Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

''بولی اماں محمد علی کی , جان بیٹا خلافت پے دے دو''

مصعب عمير- پاکستان

 

ہمارے اس اسلامی خطے میں ایک ایسی مسلم خاتون گزری ہیں جنہیں بوڑھے، جوان، مسلمان اور غیر مسلم سبھی پیار سے 'بی اماں' کے نام سے پکارتے تھے۔ اگر آپ بزرگوں سے پوچھیں کہ کیا وہ ' بی اماں' کے بارے میں جانتے ہیں، تو آپ کو یہ جواب ملے گا: ''ہاں ہم محمد علی اور شوکت علی کی والدہ کو 'بی اماں ' پکارتے تھے۔ چنانچہ وہ تحریکِ خلافت کے راہنماؤں کی ماں تھیں۔

 

عابدہ بانو بیگم، رام پور اتر پردیش کی رہائشی تھیں۔وہ 1852 کے اُس دورمیں پیدا ہوئیں جسے برِ صغیر کی ہزار سالہ مسلم حکمرانی کی وراثت ملی تھی لیکن اب جس میں 1757 ء سے برطانوی استعمار کے قبضے کا آغاز ہوچکا تھا۔ 1857 ءمیں جب مسلمانوں نے برطانیہ کے غیر قانونی راج کے خلاف عَلَم جہاد بلند کیا تو آپ کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ اس وجہ سے آپ سکول یا کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکیں ، لیکن وہ اسلامی تہذیب سے آراستہ اور پاکباز آداب کی مالک تھیں، جو کہ سب علوم سے بہتر ہے۔ وہ اﷲ اور اس کے نبیﷺ کے لیے شدید محبت کے جذبات رکھتی تھیں ۔ وہ اسلام کے لیے اپنی جان اور سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھیں ۔ وہ اپنے بڑوں کے ساتھ عزت سے پیش آتیں ، سادگی اور بلند افکار ان کی زندگی کے اصول تھے۔ آپ کی شادی عبدل علی خان سے ہوئی جو کہ ریاست رام پور میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سمیت آپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ 'بی اماں' کے چار بیٹوں کے نام نوازش علی ،ذولفقار علی، شوکت علی اور محمد علی تھے ۔ ان میں سے نوازش علی کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا ۔ باقی تین مناسب عمر کو پہنچے۔ ابتدائی عمر میں ہی بچوں کے والد بھی انتقال کر گئے اور تیس سال کی عمر میں آپ بیوہ ہو گئیں ۔ ان بچوں کی تعلیم و پرورش کی ذمہ داری تنہا 'بی اماں ' پر آ پڑی اور آپ نے انہیں بہترین تعلیم دلوائی۔

 

جب آپ کے سب سے بڑے بیٹے نوازش علی کا انتقال ہوا ، تو لوگ آپ سے افسوس کے لیے آئے ۔ انہوں نے آپ کو مثالی تحمل کے ساتھ اس غم سے نمٹتے پایا۔ آپ نے ان سے کہا :'' ہم سب کو اﷲ کی رضا پر راضی ہونا چاہیے ۔ اﷲ کو ہر چیز پر اختیار ہے ۔ جو کچھ بھی اس نے ہمیں سونپا ہے، وہ جب چاہے اس کو واپس لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہماری زندگی اور موت یقینا ً اس کے ہاتھ میں ہے''۔ جب 'بی اماں' حج کے لیے گئیں، انہوں نے غلافِ کعبہ کو تھام کر یہ دعا کی :’’اے اﷲ تیری عنایت سے میرے بچے اب بڑے ہو گئے ہیں ۔ میں تجھ سے التجا کرتی ہوں کہ انہیں سچا مسلمان بنا ‘‘۔

 

گو کہ آپ نے کوئی با ضابطہ تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن وہ اس بات کی بھرپور قائل تھیں کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہونا چاہیے لہذا انہوں نے اپنے بیٹوں کو علی گڑھ اور آکسفورڈ سے تعلیم دلوائی۔ اس کے لیے آپ نے اپنا زیور رہن رکھوا دیا تاکہ بیٹوں کی تعلیم کا خرچ پورا کرسکیں ۔ زندہ رہنے والے تین بیٹوں میں سے دو نے خوب نام کمایا۔ چھوٹے بیٹے محمد علی دل و دماغ کی منفرد صلاحیتوں کے مالک بنے۔ وہ نہایت دلیر تھے اور کوئی بھی انہیں خوفزدہ نہیں کر سکتا تھا ۔ اور پھر زمانے نے دیکھا کہ دنیا بھر میں ان کی اعلیٰ صفات کے چرچے ہوئے۔ اس موضوع پر ایک مثالی مکالمہ سپردِ قلم ہے: ایک مرتبہ ایک صاحب نے مولانا محمد علی کی تعریف ان کی والدہ کی موجودگی میں کرتے ہوئے کہا: ’’یہ آپ کی انتھک محنت اور پرخلوص پرورش ہے جس نے ان (مولانا محمد علی) کی شخصیت سازی کرتے ہوئے صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور عظیم بلندیوں تک پہنچایا‘‘۔ بی اماں نے کہا :’’ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہم پر اﷲ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے ، اﷲ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے‘‘۔

 

برطانوی راج تلے کچھ مسلمان مغربی طرزِ زندگی کا شکار ہو چکے تھے۔ ان لوگوں کو بی اماں نے متنبہ کیا: ’’ہم وطنو ! ان غیر ملکیوں کے طرزِ زندگی کو چھوڑ دو۔ اپنے آباؤاجداد کے طرزِ زندگی سے جڑ کر رہو۔ ان غیر ملکیوں کے خدمت گار نہ بنو، نہ ہی ان سے اعزازات لو کیونکہ یہ لوگ عیار اور مکار ہیں‘‘۔1917 کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں، 62 سال کی عمر میں آپ نے دل کو چھو جانے والی تقریر کی جس نے مسلمانوں پر دُور رس اثر چھوڑا۔ اﷲ کی رحمت سے، ان کے اعلیٰ نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی ایسے سچے مسلمان بنے کہ اﷲ کے سوا کسی کے آگے نہ جھکے۔ ان کے دلوں میں صرف خوفِ خدا تھا۔ دونوں بھائیوں نے تمام عمر برطانیہ کے خلاف اور خلافت کو تباہ ہونے سے بچانے کی جدو جہد کی ۔ جب انگریز ان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالتے، تو بی اماں میں جوش و جذبہ بھر جاتا،وہ جیل جایا کرتیں اور اپنے بیٹوں سے کہتیں:’’ میرے بیٹو! اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کو تھامے رکھو۔ بے شک تمہاری زندگی اسلام کی راہ میں قربان ہو جائے‘‘۔

 

جب ان کے بیٹے ابھی جیل ہی میں تھے، اس نِڈر اور قابلِ احترام ماں نے تحریکِ خلافت کی حرارت کو برقرار رکھا۔ انہوں نے ملک کا دورہ کیا، لوگوں کے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا جو آپ کو سننے کے لیے جوق در جوق اکھٹے ہوئے، اور ان کو ترغیب دی کہ وہ ان کے عظیم بیٹوں کے نقشِ قدم پر چلیں اور مسلم امت کے اتحاد اور یگانگت کے لیے کام کریں۔ انہوں نے راہنمائی اور شہرت میں اپنے شاندار بیٹوں کی جگہ لی اور اردو کا مشہور شعر ’’بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پے دے دو‘‘ زبان زدِ عام ہوا اور برِ صغیر کے ہر کونے میں رنگ و نسل و مذہب کے تفریق کے بغیر گایا گیا۔

 

مارچ 1924 ءمیں خلافت کے خاتمہ کے بعد بی اماں زیادہ دیر تک زندہ نہ رہیں اور 13 نومبر1924 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی موت مسلم امت کے لیے عظیم صدمہ تھی لیکن وہ مسلم خواتین جو بی اماں کے ساتھ کام کے لیے باہر نکلی تھیں ،محاسبہ کی ایک سیاسی قوت بن کر اُبھریں۔ ان کی سرگرمیاں ایک آغاز تھیں جو انہیں اسلام کے نام پر پاکستان بنانے کی سرگرم کاوشوں کی طرف لے گئیں۔ آج کی نیک خواتین کی نسل انہی کی میراث ہے جو گود سے ہی اپنے بچوں کی پرورش اسلام کے مطابق کرتی ہیں، اور آج کے مسلمانوں کو تحریک دیتی ہیں کہ وہ پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کریں اور واشگاف اور بھرپورانداز میں خلافت کی واپسی کی پکاربلند کریں ۔

 

یہ تھیں بی اماں، ہند کے دو شاندار بیٹوں ، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر،کی ماں۔ اﷲ ان تینوں پر اپنی بے پناہ رحمتیں نچھاور فرمائے۔ آمین

Last modified onپیر, 28 دسمبر 2020 21:41

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.