Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز11  اکتوبر 2019

-غربت کا خاتمہ استعماری قرضوں سے نہیں بلکہ اسلام کے اقتصادی نظام سے ہی ممکن ہے

-ریاست مدینہ لنگر خانے کھولنے سے نہیں بلکہ اسلام کے مکمل نفاذ سے قائم ہوتی ہے!!!

تفصیلات:

 

غربت کا خاتمہ استعماری قرضوں سے نہیں بلکہ اسلام کے اقتصادی نظام سے ہی ممکن ہے

7 اکتوبر کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں مزید 20 کروڑ ڈالر کا قرضہ دینے کی منظوری دے دی ہے۔ بینک کے وسطی اور مغربی ایشیائی شعبے کے ایک ڈائریکٹر نے کہا، "بی آئی ایس پی کی طرز کے معاشرتی حفاظتی پروگرام اس یقین دہانی کے لیے اہم ہیں کہ آبادی کے غریب ترین طبقے مزید غربت میں نہ چلے جائیں، خصوصاً اس وقت جب ملک مشکل معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے"۔ علاوہ ازیں، بینک کے پاکستان کیلئے تعینات ڈائریکٹر نے کہا، یہ اضافی رقم اس پروگرام میں اداروں کی مضبوطی اور پیسے کی مینجمنٹ اور کنٹرول کو بہتر بنائے گی۔

 

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام 2008 میں PPP کی حکومت میں شروع کیا گیا۔ اس کا بجٹ ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ مختلف ادوار میں اس کی پشت پناہی مختلف استعماری ادارے کرتے رہے ہیں۔ 2013 میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک معاشرتی حفاظتی منصوبے کے تحت پاکستان کیلئے 43 کروڑ ڈالر کے قرضے کی منظوری دی۔ اس منصوبے کی کل رقم 57.8 کروڑ ڈالر تھی جس میں 14.8 کروڑ ڈالر حکومتِ پاکستان کی طرف سے شامل تھا۔ برطانیہ کا ادارہ برائے عالمی ترقی اس پروگرام کا بہت بڑا سہارا رہا ہے، جس نے 24.4 کروڑ ڈالر کے فنڈ مہیا کیے۔ اس کے علاوہ اس پروگرام کو عالمی بینک کی بھی پشت پناہی حاصل ہے، جس نے 2009 میں 6 کروڑ ڈالر اور 2012 میں 15 کروڑ ڈالر اس پروگرام کو دیے۔ ان قرضوں سے حاصل شدہ رقم کو اس پروگرام کے ذریعے ان گھرانوں تک پہنچایا جاتا ہے جن کی ماہانہ کمائی 6000 روپے سے کم اور سرپرست ایک عورت ہے۔ اگر اس پروگرام سے حاصل ہونے والے سیاسی فائدوں اور کرپشن کو نظرانداز بھی کیا جائے، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس طرح کے منصوبے غربت کے خاتمے کے بارے میں غیر سنجیدگی کا ہی ثبوت ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، ایدھی فائونڈیشن اور ایسے دیگر ادارے جو اس نظام سے جنم لینے والی غربت سے لڑنے کیلئے بنائے جاتے ہیں، نہ صرف عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں بلکہ حقیقی تبدیلی سے آنے والی معاشی خوشحالی کو مزید دور کر دیتے ہیں۔

 

استعماری ممالک ایسے اداروں کی امداد کے ذریعے دراصل مسلم ممالک میں حکام کی وفاداریاں خریدتے ہیں اور بالواسطہ مسلم علاقوں میں اپنے سیاسی مفادات پورے کرتے ہیں۔ اسلام ملکی ترقی کے لیے بیرونی قرضوں، بیرونی سرمایہ کاری اور امداد کی صورت میں کفار پر انحصار سے منع کرتا ہے۔ اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا،

 

وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا

"اور اللہ نے کفار کو مومنین پر کوئی راستہ (غلبہ) نہیں دیا" (النساء - 141)

 

ایک اسلامی ریاست میں کسی بھی قسم کے فلاحی اور کاروباری کاموں کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی جگہ ملک کے اندر سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے تمام شہریوں کے لیے تمام بنیادی سہولیات مہیا کرے جو کہ معاشرے کے تمام افراد کا بنیادی حق ہے۔ اس پالیسی کو حقیقت بنانے کے لیے اسلام نے تفصیلات کے ساتھ ایک جامع اقتصادی نظام دیا ہےجو ریاست کے محصولات کو اس قابل بناتا ہے کہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز رح کے دور میں زکوٰۃ کے ڈھیر ہوتے تھے لیکن کوئی لینے والا غریب موجود نہیں تھا۔ یہی اسلام کا اقتصادی نظام نہ صرف استعمار کے چنگل سے ملک کو آزاد رکھتا ہے بلکہ معیشت بھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے جس کے مستقبل میں بہت مثبت اقتصادی نتائج نکلتے ہیں۔

 

ریاست مدینہ لنگر خانے کھولنے سے نہیں بلکہ اسلام کے مکمل نفاذ سے قائم ہوتی ہے!!!

7 اکتوبر 2019  کو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی حکومت کی 13 ماہ کی کارکردگی پر تنقید کے حوالے سے غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے ناقدین صبر کا مظاہرہ کریں اور ملک کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنا کر عام   لوگوں کی زندگیوں میں قابل ذکر تبدیلی لانے کے لیے انہیں کچھ وقت دیا جائے۔ وزیراعظم نے یہ بات سیلانی ویلفئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت "احساس لنگر" پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعظم نے کہا،"ریاست مدینہ پہلے دن وجود میں نہیں آئی، بلکہ مرحلہ وار جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئی۔۔۔ یہاں تک کہ اللہ نے بھی شراب اور غلامی کو بدتریج کالعدم قرار دیا۔"

 

درحقیقت عمران خان اپنے ہی جھوٹ کے گرداب میں بری طرح سے پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے ہی 2018 کے عام انتخابات سے قبل پاکستان کے مسلمانوں کو بار بار یہ باور کرایا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر سو دنوں میں ملک کی قسمت بدل دیں گے کیونکہ وہ ملک کو ایک ایماندار قیادت فراہم کریں گے جو کرپشن نہیں کرے گی بلکہ کرپٹ لوگوں سے لوٹا ہوا مال نکلوائے گی اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے گی۔ لہٰذا جب عمران خان اقتدار میں آئے تو لوگ ان سے یہ بجا توقع کرنے لگے کہ وہ سو دن میں تبدیلی لا کر دکھائیں گے اور عمران خان نے سو دن میں تبدیلی لانے کا پروگرام بھی پیش کر دیا۔ لیکن ان کا سو دن میں تبدیلی لانے کا وعدہ پورا نہ ہوسکا جس کے بعد سے انہوں نے چھ ماہ، پھر ایک سال، پھر دو سے تین سال میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا اور اب وہ لوگوں کو یہ بھاشن دے رہے ہیں کہ 70 سال کی خرابیاں چند سال میں ختم نہیں ہوسکتیں لہٰذا وہ "گھبرائیں نہیں" بلکہ صبر کا مظاہرہ کریں۔ کیا عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے اس بات کا علم نہیں تھا کہ 70 سال کی خرابیاں دور کرنے کے لیے سو دن  نہیں بلکہ کئی سال چاہئیے؟

 

بجائے اس کے کہ عمران خان اپنے جھوٹ پر معافی مانگتے اور ناکامی کا اعتراف کرتے، عمران خان ایک بار پھر پاکستان کے مسلمانوں کو ریاست مدینہ کی غلط تاریخ بتا کر دھوکہ دے رہے ہیں۔ ریاست مدینہ کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی تھی کہ اسلام ریاست کا عقیدہ بھی ہے اور نظام بھی۔ لہٰذا پہلے دن سے اسلام نافذ کیا گیا اور جیسے جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ احکامات نازل کرتے گئے، ریاست مدینہ نے ان کے نفاذ  میں ایک لمحے کی بھی تاخیر اس بنیاد پر نہیں کی کہ پوری دنیا میں نظام کچھ اور چل رہا ہے۔ اس کے برخلاف پاکستان میں سود، جو کہ نہ صرف حرام بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ قرار دیا گیا ہے، ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار حکومت کے دور میں بھی جاری و ساری ہے۔ ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار عمران خان بھی پچھلے سیاسی و فوجی حکمرانوں کی طرح کفریہ سرمایہ دارانہ نظام نافذ کررہے ہیں جس کے ذریعے حقیقی تبدیلی کبھی نہیں آ سکتی۔ حقیقی تبدیلی نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ہے جو کفریہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں مکمل طور پر نافذ کرتی ہے۔ لہٰذا لنگر خانے کھول کر پاکستان کے مسلمانوں کو بے وقوف اور دھوکہ دینے کی کوشش بند کریں اور خلافت کے داعیوں کے لیے راستہ چھوڑ دیں ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

اَلَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِىۡ الۡاَرۡضِ اَقَامُوۡا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ؕ

" یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں۔" (الحج22:41)

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.