Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت کا لرزا دینے والا خاتمہ اورامت کی ڈھال کا یہ شدید نقصان برِصغیر کے مسلمانوں سے خلافت کے دوبارہ قیام کا تقاضا کرتا ہے

 

رسول اللہ ﷺ نے روح الامین، جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ کی طرف سے نازل کردہ یہ وحی اپنی امت تک پہنچائی:

إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ

"بے شک امام (خلیفہ) ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے"۔(مسلم)

 

یقیناً تمام مسلمانوں کا امام ہمارے دین میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ امام وہ ہے جو مسلمانوں پر اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکومت کرتا ہے۔امام وہ خلیفہ ہے جو تمام مسلمانوں کو ایک اسلامی اتھارٹی تلے وحدت بخشتا ہے۔ امام وہ ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور جو اپنے حکم سے اختلافِ رائے کو حل کرتا ہے۔ تو پھر ایک سو ہجری سال پہلے یعنی 28 رجب 1342 ہجری بمطابق 3 مارچ 1924 عیسوی میں اس ڈھال کے نقصان کو کن الفاظ میں بیان کیا جائے؟  خلافت کے خاتمے کے واقعات پر برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا کیا ردِ عمل تھا؟

 

                  جب مغربی استعمار نے بیمار عثمانی خلافت کے خون کے لیے تلوار اٹھائی تو برِصغیر پاک و ہند کے مسلمان ایک سفاک برطانوی قبضے تلے ہونے کے باوجود اس کے دفاع کیلئے متحرک ہوگئے۔جب اطالویوں (اٹلی) نےستمبر 1911 میں طرابلس میں خلافت پر حملہ کر کے طرابلس اور  بن غازی پر قبضہ کر لیا تو پورے برِصغیر پاک و ہند میں عوامی اجلاس شروع ہوگئے جن میں"ظالمانہ اور ناجائز ترین جنگ کے خلاف ترکی کے سلطان اور ہمارے محترم خلیفہ" کی حمایت اور مدد کے لیے پکارا گیا۔جب بلقان ریاستوں نے خلافت پر حملہ کیا تو اکتوبر 1912 میں متعدد مظاہرے ہوئے۔ خلافت کے لیے فنڈ (مالی مدد) جمع کرنے کی خاطر نومبر 1912 میں لاہور کی بادشاہی مسجد میں مخلص شاعر،علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی نظم "جوابِ شکوۃ" پڑھی۔تحریکِ خلافت میں اترپردیش کے شوکت علی اور محمد علی جوہر  نے خلافت کی مدد و حمایت کے لیے مسلمانوں کو متحرک کرنے کی کوششیں شروع کیں۔

 

                  جب مغربی استعمار نےخلافت پر اندر سے وار کرنے کیلئے عرب قومیت کے حربے کو استعمال کیا تو بیدار مسلمان حرکت میں آ گئے۔جون 1916 میں عربوں کے قومی غدار شریف حسین کی عثمانی خلافت سے جنگ کے بعد پورے برِصغیر پاک و ہند میں اس کی غداری کے خلاف مظاہرے ہوئے۔26 جون 1916 میں لکھنؤ میں شریف حسین کے اس "شرمناک طرزِ عمل" سے متعلق مذمتی قراردار منظور کی گئی۔ایک سال بعد جب صلیبی جنرل ایلن بائی نے مسجد الاقصیٰ کی بابرکت سرزمین پر قبضہ کر کے وہاں خلافت کی اتھارٹی کو ختم کر دیا تودسمبر 1918 میں ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں درج تھا:"مقدس مقامات اور جزیرہ نما عرب پر نبی ﷺ کے خلیفہ ، ترکی کے سلطان کے مکمل اور آزادانہ کنٹرول سے متعلق اسلامی قوانین کی ضرورت کو پوری توجہ دی جائے، جس کا مسلمانوں کی کتب احاطہ کرتی ہیں"۔

 

                  خلافت کے دارالحکومت استنبول پر مغربی استعمار کے  قبضے نے برِ صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو بے چین کر دیا۔فروری 1919 میں ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں امام یا خلیفہ کے تقررکو ایک فرض قرار دیاگیا۔21 ستمبر 1919 کو لکھنؤ میں  منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں مسلمانوں نے یہ اعلان کیا کہ"ترکی کی ممکنہ تحلیل اور ترک سلطنت کے حصوں سے چھوٹی چھوٹی متعدد ریاستوں کا قیام جو  غیر مسلم طاقتوں کے زیرِ اثر  ہوں، خلافت میں ناقابلِ قبول دخل اندازی ہے جو مسلم دنیا میں مستقل عدم اطمینان کا باعث بنے گا"۔17 اکتوبر 1919  کے دن کو "یومِ خلافت" قرار دیا گیا اور خلافت کی حفاظت کے لیے دعائیں کی گئیں۔مسلمانوں میں خلافت کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور خلافت کانفرنسیں منعقد کی گئیں، خلافت کو بچانے کیلئے فنڈ جمع کیے گئے، "خلافت روپیہ" جاری کیا گیا جس پر قرآنی آیات کاترجمہ  لکھا ہوا تھا اور "خلافت" کے نام سے ایک جریدہ بھی شائع کیا گیا۔

 

                  جب برطانوی ایجنٹ اور ترک قوم پرست،مصطفی کمال نے ایک مہلک ضرب لگائی اور3 مارچ 1924 کو خلافت کا خاتمہ کردیا تو برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔9 مارچ 1924 کو مسلمانوں نے خلافت کے بچاؤ کے لیے  تقریبات کا انعقاد کیا اور ایک تار (ٹیلیگرام)جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا کہ خلافت کا خاتمہ "شیطانی عزائم کا دروازہ کھول دے گا"۔ایک اعلامیہ (سرکلر) جاری کیا گیا جس میں ہر نمازِ جمعہ میں لازمی طور پر معزول خلیفہ،عبدالمجید کا نام لینے کا  کہا گیا۔

 

                  خلافت کے دفاع کی  طویل اور انتھک سیاسی کاوشوں کے ساتھ ساتھ کچھ مسلم گروہوں اور مسلح جنگجوؤں نے خون پسینے سے خلافت کی حفاظت  کی بھرپور کوشش میں اپنی جانیں   بھی داؤ پر لگا دیں۔پہلی جنگِ عظیم (1918-1914) کی شروعات میں،ممبئی میں 10th بلوچ رجمنٹ کے کچھ افراد نے ان برطانوی افسروں کوگولی مار دی جو خلافت کے خلاف جنگ کے لیے سمندر پار کا سفر کرنے والے تھے۔رالپنڈی اور لاہور میں فوجی دستے برطانیہ کے خلاف فعال ہو گئے۔فرانس پہنچنے والے فوجیوں میں سے کچھ مسلم فوجیوں نے مسلمانوں کی مدد کی خاطر برطانیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ جنوری 1915 میں رنگون میں موجود 130th بلوچ نےمیسوپوٹیمیا میں عثمانی خلافت کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا۔اس کے علاوہ، فروری 1915 میں پنجاب کے  کچھ مسلمان سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے  کچھ مسلمانوں  کے ساتھ افغانستان داخل ہوئے تاکہ خلافت کو بچانے کیلئے ترکی جا کر برطانیہ کے خلاف لڑ سکیں۔1916 کے اوائل میں 15th لانسر کے آفریدی یونٹوں کے بصرہ میں عثمانی خلافت کے خلاف پیشقدمی سے انکار کر دیا اور برطانیہ کے خلاف کھڑے ہو گئے۔مسلم افواج کے خلاف سفاکانہ اقدامات کے باوجودہند کے مسلم فوجیوں کی ایک بڑی تعدادنے برطانیہ کے خلاف عثمانی خلافت کے شانہ بشانہ لڑائی میں شرکت کی۔

 

                  اسی اثناء میں ریشمی رومال تحریک کھڑی ہوئی،جس میں شیخ الہند اور ان کے ساتھیوں کے درمیان خط و کتابت ریشمی کپڑے کے ٹکڑوں پر ہوتی تھی جس کے ذریعے ایک فوج کھڑی کرنے کے لیے رضاکار بھرتی کرنے کی منصوبہ بندی کا خاکہ بنایا گیا۔ایک فوجی طاقت منظم کرنے کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی کو افغانستان بھیجا گیا، مولانا انصاری کو سرحدی علاقے کے قبائل اور مولانا حسین احمد مدنی کو 1915 میں حجاز بھیجا گیا تاکہ عثمانی خلافت کی مدد کی جا سکے۔

                  جب مغربی استعمار نے ترکی پر قبضہ کر لیا تو مسلمانوں نے اپنی فوجی کاوشیں پھر بھی نہ روکیں۔فروری 1919 میں جاری کیے گئے فتوے کے مطابق کفار کی طرف سے کسی بھی مسلم ملک پر حملے کے صورت میں مسلمانوں کو اس کی مدد کے لیے آنا لازمی قرار دیا گیا۔مئی 1919 میں افغان مسلمانوں نے اچانک برطانیہ پر حملہ کر دیا ،اترپردیش میں کفار کے خلاف جہاد کے پرچے بانٹے جا رہے تھے اور پنجاب اور بنگال میں اسلام کے غلبے کی واپسی کی بشارت پر پرچے تقسیم ہو رہے تھے۔فروری سے مئی 1921 تک مسلمانوں میں ایک فتویٰ تقسیم ہوتا رہا جس کے مطابق برطانوی فوج میں ملازمت کرنا اسلامی بنیادوں پر حرام قرار دیا گیا۔

 

                  بے شک،برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کے فریضے کو ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔بلا شک و شبہ،اس شیطانیت کے بارے میں ان کا گمان درست ثابت ہوا جس کی وجہ سے ہماری ڈھال ہم سے چھن گئی۔

 

                  مسلم امت کی خلافت تباہ ہونے کے بعد سے کمزوریاں ، حملے اور استحصال بارش کی طرح ہم پر برسنے لگے۔عرب اور ترک قومیت کی بنیاد پر بغاوتیں کھڑی کر کےریاست کو اندر سے کمزور کرنے کے بعد، یہاں تک کہ وہ گر گئی،برطانیہ نے سابقہ خلافت کی لاش سے حاصل ہونے والے مسلمانوں کے علاقوں کو جنگ کا لوٹا ہوا مال سمجھ کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں کاٹ دیا۔مسلمانوں کو وحدت بخشنے والی خلافت کی عدم مومودگی میں کفار ذرہ بھی نہیں جھجکے اور ریاستوں کو کاٹ کر مزید ریاستیں بنائیں،یہاں تک مسلمان مغرب کی "تقسیم کرو اور حکمرانی کرو" (Divide and Conquer)کی پالیسی کی تکلیف کی شدت کو محسوس کرنے لگے۔مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود،اسلامی وحدت کے ذریعے ہمیں مضبوط کرنےوالی اسلامی طرزِ زندگی کی عدم موجودگی میں تمام اقوام ہم پر پل پڑیں،جیسا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبردار کیا تھا:

يُوشِكُ الأُمَمُ أنْ تَدَاعَى عَليْكُم كَمَا تَدَاعَى الأكَلَةُ إلَى قَصْعَتِهَا ،"اقوام تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں"۔ پوچھا گیا،"کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے"؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:بَلْ أنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنّكُمْ غُثَاءُ كَغُثَاءِ السّيْلِ، وَلَيَنْزِعَنّ اللّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوكُمْ المَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنّ اللّهُ في قُلُوبِكُم الَوَهْنَ،"نہیں، تم تعداد میں زیادہ ہو گے لیکن تمھاری وقعت سمندر میں موجود جھاگ کی طرح ہو گی۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں میں سے تمہارا ڈر نکال دیں گے اور تمہارے دلوں میں وہن داخل کر دیں گے"۔ پوچھا گیا،" یا رسول اللہ ﷺ! یہ وہن کیا ہے"؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:حُبّ الدّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ المَوْتِ،"دنیا کی محبت اور موت کا ڈر"۔ (ابو داؤد)۔

 

                  اسلامی ریاستِ خلافت کے خاتمے کے بعد مغربی استعمار نے مسلمانوں پر ایسے حکمران مسلط کر دیے جو اللہ کی نازل کردہ  وحی سے ہٹ کر جمہوریت، بادشاہت اور آمریت جیسے نظاموں کے ذریعے حکومت کرتے ہیں۔گمراہ کن نظاموں کے ذریعے استعمار کو کھلی چھوٹ ہے کہ مسلم ریاستوں کے ساتھ گناہ پر مبنی فوجی  اتحاد قائم کریں، انھیں ایک دوسرے سے لڑنے پر اکسائیں، چاہے ایران اور عراق ہوں یا سعودی عرب اور یمن۔یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب موجودہ حکمرانوں نے مسلمانوں کے حقیقی دشمنوں کی مدد وحمایت کے ذریعے مسلم علاقوں میں ان کے تسلط کو مضبوط کیا، جیسے فلسطین ، مقبوضہ کشمیر وغیرہ۔صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ موجودہ حکمرانوں نے ان مسلمانوں سے بھی جنگ کی جو دشمنوں سے لڑتے ہیں، انھیں "دہشت گرد" کہا، امریکی صلیبیوں، یہودی وجود اور ہندو ریاست کے ساتھ مل کر ان کے قبضے کے خلاف ہر طرح کی مزاحمت کوتوڑنے کے لیے سرگرم ہو گئے۔بے شک، اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرنے والے ایک امام کی عدم موجودگی میں ہم اس گڑھے میں گر گئے جس سے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبردار کیا تھا:

لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ،

"میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹنا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو"۔(مسلم)

 

                  ان گمراہ کن نظاموں کے ذریعے استعمار نے مسلم ریاستوں کوایسے سودی قرضوں میں دھکیل دیا جہاں سے وہ کبھی نہ نکل سکیں اور ان  کی صنعت اور زراعت کو ناکارہ بنانے کے لیے ان پر اقتصادی پابندیاں لگائیں۔ہماری وسیع وعریض زمینوں، نوجوان آبادی اور دنیا کی بیشتر بڑی طاقتوں سے زیادہ وسائل ہونے کے باوجودہمیں وحدت بخشنے والی خلافت کی عدم موجودگی میں ہم غربت اور رسوائی میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ وہ حکمران ہیں جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکومت نہیں کرتے۔ اللہ سبحان وتعالی نے فرمایا:

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ * جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ﴾

"کیاتم نے انہیں نہیں دیکھا کہ جنہوں نے الله کی نعمت کےبدلے میں ناشکری کی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ۔جو دوزخ ہے اُس میں داخل ہوں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے"۔(ابراھیم-28:29)

 

                  بے شک امت کی ڈھال ،خلافت کے خاتمے سے برِصغیر کے مسلمان لرز اٹھے۔لہٰذا آج ایک سو ہجری سال بعد،خلافت کا یہ نقصان برِصغیر کے مسلمانوں سے یہ تقاضا کر تا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے فرض کی گئی خلافت کے دوبارہ قیام کی اس ذمہ داری کو پورا کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ برِصغیر کے مسلمان، چاہے وہ پاکستان میں ہوں، افغانستان میں، بنگلا دیش میں، بھارت میں یا سری لنکا میں، وہ سب کے سب اسلام کے ساتھ ہی وفادار ہیں۔اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلافت کی واپسی کے لیے پورے جوش و جذبے سے کوشش کریں تاکہ برِصغیر پاک و ہند پر اسلام کے غلبے سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی بشارت کو پورا کیا جا سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام

"میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ کر لیا، ایک وہ جو ہند فتح کرے گا اور دوسرا جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا"۔(احمد، النسائی)

 

                  ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے:

وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ

"رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ کیا۔ اگر میں نے اسے پایا تو میں اس میں اپنی جان و مال لگادوں گا۔ اگر مارا گیا تو بہترین شہداء میں سے ہوں گا اوراگر زندہ واپس آ گیا تو(گناہوں سے)آزاد ابو ہریرۃ ہوں گا"۔(احمد،النسائی،الحاکم)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

تحریر: مصعب عمیر-پاکستان

Last modified onاتوار, 14 فروری 2021 16:28

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.