الجمعة، 18 رمضان 1445| 2024/03/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان کے حکمرانوں کو مقبوضہ کشمیر آزاد کرنے کی کوئی فکر نہیں ہے

بلکہ وہ افغانستان میں امریکی مفادات کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل دوڑ دھوپ کررہے ہیں

 

خبر:

 

9 جون 2020 کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تا کہ افغان رہنماوں کے ساتھ افغان امن عمل پر ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے بات چیت کرسکیں۔ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے نے اپنے سرکاری  ٹویٹر اکاؤنٹ پر  جنرل باجوہ کی صدارتی محل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تصویر جاری کی۔  آرمی چیف کے ساتھ آئی ایس آئی کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، اور حال ہی میں پاکستان کی جانب سے نامزد کیے گئے خصوصی سفیر برائے افغانستان، محمد صادق، بھی ملاقات میں شریک تھے۔

 

تبصرہ:

پاکستان کے آرمی چیف نے  زلمے خلیل زاد کے ساتھ  7 جون 2020 کو ملاقات کرنے کے ٹھیک دو دن بعد  افغانستان کا دورہ کیا۔ 7 جون کو زلمے کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں آئی ایس آئی چیف بھی شامل تھے۔  یہ خیال کیا جارہا ہے کہ جنرل باجوہ کے افغانستان کے دورے کا مقصد انٹرا افغان مذاکرات کے انعقاد کو یقینی بنا کر افغانستان میں امریکا کو درپیش مشکلات کو حل کرنا ہے۔ خلیل زاد 4 جون 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوہا میں افغان طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کر کے اسلام آباد پہنچے تھے۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق "ملاقات میں قیدیوں کی فوری رہائی، انٹرا افغان مذاکرات   کے آغاز اور (طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے)معاہدے پر مکمل عمل درآمد پر بات چیت ہوئی"۔

 

ایسا نظر آرہا ہے کہ نام نہاد امن عمل  اُس رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہا جس رفتار کی امریکا کو ضرورت ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کا مقصد انٹرا افغان مذاکرات سے پہلے دونوں فریقوں کے درمیان باہمی اعتماد پیدا کرنا تھا۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں معاہدہ 29 فروری 2020 کو ہوا تھا جس کے مطابق 10مارچ 2020 تک قیدیوں کے تبادلے کے عمل کو مکمل ہوجانا تھا ، جو کہ اب تک مکمل نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح اس معاہدے میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ 10 مارچ 2020 سے ہی انٹرا افغان مذاکرات بھی شروع ہوجائیں گے۔ لہٰذا زلمے اور جنرل باجوہ کے یکے بعد دیگرے یہ دورے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکا بہت بے چینی سے اس بات کا خواہش مند ہے کہ افغان طالبان انٹراافغان  مذکرات جلد از جلد شروع کریں۔  ایک ایسے سال میں جب ٹرمپ ایک بار پھر صدر بننے کے لیے انتخاب لڑنے جارہا ہے، جب امریکا کی معیشت تنزلی کا شکار ہے، تو ٹرمپ یہ چاہتا ہے کہ اسے افغانستان کے حوالے سے کوئی ایسی خوش خبری ملے جسے وہ اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام کے سامنے پیش کرکے اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو بڑھا سکے  اور ایک بار پھر امریکا کا صدر منتخب ہوجائے۔

ایک ایسے وقت میں جب بھارت کشمیر کے ایک حصے پر چین کے ساتھ شدید طور پر الجھ گیا ہے، لیکن پاکستان کے حکمران مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے افغانستان میں امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے زبردست دوڑ دھوپ کررہے ہیں جو کہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اس بات کا کوئی غم اور افسوس نہیں ہے کہ وہ 1962 کے بعد ملنے والی اس سنہری موقع کو ایک بار پھر ضائع کررہے ہیں۔

 

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان کے کفر نظام سے جنم لینے والی سیاسی و فوجی قیادت کبھی بھی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کے لیے حرکت میں نہیں آئے گی۔ صرف خلافت ہی ایسی سیاسی و فوجی قیادت فراہم کرے گی جو صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرے گی۔ خلافت کی سیاسی و فوجی قیادت حرکت میں آکر مقبوضہ کشمیر کو ہندو ریاست کے قبضے سے آزاد کرائے گی اور افغانستان سے امریکا کے نجس وجود کا خاتمہ کرے گی۔  

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔ 

Last modified onپیر, 22 جون 2020 23:13

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک