Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

مکمل استثنیٰ

(انگریزی سے اردو میں ترجمہ)

 

ڈان کا اداریہ ، 20 دسمبر 2020

 

ایک اور خاندان کے کسی پیارے کوجبری گمشدگی کا نشانہ بنا دیا گیا اور اس کے گھر والے یہ جاننے کے لیے کہ وہ کہاں ہے، در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ تفصیلات کے اختلاف سے یہ کہانی اب عام ہوچکی ہے ۔ اگر گھر والے خوش قسمت ہوں تو جبری گمشدہ فرد چند گھنٹوں یا چند دنوں میں واپس لوٹ آتا ہے۔ مگر کچھ گھرانوں کے لیے یہ آزمائش کئی سال تک چلتی رہتی ہے جس کے دوران امید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آتی۔ اسی قسم کا ایک واقع اس ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ  کےسامنے آیا۔ ایک وکیل کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن کے مطابق ، ان کے شوہر، حزب التحریر کے ترجمان، تقریباً ایک دہائی سے گمشدہ ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق نوید بٹ کو 11 مئی 2012 کو انٹیلی جنس اہلکاروں نے لاہور میں ان کے گھر کے باہر سے اغوا کیا تھا۔  جبری گمشدگی  کے انکوائری کمیشن کے سربراہ، ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے 2018 میں کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ انہیں "خفیہ اسٹبلیشمنٹ کے اداروں نے اٹھایا  ہے اور وہ ان کی غیر قانونی قید میں ہیں"۔ یہ پٹیشن تقریباً تین سال بعد دائر کی گئی ہے ، جبکہ اِس دوران کمیشن اپنے اِس حکم نامے پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہا  کہ "بغیر کسی تاخیر کے گمشدہ شخص کو اس کے سامنے پیش کیا جائے"۔ پیر کے دن عدالت کو بتایا گیا کہ جناب نوید آئی ایس آئی یا ایم آئی کے قبضے میں نہیں ہیں۔

 

                  یہ ایک تکلیف دہ سوچ ہے کہ اُس گمشدہ شخص کے گھر والوں کے پاس اب کیا رستہ رہ گیا ہے، جس کے انفرادی حقوق کے تحفظ کے لیے قواعد و ضوابط کی عمل داری(due process) کی اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ بے حرمتی کی گئی ہو۔ کوئی بھی مہذب ملک اپنے لوگوں کو اس قسم کی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔ اور اس قسم کے جرم  کے مبینہ اغوا کاروں کو جو استثنیٰ ملا ہوا ہے  وہ تاریخ کی چند انتہائی جابرانہ حکومتوں ہی کی پہچان ہے۔ اس صورتحال سے واضح ہے کہ کمیشن اپنے اختیارات کے ایک اہم پہلو کے حوالے سے بری طرح سے ناکام رہا ہے یعنی ان کا احتساب کرنا جو لوگوں کو جبری گمشدہ کردیتے ہیں، اگرچہ کمیشن کچھ گمشدہ افراد کا پتہ لگانے میں کامیاب بھی رہا ہے۔ جب کوئی گمشدہ فرد مل جاتا ہے تو یہ قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کیس 'سلجھ' گیا ہے۔ اگرچہ اس عمل سے متاثرہ خاندانوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملتا ہے مگر کبھی بھی  اغوا کاروں کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیاجاتا جو عملاًاس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس قسم کے مجرمانہ واقعات جاری رہیں گے۔ کچھ ماہ قبل انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے کمیشن کے کام کے حوالے سے ایک سخت تنقیدی جائزہ جاری کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ اس کی مدت میں مزید اضافہ نہ کیا جائے۔         لیکن اس کی مدت میں اضافہ کردیا گیا اور جبری گمشدگی پر زبانی جمع خرچ جاری ہے۔

 

Published in Dawn, December 20, 2020

https://www.dawn.com/news/1596787/total-impunity

 

 

#FreeNaveedButt

 

Last modified onجمعرات, 24 دسمبر 2020 21:08

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.