الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

  • سوال کا جواب
  • امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات

(ترجمہ)

سوال:

افغان طالبان کے ذرائع نے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد سے دوحہ میں 6 روزہ مذاکرات میں غیر معمولی پیش رفت کی خبر دی ہے اور یہ کہ امریکا معاہدہ ہونے کے 18 ماہ کے اندر اپنے فوجی نکال لے گا۔ اگرچہ بیانات کے مطابق دوحہ معاہدہ فی الحال حتمی نہیں ہے اور فی الحال نافذ العمل نہیں اور مذاکرات کا ایک اور دور اس ماہ 25 فروری کو منعقد ہو گا جیسا کہ رائٹرز نے27 جنوری کو خبر دی۔۔۔ لیکن مرکزی سوال پھر بھی باقی ہے: کیا طالبان اتنے لمبے عرصے کے جہاد کے بعد امریکی جال میں پھنس گئےہیں ؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو یہ کیسے ہوا؟ اور حالات کہاں جا رہے ہیں؟ جزاک اللہ خیر۔

 

جواب:

آغاذ میں، آپ کو میں ایک پچھلے سوال بعنوان "افغانستان میں امریکی حکمت عملی "16 اگست 2017 کا جواب یاد دلانا چاہوں گا جس میں ہم نے بتایا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں فوجی فتح حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور افغانستان کے کافی علاقے طالبان کے کنٹرول میں آ چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایجنٹ افغان حکومت امریکی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور وہ بمشکل دارالحکومت اور کچھ دیگر علاقوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ ہم نے اس سوال کے جواب میں یہ بھی ذکر کیا تھا کہ امریکا یعنی ٹرمپ اپنی افغان پالیسی پر نظرِثانی کر رہا ہے۔ "یہ نظرِ ثانی افغان معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی طرف جا رہی ہے، فوجی اڈوں پرامریکی موجودگی کو کم کرنا اور خطرے کی صورت میں استعمال کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ یہ مشن ISIS(داعش)کے خلاف ہے"۔ اور ہم نے کہا تھا : "طالبان کومائل کرنے کے لیے امریکا دوبارہ پاکستان کے کردار کو بحال کرےگا تاکہ یہ ظاہر کرے کہ پاکستان کی نئی فوجی قیادت طالبان کی طرف نرم اور اس کی خیر خواہ ہے تا کہ طالبان کو کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور افغانستان میں امریکی سیاسی نظام میں اقتدار میں حصہ لینے پر آمادہ کیا جا سکے۔۔۔ جب امریکا نے یہ اس بات کا ادراک کیا کہ افغانستان میں اس کی آپشنز محدود ہیں اور بھارت کے کردارکی آپشن باقی نہیں رہی، تو وہ طالبان سے مذاکرات کی طرف اس امید پر راغب ہوا کہ انہیں افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومت میں شامل کر لے گا اور اس نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لیے پاکستانی حکومت میں موجود اپنے ایجنٹوں کو استعمال کیا۔ لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہو گئیں؛ امریکا فوجی یا سیاسی اعتبار سے افغانستان میں کامیاب نہیں ہو سکا"۔ لیکن امریکا خطے میں اپنے ایجنٹوں پر انحصار کرتے ہوئے مذاکرات کی آپشن کے کامیاب ہونے سے سے مایوس نہیں ہوا، خصوصاً جب افغانستان میں امریکا کو فوجی اور مالی اعتبار سے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے  جس نے اس کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں ہیں۔۔۔۔ افغانستان میں امریکی بحران کے تجزیے سے مندرجہ ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:

 

اول: امریکا بھاری قرضوں میں پھنسا ہواہے جو اس کی معیشت کے لیے خطرہ ہیں جو2008 میں بحران کا شکار ہوئی اورابھی تک اس بحران کے اثرات موجود ہیں۔امریکانے مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں یعنی مسلم ممالک میں تقریباً 7 کھرب ڈالر لگا دیے اور بدلے میں کچھ نہیں پایا، جیسا کہ صدر ٹرمپ نے22جنوری 2017 کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کہا: "مشرق وسطیٰ میں بےوقوفوں کی طرح 7 کھرب ڈالر لگانے کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ملک کی تعمیر کریں!" بی بی سی نے فوربز میگزین سے اقتباس نقل کرتے ہوئے9 جنوری 2016 کو کہا، "افغانستان میں جنگ کی امریکا کو جو قیمت چکانی پڑی وہ 1 کھرب 70 ارب ڈالر ہے اور 2400 امریکی فوجیوں کی موت، دسیوں ہزاروں افراد کا زخمی اور مستقل معذور ہونا اس مالی نقصان  کے علاوہ ہےاور اس انسانی اور مالی نقصان کے باوجود  امریکا ( طالبان )تحریک کو ختم کرنےمیں ناکام ہوا ہے"۔

 

دوئم: طالبان تحریک کو عسکری شکست دینے میں ناکامی کے بعد امریکا نے جان لیا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے علاوہ، بغیر شکست کھائے افغانستان سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ راستہ ہی افغانستان میں امریکی حکمت عملی بن گیا جو کہ امریکی وزارتِ خارجہ کی زلمے خلیل زاد کی افغانستان کے لیےخصوصی ایلچی کے طور پر خصوصی مشن پر 5 ستمبر 2018 کو تعیناتی سے ثابت ہے: "امریکی وزارتِ خارجہ نے ایک پچھلے بیان میں خلیل زاد کی ذمہ داری کا ذکر کیاجو کہ ان امریکی کوششوں میں  ہم آہنگی اور ان کی سمت کا تعین کرنا ہے جن کا ہدف طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے" (ترکی اناتولیہ ایجنسی، 2019/12/1)۔ لہٰذا امریکا نے اسی واحد راستے کو اپنایا تاکہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے مجبور کر سکے۔   امریکا کا افغان جنگ سے نکلنے کا یہ وژن نیا نہیں ہے ۔ امریکا پہلے بھی طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کروانے کی کوشش کر چکا ہے مگر وہ ناکام رہا۔لہٰذا مذاکرات امریکا کے ساتھ شروع ہو گئے، جبکہ وہ چاہتا تھا کہ مذاکرات طالبان اور کابل حکومت کے درمیان ہوں ۔ مگر طالبان نے اس کو مسترد کردیا کیونکہ وہ کابل حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی حکومت  کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ مگر طالبان امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے مان گئے اگرچہ امریکا  ہی کابل حکومت کا بانی ہے۔

 

سوئم: یہ قابلِ غور بات ہے کہ امریکا نے طالبان کو امن مذاکرات پر قائل کرنے کے لیے کینہ  اور چالاکی سے ماحول بنایا۔ اس نے افغانستان اور خطے میں اپنے ایجنٹوں اور افغانستان کے گرد اوروں سے آپریشن کروائے:

 

1۔امریکا نے طالبان کے رہنماوں پر  حملےکیے خصوصاً وہ جنہوں نے مذاکرات کو مسترد کیا تھاا: "امریکی عہدیداروں نے کہا کہ امریکہ نے بروز ہفتہ افغان طالبان لیڈر اختر منصور پر ڈرون حملہ کیا۔۔۔ پینٹاگون نے اس کو امن اور طالبان و حکومت کے درمیان مفاہمت کے لیے رکاوٹ قرار دیا " (دنیا الوطن، 2016/5/22)۔ یعنی یہ کہا گیا کہ منصور اختر کو مذاکرات مسترد کرنے کی وجہ سے ہدف بنایا گیا اور یہ اوباما انتظامیہ کے دور میں ہوا تھا۔ امریکا نے یہی پالیسی ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں بھی جاری رکھی۔ نیٹو کےسپورٹ مشن نے بدھ کو ایک پریس ریلیز میں کہا: "22 جولائی کو افغان خصوصی افواج کی مدد کے لیے صوبہ کپیسہ، تجب ڈسٹرکٹ میں ایک امریکی حملے میں دو طالبان کمانڈر مارے گئے" (روسی سپتنک خبر ایجنسی 2018/7/25)۔ اس کے علاوہ ایک اور واقع میں ایک طالبان کمانڈر کو ہلاک کیا گیا، کرنل ڈیو بٹلر، افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان نے کہا: "ہم کل کیے گئے ایک امریکی حملے کی تصدیق کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں طالبان کمانڈر ملا منان مارے گئے"، اور کہا، "ہم ایک سیاسی حل کی طرف جا رہے ہیں" (سی این این عربی 2018/12/2)۔

 

2۔ ایران نے طالبان کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھایا ۔ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ ایران "امریکہ کی دشمن ریاست" ہے۔ طالبان کے کچھ رہنماؤں نے ایرانی پیشکش کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے کمانڈر ملا اختر منصور کا قتل اس وقت ہوا جب وہ ایران سے واپس آرہے تھے، جو ممکنہ امریکی وایرانی مشترکہ کوشش کا نتیجہ تھا۔ مگر طالبان ایران پر بھروسہ کرتے رہے جبکہ ایران انہیں صرف امریکا کے ساتھ سیاسی حل کی طرف دھکیلتا رہا: "ایران نے کہا کہ افغان طالبان کے وفد نے ایرانی عہدیداروں کے ساتھ  تہران میں اتوار کو مذاکرات کیے، کیونکہ اسلامی جمہوریہ دیگر اسلامی گروہوں کے اثر کو ختم کرنے کے لیے اپنے ہمسایہ ملک میں امن مذاکرات کو فروغ دینا چاہتا ہے"۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسیمی نے پیر کو کہا کہ مذاکرات افغان صدر اشرف غنی کے علم میں تھے اور ان کا مقصد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے قواعد طے کرنا تھا (یورو نیوز، 2018/12/31)۔

 

3۔ قطر نے دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولا، لہٰذا طالبان نے یہ گمان کیا کہ قطر کا اس تحریک کو تسلیم کرنا انھیں مضبوط کرےگا، لیکن قطر نے اعلانیہ یہ کہہ دیا کہ یہ دفتر امریکا کے ساتھ مل کر کھولا گیا ہےتاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکیں۔ قطر نے محاصرہ کرنے والے ممالک کے ساتھ بحران کے وقت کہاتھا ، "سابق سی آئی اے ڈائریکٹر ، ڈیوڈ پیٹریس کے بیانات یہ کہنے کے لیے کافی ہیں کہ دوحہ میں طالبان اور حماس کی ملاقات امریکی حکومت کی درخواست پرہوئی تھی، جو بذاتِ خود یہ ثابت کرتا ہے کہ قطر نے چھپ کر کچھ نہیں کیا، اور یہ سب کے علم میں تھا ۔ حماس اور طالبان کی دوحہ میں موجودگی امریکا کی درخواست پر تھی تاکہ مسئلہ فلسطین اور طالبان کا کوئی حل ڈھونڈ ا جاسکے" (قطری الشرق اخبار 2017/7/4)۔ قطر نے طالبان کو یہ دھوکہ دیا کہ قطر ان کا طرفدار ہے اور طالبان اس جال میں پھنس گئے۔ جیسے جیسے قطر پر محاصرے کے ممالک کا بحران سنگین ہوتا گیا، تو اس نے ٹرمپ انتظامیہ سے بھیک مانگی کہ وہ اس کے پیسے لے کر اس کی حفاظت کرے۔ قطر جو کہ انگریز کا ایجنٹ ہے، امریکہ کے نزدیک ہوتا گیا اور طالبان کو مذاکرات کے لیے اس امید کے ساتھ دھکیلا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس کے بدلے میں سعودی خطرے کوکم کر دے گی۔۔۔ لہٰذا امریکا نے خلیجی ممالک کے درمیان ایک مقابلہ سجا لیا کہ کون طالبان کو امن مذاکرات کی میز  پر بٹھانے کے لیے زیادہ کوشش کرے گا ۔ متحدہ عرب امارات قطر کے مقابلے میں مذاکرات کو اپنے شہر ابوظہبی لانا چاہتا ہے اور سعودی عرب جدہ میں لانا چاہتا ہے۔ رائٹرز نے مذاکرات میں شامل ایک طالبان کمانڈر کا نام نہ ظاہر کرنے کی بنیاد پر بیان نقل کیا: "حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر کے اختلافات نے امن کے عمل کو مکمل تباہ کر دیا ہے"، اس نے کہا، "سعودی ہمیں غیر ضروری طور پر جنگ بندی کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔۔۔" (روسی سپتنک اخبار، 2019/1/14) اور اس مقابلے میں، جس میں اختلاف اور تناقض واضح ہے، طالبان نے اپنے آپ کو تین خلیجی ڈوروں سےمنسلک کرلیا ہے ، جن میں تناقض ہےمگر سمت ایک ہی ہے، یعنی امریکا کے ساتھ مذاکرات۔ سعودی عرب میں امریکی ایجنٹ، قطر اور امارات میں موجود برطانوی ایجنٹوں سے مقابلے میں ہیں کہ امریکہ کی تسلی بخش خدمت کی جائے، لیکن باطل کے اس مقابلے میں طالبان پھنس رہے ہیں تاکہ وہ امریکی مذاکرات کی طرف راغب ہوں جس کا ہدف سیاسی حل ہے۔ برطانیہ نے قطر کے دفاع کے لیےیعنی امریکی اعتاب سے اسے بچانے کے لیے ، قطر کے طریقہ کار  کی مخالفت نہیں کی اور متحدہ عرب امارات کو برطانیہ نے دیگر مقاصد کے لیے امریکی ایجنٹوں کے ساتھ صفِ اول میں کھڑا کیا ہوا ہے۔

 

4۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، جو طالبان کے لیے محورکی حیثیت رکھتا ہے، افغان طالبان کو بے یارومددگارچھوڑ دینے اور فوج کے ذریعے پاکستانی طالبان کے خلاف خوفناک جنگیں کرنے کے بعد، پاکستان نےافغان طالبان کے ساتھ نرمی اختیار کرنی شروع کی اور روابط بڑھائے۔ عمران خان کے25 جولائی 2018 کو بطور وزیراعظم آنے کے بعد اور اس کے بیانات جو طالبان سے قربت ظاہر کرتے ہیں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ طالبان اس پر بھروسہ کریں، یہ جانے بغیر کہ یہ ان کو امریکی مذاکرات پر مائل کرنے کے لیے ایک جال ہے۔ لہٰذا طالبان اس جال میں پھنس گئے یا "اپنے آپ کو اس جال میں پھنسا لیا" اور ایک ہی سوراخ، یعنی پاکستانی حکومتی سوراخ جو صرف امریکی پالیسی نافذ کرتا ہے، سے دوسری بار ڈسے گئے،: پاکستان نے 1996 میں طالبان کا ساتھ دیا تاکہ افغان طالبان کو اقتدار میں لایا جائے، اور پھر چھوٹے بُش کے 2001 کے حملے کے سامنے انھیں بے یارومددگار چھوڑ دیایہاں تک کہ پاکستان میں طالبان کا پیچھا کر کے امریکا کے حملے میں حصہ لیا۔۔۔ اب جب امریکا طالبان کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور مذاکرات پر واپس آنے کو واحد راستہ سمجھ رہا ہے تا کہ افغانستان کے مسئلہ کو حل اور وہاں پر اپنے اثرورسوخ کو برقرار رکھ سکے، تو اسلام آباد نے طالبان کےساتھ اپنے پرانے روابط استوار کیے، لیکن صرف اس مقصد کے لیے کہ نئی امریکی حکمت عملی کو نافذ کیا جائے اور افغانستان میں امریکی اثر وسوخ کو قائم رکھا جائے۔ لہٰذا طالبان پھر اسی کنویں میں گر گئے! اگر چہ معاملات واضح ہیں اور ڈھکے چھپے نہیں: پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے پیر کو کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان امن معاملے پر اس کی مدد مانگی ہے، جیو نیوز نے خان کا بیان چلایا کہ اسے "امریکی صدر سے ایک خط موصول ہوا جس میں امریکا نے پاکستان سے افغان امن مذاکرات میں کردار ادا کرنے کو کہا اور یہ کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کی جائے" (روسی سپتنک خبر ایجنسی 2018/12/3)۔

 

اور پھردو دن بعد پاکستانی وزیراعظم نے امریکی خصوصی ایلچی خلیل زاد سے اسلام آباد میں ملاقات کی تاکہ افغانستان میں امریکی منصوبے میں پاکستانی پیش رفت پر زور دیا جائے، "اپنے حصے کا کام کرنے کے لیے "، عمران نے کہا، "پاکستان افغانستان میں امن اور مفاہمت کے لیے ایک سیاسی حل چاہتا ہے" (مسراوی 2018/12/5)۔ منگل کو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس کا ملک افغان امن مذاکرات کو آگے لے جانے کی بھرپور کوشش کرے گا، مزید کہا کہ اس کے ملک نے ابوظہبی میں طالبان اور امریکہ کے درمیان حالیہ مذاکرات میں بھی کردار ادا کیا (الیوم7 2018 /12/18)۔ عمران نے خود19 نومبر 2018 کو اپنے ٹویٹر پراپنی امریکی خدمات کا اعتراف کیا، اس نے کہا: "پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا، پاکستان نے 75 ہزار افراد کی جان کی قربانی دی اور معیشت نے 123 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان برداشت کیا جبکہ امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر تھی"۔ پاکستان کے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی پاکستانی حکمرانوں کی غداری کا اعتراف کیا، اور وہ خود بھی انہی میں سے ہے، اس نے19نومبر 2018 کو اپنے ٹویٹر پر کہا: "پاکستان ابھی بھی امریکا کے لیے خون کی قربانی دے رہا ہے کیونکہ ہم وہ جنگیں لڑ رہے ہیں جو ہماری نہیں ہیں، ہم نے اپنی مذہبی اقدار کوامریکی مفادات کے ساتھ مطابقت کے لیے ضائع کر دیا اور اپنی پرامن طبیعت کو تقسیم اور عدم برداشت سے تبدیل کر دیا"۔ اس سے زیادہ وفاداری نہیں ہو سکتی: پاکستان نے وہ جنگ لڑی جو اس کی نہیں تھی اور امریکا کے لیے مسلمانوں کے بیٹوں کا خون بہایا اور امریکی مفادات کے لیے اسلامی اقدار کو ضائع کیا۔ افغانستان میں پاکستان کا کردار، ترکی اور اس کے حکمران اردوان کے شام میں کردار کی طرح ہے، جہاں امریکا سے مسلسل ذلیل ہونے کے باوجود اردوان نےعسکری گروہوں پر دباؤ ڈال کر اور انھیں امریکی خواہش کی طرف دھکیل کر امریکا کے لیے خدمات سرانجام دیں۔

 

5۔ یہ افغانستان کے اندرونی حالات ہیں اور امریکی ایجنٹوں اور غیر ایجنٹوں کی علاقائی کوششیں جو امریکا طالبان کو مذاکرات اور سیاسی حل کی طرف مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ طالبان جس سمت بھی گئے، پاکستان یا ایران یا سعودی عرب یا قطر یا امارات، انھوں نے اپنے آپ کو افغانستان میں امریکی اثر قائم کرنے کے لیے امریکی مذاکرات کی راہ پر ہی پایا۔ لیکن اگر طالبان یہ سمجھتے کہ انھوں نے امریکا کو مذاکرات کے لیے مجبور کر لیا ہے اور اس کے ایجنٹوں پر کتنا دباؤ ہے کہ ہر برا حربہ استعمال کر کے طالبان کو مذاکرات قبول کرنے کے لیے رضامند کریں۔۔۔ اگر وہ یہ سمجھتے کہ ان کے زبردست جہاد کے نتیجے میں پچھلے 17 سالوں میں امریکا کو کتنا جانی و مالی نقصان ہوا۔۔۔ اگر وہ یہ سمجھتے کہ امریکا مذاکرات پر بضد ہے جبکہ وہ انھیں دہشت گرد کہتا ہے کیونکہ ہر اس شخص کو امریکا  دہشت گردکہتا ہے جو اس کی دہشت گردی اور غرور کی راہ میں کھڑا ہوتا ہے۔۔۔ اگر وہ یہ سب سمجھتے ہوتے تو وہ جانتے کہ یہ افغانستان میں امریکی شکست کا غیر رسمی اعلان ہے۔ امریکا نکل جانا چاہتا ہے اس سے پہلے کہ یہ شکست اسے تباہ کر دے اور وہ ایک گرتی ہوئی ریاست کے طور پر آشکار ہو جائے۔ طالبان اگر سمجھتے تو وہ اس صورتحال کو استعمال کرتے اور امریکا پر دباؤ ڈالتے تاکہ اسے ذلیل کر کے نکالیں، نہ کہ اسے جنگ میں آرام سے بیٹھنے کاموقع فراہم کریں جس کا فائدہ اٹھا کر وہ مذاکرات کرے، امریکہ پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا:

 

﴿لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلّاً وَلَا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ

"یہ لوگ کسی مومن کے حق میں نہ رشتہ داری کا خیال کرتے ہیں نہ عہد کا اور یہی لوگ حد سے گزرنے والے ہیں"(التوبہ: 10)۔

 

امریکا طالبان کی رعایت قبول نہیں کرے گاچاہے وہ جو بھی ہوں، سوائے اس کے کہ افغانستان میں امریکا کا اثر باقی رہے۔ بے شک امریکی نمائندے طالبان کے سامنے مسکراہٹ پیش کریں، جو ان کے دلوں میں مخفی ہے (بعض)  ہےوہ کہیں زیادہ (نقصان دہ )ہے!

 

6۔ اس سب کے حوالے سے، یہ تکلیف دہ ہے کہ دوحہ مذاکرات جو 6 دن چلتے رہے، مذاکرات میں پیش رفت کا آغاز ہیں جس کے طالبان بھی گواہ ہیں:

 

ا۔ اناتولیہ سے ایک انٹرویو میں طالبان کے لیڈر واحد مگدیہ نے کہا کہ دونوں اطراف نے بیرونی طاقتوں کے انخلاء پر اتفاق کیا اور یہ کہ افغانستان دنیا کے کسی حصے کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ تحریک مجوزہ امن عمل کی حفاظت کے لیے عالمی ضمانت چاہتی ہے۔ مزید کہا: "کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر  دوحہ میں حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا" (اناتولیہ ایجنسی 2019/1/26)۔

 

ب۔26 جنوری 2019 کو رائٹرز خبر ایجنسی نے طالبان کے ذرائع سے خبر دی: "انھوں نے واشنگٹن کے ساتھ حتمی معاہدے کے کچھ نکات پر اتفاق کر لیا ہے، جس میں ایک نقطہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بیرونی افواج معاہدے پر دستخط کے 18 ماہ میں افغانستان سے انخلاء کریں گی اور اس کے بدلے طالبان یہ ضمانت دیں گے کہ القائدہ یا ISIS(داعش)کو اجازت نہیں ہو گی کہ افغان علاقہ امریکا کے خلاف استعمال کر سکیں۔۔۔" یہ اس متن سے ظاہر ہے "القائدہ یا ISIS(داعش)کو اجازت نہیں ہو گی"۔۔۔ کہ امریکا طالبان کو نظام میں جگہ دینا چاہتا ہے کیونکہ اسے طالبان سے دیگر تنظیموں کے خلاف کھڑے ہونے کی ضمانت چاہیے، وہ انھیں اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

 

7۔ امریکی سرکاری بیانات بھی طالبان کے بیانات کی تصدیق کرتے ہیں:

ا۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ٹویٹر پر لکھا: "قطر میں طالبان سے چھ روزہ مذاکرات ، جو ملاقاتیں ہوئیں وہ ماضی سے کہیں زیادہ سودمند تھیں۔ ہم نے اہم معاملات پر خاطرخواہ پیشرفت کی ہے" (ڈیوٹشے ویلے عربی، 2019/1/26)۔

ب۔ قائم مقام امریکی وزیر دفاع پیٹرک شیناہن نے28 جنوری 2019 کو طالبان سے مذاکرات پر کہا، "میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہ حوصلہ افزاء ہیں" (یو ایس الحرۃ 2019/1/28)۔

 

8۔ لہٰذا دوحہ معاہدے کا خاکہ طالبان کی دیوار میں ایک اہم دراڑ ہے جو کہ بہت مضبوط تھی۔ ایجنٹ حکومت نے اسے مزید کمزور کرنے کا کام کیا اگرچہ طالبان کی طرف سے کابل حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کے بیانات دیے گئے  اور امریکا کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اتفاق یا تو ہر چیز پر ہو گا یا کسی پر بھی نہیں ۔ لیکن دونوں اطراف کا مذاکرات کے اگلے دور کے طرف دوڑنا دوحہ مذاکرات اور ایجنٹوں کے دھکیلنے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلاآخر 17 سال کی جنگ کے بعد امریکہ کو روشنی کی کرن نظر آئی ہے کہ وہ افغانستان میں اس مسئلے سے نکل سکے۔ یہ صورتحال صرف اسی وقت تبدیل ہوسکتی اگر طالبان میں سے مخلص لوگ اٹھیں، اس معاہدے کو ختم کر دیں اور اس روشنی کو بجھا دیں جو امریکا کو افغان جنگ سے باہر محفوظ راستے کی صورت میں دِکھ رہی ہے۔

 

9۔ لہٰذا وہ تمام طالبان اور مجاہدین جو صلیبی امریکا اور اس کےقبضے کے خلاف کھڑے ہیں، انھیں امریکا اور اس کی حکومت کی طرف نہیں جھکنا چاہیے اور اس میں حصہ نہیں لیناچاہیے۔اور ان کو امریکہ کے خلاف کھڑے رہنے میں استقامت دکھانی چاہیے یہاں تک کہ امریکا ٹوٹ پھوٹ کر اور ذلیل ہو کر مجبوراً باہر نکلے اور جنگ تو صرف کچھ ہی دیر کا صبر ہے۔ امریکا نے اس وقت تک مذاکرات قبول نہیں کیے جب تک اس نے مجاہدین کا حوصلہ نہیں توڑ دیا۔ مجاہدین کو مذاکرات کے چنگل میں پھنسنے سے خبردار کرنا چاہیے، جس کا مطلب امریکا اور مغرب کے لیے رعایت ہے یوں امریکا اور مغرب مذاکرات کے ذریعے وہ جیت سکیں گے جو وہ جنگ سے نہیں جیت سکے یعنی بغیر خون کا قطرہ بہائے، بغیر ایک پائی خرچ کیے، میز پر اپنےدشمن کو شکست دینا! یہ مغرب کے حقیقت پسندانہ سیاسی تصورات کے مطابق ہے۔۔۔ امریکا ایک ظالم مجرم ہے جس کو اس کے ظلم اور جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔ اس نے لاکھوں افغانیوں کو قتل کیا، ان کو زخمی اوراپاہج کیا اور ان کو ان کے گھروں سے نکالا اور افغانستان کو تباہ کر دیا۔ اس کے جرائم ان گنت ہیں اور افغانستان میں سویت یونین کے جرائم سے بھی زیادہ ہیں۔ جیسے سویت یونین کو تباہ اور ذلیل کر کے نکالا گیا تھا، اگرطالبان استقامت دکھائیں تو امریکہ کا بھی یہی مقدرہو گا، کہ اسی مقصد کے لیے طالبان اٹھے تھے یعنی  صبر سے امریکہ سے لڑنے کے لیے۔ اللہ نے ان سے جیت کا وعدہ کیا ہے جو صبر کریں اور استقامت دکھائیں، بے شک وہ تعداد میں دشمن سے کم بھی ہوں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

"جن لوگوں کو خیال تھا کہ انہیں اللہ سے ملنا ہے وہ کہنے لگے بارہا بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے غالب ہوئی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرۃ، 249)۔

 

اور طالبان کو افغانستان میں امریکی حکومت میں حصہ نہیں لینا چاہیے، بلکہ اس کے خاتمے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور اسلام کو یعنی نبوت کے طریقے پر خلافتِ راشدہ کو قائم کرنا چاہیے ، جس کی واپسی کی ہمارے نبی ﷺ نے بشارت دی،

 

«ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»

"پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی"۔

﴿لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ

"یہ ایسی کامیابی ہے کہ عمل کرنے والوں کو(اس کے لیے) عمل کرنا چاہیے" (الصافات: 61)

 

یکم جمادی الثانی 1440 ہجری

6 فروری 2019

Last modified onمنگل, 05 مارچ 2019 01:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک