لقب دیا گیا، نے سابقہ دارالحکومت ادَرنہ کی جگہ قسطنطنیہ کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر اس شہر کا نام تبدیل کرکے اس کو "اسلام بول" اسلام کا شہر یا "دار الاسلام" کا نام دیا جو بعد میں "استنبول" کے نام سے مشہور ہوا۔  شہر میں داخل ہونے کے بعد آیا صوفیا کا رخ کیا اور وہاں نماز ادا کی اور اللہ کے فضل ومہربانی سے یہ مسجد بن گئی۔۔۔

 

یوں رسول اللہ ﷺ کی وہ بشارت درست ثابت ہوئی جس کا ذکر عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی حدیث میں ہے کہ : جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھ کر لکھ رہے تھے، آپ سے سوال کیا گیا کہ قسطنطنیہ اور روم میں سے کونسا شہر پہلے فتح ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  

«مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلاً، يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ»"

ہرقل کا شہر پہلے فتح ہوگا یعنی قسطنطنیہ"۔

اس کو احمد نے اپنے مسند میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ "شیخین کی شرط پر صحیح حدیث ہے مگر انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی، ذھبی نےتلخیص میں اس پر یہ کہہ کر تبصرہ کیا ہے کہ"مسلم اور بخاری کی شرط پر" ، اسی طرح عبد اللہ بن بشر الختعمی نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ،

«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»

"تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے  وہ امیر کیا ہی بہترین امیر ہوگا اور وہ فوج کیا ہی بہترین فوج ہوگی"۔

راوی کہتا ہے کہ مسلمہ بن عبد الملک نے مجھے بلا کر اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے یہ حدیث سنائی اور اس نے پھر قسطنطنیہ پر حملہ کردیا، اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ مجمع الزوائد میں اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیاہے"اس کو احمد، بزار اورطبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں"۔۔۔یوں یہ فتح اُس نوجوان کے ہاتھوں ہوئی جس کی عمر21سال سے زیادہ نہیں تھی مگر ان کی بچپن سے زبردست تیاری و تربیت ہوئی تھی، ان کے والد سلطان مراد دوئم نے ان پر بھر پور توجہ مرکوز کی تھی، انہوں نےسلطان محمدکو اُس زمانے کے بڑے اساتذہ سے تربیت دلائی۔۔۔جن میں سے "آق شمس الدین سنقر " بھی شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے بچپن سے ہی  قسطنطنیہ کی فتح کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو ان کے ذہن میں بٹھایا۔ اسی لیے یہ نوجوان بڑا ہورہا تھا تو اس فتح کے حصول کی آرزو کے ساتھ کہ یہ اس کے ہاتھوں ہو۔۔۔اللہ نے اس پر اپنا فضل و احسان کیا، آپؒ کے حق میں رسول اللہ ﷺ کی تعریف درست ثابت ہوئی اورآپ ہی فاتح قائد بن گئے۔۔۔)۔


دوسرا: اُس وقت سے ہی آیا صوفیا  عظیم اسلامی مسجد ہے جس کا مسلمانوں کے ہاں بلند مقام ہے۔محمد الفاتح اور ان کے زمانے کے ماہرین فن نے اس کی دیواروں پر غیر اسلامی تصاویر کو مٹادیا ، اورجن تصاویر کو مٹانا مشکل تھا انہیں رنگ یا کسی اور چیز سے دھندلا کردیا۔ تب سے یہ ایک پاک صاف مسجد بن گئی جہاں مسلمان نماز ادا کرنے اور اس کامیابی اور فتح مبین پر اللہ کا شکر ادا کرنے لگے۔۔۔یہ سلسلہ اسی طرح جاری وساری تھا یہاں تک کہ عہد ساز مجرم مصطفی کمال اتاترک نے24 نومبر1934 کو اپنے ایک منحوس فیصلے کے ذریعے اس کو عجائب گھر بنادیا۔۔۔اس سے قبل 1930 میں ہی ملعون نے مسجد کو بند کردیا تھا]1930 سے 1935 تک آیا صوفیا کو نمازیوں کے لیے مرمت کا بہانہ بنا کر بند کردیا گیا جو جمہوریہ ترکی کے بانی اتاترک ملعون کے حکم سےہوا تھا۔مرمت کے دوران اس میں  مختلف تبدیلیاں کی گئیں۔۔۔اس کے بعد11 اپریل1934 کو پارلیمنٹ کی قرار داد کے ذریعے اسے مسجد سے عجائب گھر بنایا گیا۔(اناتولیہ نیوز ایجنسی 11/7/2020aa.com.tr/ar/190  )[

 

یعنی اتنے عرصے مسجد کو بند رکھا گیا اس لیے یہ بعید از امکان نہیں کہ اس دوران مغرب سے کسی کو بلا کر اس کی دیواروں میں یہ نقش ونگار اور تصاویر بنائی گئیں اورپھر 1935 میں مذکورہ فیصلے کے ذریعے اس مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کا اعلان کیاگیا جس کا مقصد لوگوں کو یہ باور کرانا تھا کہ یہاں نصرانی آثار اور تصاویر ہیں۔۔۔! اس سے قبل مصطفیٰ کمال 1342ہجری بمطابق 1924 عیسوی میں خلافت کو منہدم کرنے کا جرمِ عظیم انجام دے چکاتھا۔ کمال نے خلافت کی بحالی کی دعوت کے خلاف وحشیانہ جنگ شروع کی، اسی طرح آیا صوفیا مسجد کی بحالی کی دعوت کو وحشیانہ طریقے سے کچلا۔۔۔اس کے باوجود مسلمانوں کی آیا صوفیا مسجد کی بحالی کے شوق میں کمی نہیں آئی۔ المدن ویب سائٹ نے26 مارچ2019 کو رپورٹ شائع کی کہ ]ترکوں کی بڑی تعداد آج بھی آیا صوفیا مسجد کی بحالی کی راہ دیکھ رہی ہے۔(27 مئی 2012 کو محمد الفاتح کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کے559 ویں سالگرہ کے موقع پر ہزاروں مسلمانوں نے آیاصوفیا میں نماز پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کے سامنے میدان میں نماز ادا کی ، اس دفعہ احتجاج کرنے والے نعرے لگا رہے تھے"بیڑیاں توڑ دو ۔۔۔آیا صوفیا کو کھول دو۔۔۔اسیر مسجد کو آزاد کرو") احتجاج کرنے والوں کے عزائم بلند تھے مگروزیراعظم اردوگان نے 2013 میں احتجاج کرنے والے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا وہ کبھی آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد بنانے پر غور نہیں کرے گا۔۔۔المدن وئب سائٹ)[۔

 

تیسرا: اردوگان کا نقطہ نظر 31 مارچ2019 کو ترکی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران بدل گیا، جب اس نے اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کا مشاہدہ کیا اور بھانپ لیا کہ  خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور اپنی مقبولیت میں اضافے کےلیے آیا صوفیا کو دوبارہ  مسجد بنانے سے پارلیمانی انتخابات میں زیادہ ووٹ ملیں گے اس لیے انتخابی مہم کے عروج پر :]صدر اردوگان نےجمعہ کے دن کہا کہ ہفتے کے دن کےانتخابات کے بعد استنبول کا"آیا صوفیا" عجائب گھر سے دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونا چاہیے۔ اگلے دن ہفتے کو ترکی میں بلدیاتی انتخابات تھے؛ 2014 کی طرح "جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی" انتخابات جیت رہی ہے۔۔۔الجزیرہ نیٹ 30 مارچ 2019 [۔ جبکہ مسلمان یہ جانتے ہیں کہ آیا صوفیا کا دوبارہ مسجد بننا اسلام سے، اسلامی ریاست سے، خلافت سے مربوط  ہے۔آیاصوفیا خلافت کی نمایاں مسجد تھی، یہ کامیابی اور فتح مبین کی نشانی تھی، صادق اور امین رسول ﷺ کی بشارت کے پورا ہونے کی نشانی تھی۔۔۔سچے مومن یہی چاہتے ہیں: یہ خلافت کے سائے تلے آئے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے سائے تلے آئے، نہ کہ  لبرل اور من گھڑت نظام کے سائے تلے رہے! یہی وجہ ہے کہ اردوگان کی پارلیمانی انتخابی مہم سے آیاصوفیا دوبارہ مسجد نہیں بنی، اسی لیے وہ استنبول اور انقرہ جیسے اسلام کے دو عظیم شہروں میں ہارگیا، وہ بھی کس کے مقابلے میں؟ نیشنل پارٹی کے مقابلے میں،  جو کہ مصطفی کمال کی باقیات ہیں جس نے آیا صوفیا مسجد کو عجائب گھر بنایا تھا!! لوگ ان پارٹیوں کے درمیان فرق نہیں کرتے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی آیا صوفیا کو خلافت کے سائے تلے لانا نہیں چاہتی!

 

چوتھا: اردوگان یہ نہیں سمجھ سکا کہ آیا صوفیا مسجد کا بحال ہونا خلافت کے بحال ہوئے بغیر با آور ثابت نہیں ہوگا اور نہ ہی خلافت کے بغیر اس کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوگی۔ اس نے اگرچہ انتخابات کے نتائج میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر وہ اسی راہ پر گامزن رہا! اسی طرح اس کے حکم اور رغبت سے ترک سپریم کورٹ نے10 جولائی2020ء کواستنبول کی آیا صوفیا مسجد کو دوبارہ عجائب گھر سے مسجد بنانے کا فیصلہ صادر کیا مگر اس کے خلافت کی دوبارہ واپسی سے منسلک ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا، اور پھر24 جولائی2020 کو لبرل نظام اور خودساختہ قوانین کی موجودگی میں ہی آیا صوفیا میں نماز جمعہ ادا کی گئی!!

 

نماز کی ادائیگی نے مسلمانوں کی خلافت کی واپسی اور آیاصوفیا کے دوبارہ مسجد بننے کے شوق کو واضح کیا جیسا کہ وہ 500 سال تک مسجد رہی تھی، پس مسلمان بہت خوش تھے جیسا کہ خطیب علی ارباش، جو کہ ترکی کے مذہبی امور کے وزیر بھی ہیں، نے 90 سال بعد آیاصوفیا میں نماز کی بحالی پر کہا: ]اس تاریخی دن یہاں جمع ہونے پر ہم اپنے رب عزوجل کا بہت حمد وثنا کرتے ہیں اور درود سلام بھیجتے ہیں رسول اکرم ﷺ پر جنہوں نے ہمیں  خوشخبری دی تھی کہ،

«لَتُفتَحَنَّ القُسْطَنْطينيَّةُ؛ فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»

..."تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، کیا بہترین امیر ہوگا وہ امیر اور کیا بہترین فوج ہوگی وہ فوج"۔۔۔

اور سلام ہو ان صحابہ کرامؓ پر جو اس بشارت کا حق دار بننے کےلیے اللہ کی راہ میں نکلے اور ان کے پیشرو ابو ایوب انصاری ؓ جنہیں استنبول شہر کا معنوی بانی سمجھا جاتاہے، ان کی راہ پر چلنے والے تمام لوگوں پر اللہ کی رحمت ہو، ہمارے شہداء پر، ہمارے جنگجوؤں پر، جنہوں نے انا طولیہ کو ہمارا وطن بنایا اور اس کا دفاع کیا جہاں ہم امن سے رہ رہے ہیں۔

 

سلامتی ہو"آق شمس الدین" پر  جو کہ صاحب علم اور حکمت تھے جنہوں نے محمد الفاتح کے دل پر فتح  کی محبت کو نقش کیا، جنہوں نے یکم جون 1453 کو مسجد آیا صوفیا میں پہلی نماز کی امامت کی اور سلام ہو اس ذہین نوجوان سلطان محمد خان فاتح پر۔۔۔ جو اللہ کے فضل اور مہربانی سے استنبول کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا۔۔۔ سلام ہوبڑے ماہرفن معمار سنان پاشا پرجس نے آیا صوفیا کے میناروں کو مزین کیا۔۔۔

یقیناً آیا صوفیا فتح کی نشانی اور فاتح کی امانت ہے۔ سلطان محمد خان الفاتح نے اسے وقف کیا، اسے مسجد بنا کر تا قیامت وقف قرار دیا، اپنے عہد میں ہی اسے مومنوں کے لیے چھوڑ دیا، ہمارے عقیدے کے مطابق وقف املاک پر دست درازی جائز نہیں ،اس وقت وقف کرنے والے کی شرط ہی درست ہے جس نے اپنی ملکیت کو وقف کیا تھا، اس میں دست درازی کرنے والے پر لعنت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیا صوفیا اس وقت سے آج تک نہ صرف ہمارے ملک کی مقدس امانت ہے بلکہ یہ امت محمدﷺ کی مقدس امانت ہے۔۔۔۔ aa.com.tr/ar/192  24/7/2020 اناتولیہ استنبول)۔[

 

پانچواں:  مسلمانوں کے اندر اسلام ایک بار پھر انگڑائیاں لینے لگا خاص کر جب انہوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے بارے میں سنا، اسی چیز نے آیا صوفیا کو مسجد بنایا اور استنبول اور اس کی مسجد 500سال تک خلافتِ عثمانیہ کا مرکز بنے رہے۔  یہی وجہ ہے کہ  مسلمانوں کے اندر خلافت کے متعلق جذبات میں حرکت پیدا ہوگئی ، بلکہ بعض ذرائع ابلاغ نے اعلانات کیےجیسا کہ میگزین"جیرشیک حیاۃ- حقیقی زندگی"میں آیا،شرق الاوسط نے منگل 7ذوالحجہ 1441 ہجری بمطابق 28 جولائی 2020 کو ذکر کیا کہ:]اس دوران جیرشیک حیاۃ- حقیقی زندگی میگزین Gerçek Hayat (Real Life) Magazineنے پرسوں اپنے نئے شمارے کےسرورق پر براہ راست ترکی میں خلافت کے دوبارہ قیام کے اعلان کی دعوت دی۔ میگزین نے اپنے سرورق پر عربی میں یہ عبارت شائع کی"اب نہیں تو کب؟"[۔ اردوگان کو اس دعوت کا مثبت جواب دینا چاہیے تھا مگر اس کی پارٹی کے ترجمان اس کے خلاف بیان دیا:]انقرہ(ترک زمان اخبار) - ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے ترجمان نے آیاصوفیا مسجد کے افتتاح کے بعد خلافت کے قیام کے اعلان کی دعوت کو مستردکیا۔ جبکہ میگزین جیرشیک حیات- حقیقی زندگی نے اپنے شمارے کے سرورق پر خلافت اسلامیہ کی احیاء کی دعوت دی تھی۔ شالیک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی ایک قانونی جمہوری لبرل اور اجتماعی ریاست ہے،  ترکی میں سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کی باتیں غلط ہیں۔۔۔پھر کہا"میں آزادی کی جنگ کے قائد اور جمہوریہ ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفیٰ کمال اتاترک اور اسی طرح جنگِ آزادی کے تمام قائدین کو سلام پیش کرتاہوں۔  ہم اپنے ماہر صدر کی قیادت میں اپنی عوام کی خواہشات کے مطابق محفوظ اور راسخ اقدامات کرتے رہیں گے۔ہماری دعائیں اپنی عوام کے ساتھ ہیں اور ہمارا ہدف متحد ملک ہے،جمہوریہ ترکی زندہ باد۔۔۔"(زمان ترکی اخبار27/7/2020 )[۔ یوں حکمران جماعت کے ترجمان نے یہ انکشاف کیا کہ معاملہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ فانی دنیا کے مفادات کےلیے ہے!

 

اس طرح معاملات کو سرانجام نہیں دیا جاتا اے جمہوریہ ترکی کے صدر! اگر چہ ہر مسلمان آیا صوفیا کے دوبارہ مسجد بننے پر خوش ہے مگر ہر سچا مسلمان  اس کو  محمد الفاتح کی طرح کامیابی اور فتح  مبین کی علامت بنانا چاہتا ہے،خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ روشن چنگاری ہے، جو کہ اسلامی خلافت تھی۔  ہر سچا مسلمان رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا ہے کہ اس مسجد پراسی طرح اسلامی پرچم لہرائے جس طرح  500سال تک خلافت کا پرچم لہراتا رہا،نہ کہ آیا صوفیا مسجد کی بحالی  بلدیاتی یا پارلیمانی انتخابات میں کامیابی جیسے فانی دنیاوی مفاد کے لیے ہو! جس پر اسی طرح لبرل ازم اور خودساختہ قوانین کا پرچم لہراتا رہے جس سے مسلمانوں کے مفادات کی بجائے کافر استعماریوں کے مفادات کی حفاظت ہو!

 

چھٹا: جہاں تک اس بات کا تعلق ہے جو سوال کے آخر میں آیا ہے"محمد الفاتح کی جانب سے آیا صوفیا کو فتح کرتے وقت اس کے حکم شرعی کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں کچھ الجھن ہے، جس کی ہم امیدکرتے ہیں اور آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ مفتوحہ علاقوں میں کفار کے عبادات خانوں کے شرعی حکم کے حوالے سے وضاحت کریں، تاکہ جواب سے ہمارے دل مطمئن ہوں۔۔۔"

 

میرے بھائی شرعی حکم کے حوالے سے الجھن درست نہیں، خواہ اس کے بعض فروع کے حوالے سے مسلمان فقہاء کے ہاں مختلف آراء بھی ہوں وہ ان کے نزدیک راجح شرعی دلائل کی بنیاد پر ہے جن سے استدلال ان کے نزدیک درست ہے، اس لیے اس میں کوئی الجھن نہیں۔۔۔
یہ مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ فقہاء نے پہلے ہی اس پر بحث کی ہوئی ہے ان پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے:

 

مفتوحہ علاقے مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک قسم کے تحت آتے ہیں:

1۔ جس علاقے کا منصوبہ ہی مسلمانوں نے بنایا اور اس کو آباد کیا جیسے کوفہ، بصرہ اور واسط وغیرہ،  ایسے شہر میں کلیسا  یا بیعہ(یہودی عبادت گا)بنانا ہی جائز نہیں، جہاں تجارت۔۔۔الخ کےلیے آنے والے ذمیوں کو شراب پینے، خنزیر رکھنے کی اجازت ہی نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ وہ دار الاسلام ہے جس کو آباد ہی مسلمانوں نے کیا ہے۔۔۔ اور ایسا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی وجہ سے ہے کہ:

«لا تُبْنىَ بيعةٌ في الإسلام ولا يجدد ما خرب منها»

"اسلام میں گرجا گھر نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی جو ویران ہو چکا ہو اس کی تجدید نہیں کی جاسکتی ہے"۔

 

اس کو علاء الدین البرھان  پوری (متوفی 975ہجری)نےکنزل اعمال فی سنن الاقوال والافعال میں ابن عساکر سے ،انہوں نے عمر سے روایت کیا ہے، اسی طرح سیوطی نے اسے جامع الکبیر میں روایت کیا ہے، ابنِ عباس کے حوالے سے عکرمہ نے روایت کیا ہے کہ:

«أَيُّمَا مِصْرٍ مَصَّرَتْهُ الْعَرَبُ فَلَيْسَ لِلْعَجَمِ أَنْ يَبْنُوا فِيهِ بِنَاءً، أَوْ قَالَ: بِيعَةً»

"جس جگہ کو عرب(مسلمان) آباد کریں تو عجمیوں(یعنی غیر مسلموں)کو وہاں کوئی عمارت بنانے کی اجازت نہیں، یا انہوں نے کہا کہ کوئی بیعہ(گرجا گھر) بنانے کی اجازت نہیں"۔

اسے ابنِ ابی شیبہ نے اپنی کتاب 'مصنف' میں روایت کیا ہے۔

 

2۔جس علاقے کو مسلمانوں نے صلح سے فتح کیا ہو وہاں کے صومعوں(مندروں) اور کلیساوں (گرجا گھروں) کا حکم وہی ہے جس پر صلح ہوئی ہو، بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ ویسا ہی معاہدہ کیا جائے جیسا کہ خلیفہ راشد عمرؓ نے 15ہجری بمطابق 638 عیسوی میں ایلیا(القدس) والوں کے ساتھ"عہد عمری" کے نام سے اس وقت کیا جب مسلمانوں نے اس کو فتح کیا۔

 

3۔جس علاقے کو مسلمانوں نے بزور قوت فتح کیا ہو وہاں غیر مسلم کوئی بھی نئی چیز تعمیر نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مسلمانوں کی ملکیت بن چکی ہے، فتح سے قبل جو موجود ہو اس کی دو صورتیں ہیں:

ایک یہ کہ مسلمانوں نے اس علاقے کو بزور قوت فتح کیا اور وہ مسلمانوں کی ملکیت بن گئی، یعنی دارالاسلام، اس لیے وہاں بیعہ یا کلیسا کا ہونا جائز نہیں یہ اس شہر کی طرح ہے جس کو مسلمانوں نے بسایا ہو۔

 

دوسرا یہ کہ ان کی عبادت گاہوں کو باقی رکھا جائے کیونکہ ابن عباس ؓ کی حدیث میں ہے کہ جس کو ابن ابی شیبہ نے  اپنے مصنف میں روایت کیا ہے:

«أَيُّمَا مِصْرٍ مَصَّرَتْهُ الْعَجَمُ يَفْتَحُهُ اللَّهُ عَلَى الْعَرَبِ وَنَزَلُوا يَعْنِي عَلَى حُكْمِهِمْ فَلِلْعَجَمِ مَا فِي عَهْدِهِمْ...»

"جس علاقے کوعجم(غیرمسلم)نے بسایا ہو اور پھر مسلمان اس کو فتح کریں، عجم کے ساتھ جو عہد ہوا اسی کی پابندی کی جائے گی۔۔۔"۔

 

یوں جس علاقے کو مسلمان بزور قوت فتح کریں اس کے حوالے سے اختیار فاتح کا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے مفادات اور  مسلمانوں اور اہل ذمہ  کے امور کی دیکھ بھال  کو پیش نظر رکھ کرفیصلہ کرے۔۔۔چونکہ قسطنطنیہ کا موضوع بزور قوت فتح کے باب میں داخل ہے اسی لیے  مزید اطمینان کے لیے میں بعض فقہاء کے آراء نقل کرتا ہوں:

 

ا۔ محمد شربینی (متوفی977 ہجری) کی کتاب "مغنی المحتاج الی معرفۃ الفاظ المنھاج"جو کہ نووی( متوفی 676 ہجری)کی منھاج الطالبین کے متن کی شر ح ہے ،میں آیا ہے کہ :

"ہم ایسے علاقے میں انہیں کلیسا بنانے سے روکیں گے جسے ہم نے آباد کیا یا اس کے باشندے اسلام قبول کرچکے، جس علاقے کو بزور قوت فتح کیا گیا ہووہاں ان کو نئے  عبادت خانے بنانے کی اجازت نہیں ہوگی، جو کلیسا پہلے سے موجود ہو ،صحیح قول کے مطابق اس کو نہیں ڈھایا جائے گا۔ اسی طرح جو علاقہ اس شرط پر صلح سے فتح ہوا ہو کہ زمین ہماری ہے انہیں رہنے کی اجازت ہے ان کے کلیسا باقی رہیں گے یہ جائز ہے،  اگر صلح مطلق(غیر مشروط) ہو تو صحیح قول کے مطابق ان کو نئے عبادت خانے بنانے سے روکا جائے۔ اگر ان کو (صلح کے معاہدے میں)اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہو تو صحیح قول کے مطابق انہیں بنانے دیا جائے گا"۔


تشریح: (ہم ان کو روکیں گے) فرض ہے(نئے کلیسا بنانے سے)، راہبوں کے لیے بیعہ اور صومعہ بنانے سے،  اور مجوسیوں کے لیے آتش کدہ بنانے سے(اس شہر میں جس کو ہم مسلمانوں نے بسایا ہو)۔۔۔(یا) اس (شہر میں جس کے رہنے والوں نے اسلام قبول کیا ہو)۔۔۔(اور جو علاقہ (بزور قوت فتح کیا گیا ہو) جیسے مصر، اصفہان، مراکش (وہاں نئے عبادت خانے نہیں بنا سکتے)؛  کیونکہ اس کو فتح کرکے مسلمان اس کے مالک بن گئے اس لیے وہاں کلیسا بنانے سے روکا جائے گا، جس طرح نیا بنانا جائز نہیں ویسے ہی پرانے کی مرمت بھی جائز نہیں( صحیح قول کے مطابق پرانے کلیسا کو بحال نہیں کیا جائے گا) جیسا کہ گزر گیا۔۔۔دوسرا قول یہ ہے کہ بحال رکھا جائے گا؛ ممکن ہے مصلحت کا تقاضا ہو اور اختلاف فتح کے موقعے پر ہونے والے معاہدے کے حوالے سے ہے۔۔۔)۔

 

ب۔کمال الدین المعروف ابنِ ھمام (متوفی 861 ہجری)کی فتح القدیر میں ہے(فقہ حنفی):

]دوسرا یہ کہ جس علاقے کو مسلمان بزور قوت فتح کریں وہاں بالاجماع کوئی نئی چیز بنانا جائز نہیں، جو پہلے سے موجود ہو کیا اس کو منہدم کرنا جائز ہے؟ ایک قول کے مطابق مالک اور شافعی اور احمد کی ایک روایت کے مطابق اس کو گرانا فرض ہے۔  ہمارے نزدیک ذمہ داری خود ان پر ڈالنی چاہیے کہ وہ  اپنے کلیساوں کو رہائش گاہ بنالیں، انہیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی مگر ان کو گرایا بھی نہیں جائے گا، یہ شافعی کا بھی قول ہے اور اور احمد سے بھی روایت ہے کیونکہ صحابؓہ نے بہت سارے علاقوں کو بزور قوت فتح کیا مگر کسی کلیسا یا نہ کسی صومعےکو منہدم کیا، ایسی کوئی روایت موجودنہیں[۔


ج۔ ابن قدامہ (متوفی 620 ہجری) کے المغنی میں آیا ہے کہ:

(دوسری قسم وہ علاقہ ہے جس کو مسلمان بزور قوت فتح کریں تو وہاں کسی قسم کی نئی عبادت گاہ کی تعمیر جائز نہیں؛ کیونکہ یہ مسلمانوں کی ملکیت بن گئی ہے،جو پہلے سے موجود ہو اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کا انہدام واجب ہے اس کو باقی رکھنا حرام ہے کیونکہ یہ علاقہ اب مسلمانوں کی ملکیت ہے، یہاں بیعہ(گرجا گھر) ہونا جائز نہیں یہ اس علاقے کی طرح ہے جس کو مسلمانوں نے بسایا ہوا)۔

دوسرا قول یہ ہے کہ جائز ہے؛ کیونکہ ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ،

«أَيُّمَا مِصْرٍ مَصَّرَتْهُ الْعَجَمُ، فَفَتَحَهُ اللَّهُ عَلَى الْعَرَبِ، فَنَزَلُوهُ، فَإِنَّ لِلْعَجَمِ مَا فِي عَهْدِهِم»

" جس علاقے کو عجمیوں نے آباد کیا ہو پھر مسلمان اسے فتح کریں تو عجمیوں کے ساتھ جو معاہدہ ہو اس کی پاسداری کی جائے گی"۔
ساتواں: پس سوالات کے مختصر جوابات یہ ہیں:

1۔ اگر صلح سے علاقہ فتح ہوجائے تو صلح کی شرائط پر عمل کیا جائے گا، اس میں بہتر وہی ہے جو القدس کی فتح کے بعد عہدعمری میں کیا گیا۔۔۔


2
۔ جو علاقہ بزور قوت فتح کیا جائے اس کے حوالے سے اختیار فاتح مسلمان حکمران کا ہے، چاہے وہ ان کی عبادا ت کی جگہوں کو باقی رکھے یا منہدم کرے وہ اسلام اور مسلمانوں کے مفادات اور اسلام کی مصلحت کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں اور ذمیوں کے امور کی دیکھ بھال کومد نظر رکھ  کر اپنی صوابدید فیصلہ کرے گا۔

 

3۔ اسی لیے محمد الفاتح رحمہ اللہ رضی اللہ عنہ نے آیا صوفیا کو جو مسجد بنایا، یہ اس کے اختیارات میں شامل تھا کیونکہ علاقہ بزور قوت فتح کیا گیا تھا۔


4
۔ ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ محمد الفاتح نے روم کے آرتھوڈکس پوپ کو قیمت ادا کرکے آیا صوفیا کو خرید کر مسجد میں تبدیل کیا جو کہ ذمیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی نشانی ہے، یعنی استنبول کے نصاریٰ کے ساتھ حسن سلوک کا ثبوت ہے۔ ان روایات کے مطابق تاریخی دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سلطان (محمد ثانی)المعروف(محمد الفاتح) نے مذکورہ قیمت( ریاستی اموال سے نہیں بلکہ) اپنے ذاتی مال سے اپنے نام سے خریدا اور اپنی ذاتی ملکیت بنایا،خریدوفروخت اور ملکیت  سے دستبرداری کے معاہدے اس کی توثیق کی گئی، قیمت ادا کرکے اس کی رسید وصول کی گئی،  یہ سب  قسطنطنیہ شہر کی فتح کے بعدخلافتِ عثمانیہ میں اپنے دورِ حکومت میں کیا، پھر اس جائیداد کو "ابو الفاتح سلطان محمد الفاتح" کے نام سے وقف کیا۔ چاہے یہ روایات درست ہوں یا اس میں سوال ہو، جو حکمران اسلام کے ذریعے حکمرانی کرتا ہو کفار کے علاقے کو فتح کرے وہ اس علاقے میں ان کے عبادت خانوں کوباقی بھی رکھ سکتا ہے اور باقی نہ رکھنا بھی اس کے لیے جائز ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا۔۔۔

 

5۔رہی بات دیواروں پر موجود ان تصاویر کی جن پر نماز کے وقت پردہ ڈالا جاتا ہے کیا ایسی صورت میں نماز درست ہے۔۔۔ اگر ان پر پردہ ڈالا گیا ہو تو وہاں نماز درست ہے۔۔۔مگر نماز کے بعد ان کو دوبارہ کھولنا جائز نہیں ایسا کرنے پر حکمران گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔  شرعی حکم یہ ہے کہ مسجد کی دیواروں پر بلکہ ہر جگہ تصویر حرام ہے،  جہاں ملے اس کو  مکمل طور پر ملیامیٹ کیا جائے تا کہ وہ پھر نظر نہ آئے، اس کے دلائل یہ ہیں:

۔بخاری نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ،

«أَنَّ النَّبِيَّ لَمَّا رَأَى الصُّوَرَ فِي الْبَيْتِ "يعني الكعبة" لَمْ يَدْخُلْ حَتَّى أَمَرَ بِهَا فَمُحِيَتْ...»

"جب نبی ﷺ نے بیت اللہ میں تصاویر دیکھی توآپ اس  میں داخل نہ ہوئے اور انہیں ملیامیٹ کرنے کا حکم دیا۔۔۔"اسے ابنِ حبان نے بھی اپنے صحیح میں روایت کیا ہے۔

 

احمد نے اپنے مسند میں جابر بن عبد اللہؓ سے روایت کیا ہے کہ،

«أَنَّ النَّبِىَّ نَهَى عَنِ الصُّوَرِ في الْبَيْتِ وَنَهَى الرَّجُلَ أَنْ يَصْنَعَ ذَلِكَ وَأَنَّ النَّبِىَّ أَمَرَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ زَمَنَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ أَنْ يَأْتِي الْكَعْبَةَ فَيَمْحُوَ كُلَّ صُورَةٍ فِيهَا وَلَمْ يَدْخُلِ الْبَيْتَ حَتَّى مُحِيَتْ كُلُّ صُورَةٍ فِيهِ»  

" نبی ﷺ نے گھر میں تصاویر رکھنے سے منع کیا اور آدمی کو مصوری(مجسمہ سازی) سے روکا۔۔۔ فتح کے دن بطحا سے عمر کو بلا کر ان کو کعبہ میں موجود تمام تصاویر مٹانے کا حکم دیا اور ان کو مکمل مٹانے تک کعبہ میں داخل نہ ہوئے"

اسے بیھقی نے بھی سنن الکبریٰ میں روایت کیا ہے۔

 

اس لیے مسجد یا مصلیٰ میں کسی بھی وقت تصاویر رکھنا منع ہے، نہ کہ نماز کے وقت ڈھانپ کر بعد میں کھولا جائے، ایسا کرنے والا حکمران گنہگار ہے۔


آخر میں میں اللہ سے دعاگو ہوں کہ اللہ مسلمانوں میں سے ان لوگوں کے ہاتھوں جلد سے جلد خلافت کو قائم کرے جو اس کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں تا کہ ان کے ہاتھوں رسول اللہ ﷺ کی تمام بشارتیں پوری ہوں جیسےفلسطین کی یہودی نجاست سے آزادی، قسطنطنیہ کے بعد روم کی فتح، زمین کا اسلام کے نور سے منور ہونا اور اسلام کے پرچم کا تمام پرچموں سے بلند ہونا۔

 

وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُون

"اللہ اپنے امر میں غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے"(یوسف:21)۔

 

یوم عرفہ 1441 ہجری

30 جولائی 2020 عیسوی

امیر حزب التحریر.

Last modified onبدھ, 12 اگست 2020 03:56

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.