الخميس، 17 رمضان 1445| 2024/03/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت 186
فقیہ اور مدبر سیاست دان ،امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب  تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس

 

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِي إِذَا دَعَانِي فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ(186)  


"اور ( اے پیغمبر!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجئے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ پھر انہیں چاہیئے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں"


ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ ایک بدو نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: ہمارا رب اگر ہمارے قریب ہے تو ہم آہستہ آواز سے دعا  کریں ،  دور ہے  تو ہم اُسے  بلند آواز سے پکاریں۔ آپ ﷺ خاموش رہے، پس اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ) نازل فرمائی (الدر المنثور: 2/469، تفسير الطبري: 2/158)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ہمیں آگاہ فرمایاہے کہ وہ ہمارے قریب ہے، جب کوئی  اُس سے دعا مانگے ، تو اللہ تعالیٰ مانگنے والے بندے  کی دعا سنتے ہیں،کوئی شے اُس پر مخفی نہیں، چنانچہ وہ ذات ِپاک  اس کی دعا قبول کرتا ہے ،اُسے نامراد نہیں لوٹاتا ، اللہ اپنے بندوں کے قریب ہے، وہ دیکھتا اور سنتا ہے جیسے کہ حضرت موسیٰؑ و ہارونؑ سے فرمایا تھا:( إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى) " میں تمہارے ساتھ ہوں سن  بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہاہوں" ( طٰہٰ:46 )۔  حدیث میں بھی وارد ہے((قال الله تعالى أنا مع عبدي ما ذكرني وتحركت بي شفتاه)) " اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : جب تک بندہ مجھے یاد کرتا رہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر سے ہل رہے ہوں، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں"( ابن ماجہ: 3782، أحمد: 2/540)۔


اس کے بعد اللہ عز و جل اپنے بندوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی بات قبول کریں ، اس پر ایمان لاکر اس کی اطاعت اختیار کریں،اور اس کی شرع کے تابع ہوکر رہیں،نافرمانی اور معصیت میں ہوتے ہوئے اُس سے دعا نہ کریں، اگر وہ اللہ کی بات مانیں گے تو اس کی وجہ سے  ان کو اللہ کی قربت اور نزدیکی حاصل ہوگی،اور ایسا  کرکے گویاوہ  ان اسباب کو اختیار کرنے والے ہوں گے جو دعاؤں کے قبول ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا( فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ) " پس وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ رُشد و ہدایت پائیں"۔


     دعا کے  حوالے سے مفید بات:
یہاں ہمیں لمحہ بھر رکنا چاہیے ، دعا سے متعلق بعض امور کو سامنے رکھیں تاکہ ایک مسلمان جب اپنے رب سے دعا کرے تو اس کے لیے معاملہ واضح ہو۔


1۔ دعا ایک عبادت بلکہ عبادت کا مغز ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

 

(وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ)

"اورتمہارے پروردگار نے کہا: مجھے پکارا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک  جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں ،عنقریب وہ ذلیل ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے"(غافر:60 )۔  

 

پس اللہ سبحانہ نے اس آیت کریمہ میںاُدعُونِی ( مجھے پکارو)کو  عبادتی( میری عبادت) کے بعد ذکر کے گویا دعا کو عبادت قرار دیا ۔ اسی کو حدیث میں فرمایا ہے: (الدعاء مخ العبادة)"دعا عبادت کا مغز ہے"( الترمذي: 3293، أحمد: 4/271)۔


دعا ایک عبادت ہے ، اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ پسند ہے جو اس سے مانگتا ہو اور گڑگڑا کر دعا مانگنے والا ہو((إن الله يحب الملحين في الدعاء)) "اللہ تعالیٰ دعا میں گڑگڑا نے والوں سے محبت کرتا ہے"(فتح الباری: 11/95)۔


2۔ بے شک اللہ سبحانہ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہم اس کی بات مانتے ہوئے اس سے دعائیں مانگیں ، اس کی شریعت کے پابند اور اس کے رسول ﷺ کی  اقتداء کرنے والے بن کررہیں،( فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ )میں یہی مضمون ارشاد فرمایا ہے۔  حدیث میں بھی آیا ہے ((يدعو الله ومأكله من حرام ومشربه من حرام فأنىٰ يستجاب له))" (ایک بندہ) اللہ کو پکارتا ہے، جبکہ اس کا کھانا حرام ،اس کاپینا حرام ہے تواس کی دعا کیسے قبول ہوگی"۔    


3- دعا جو کہ ایک عبادت ہے ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسباب اختیار کرنا چھوڑنا دیں۔ اس بات کو  کتاب و سنت میں  واضح کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے:(فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ) یعنی تاکہ وہ اسباب اختیار کرنے کی طرف ہدایت پالیں،اور انہیں توفیق سے نوازا جائے یوں ان کی دعا قبول کی جائے گی۔


 رسول اللہ ﷺ جنگ ِبدر میں لشکر کو تیار کر رہے ہیں اور ہر ایک سپاہی کو اپنی اپنی جگہ پر معین کرکے ترتیب دے ر ہے ہیں، انہیں لڑائی کے لیے بہترین انداز سے ہدایات اور رہنمائی فرمادیتے ہیں، پھرچبوترے میں داخل ہوکر اللہ تعالیٰ سے نصرت و مدد کی دعا کرتے ہیں ، اتنی طویل دعا فرماتے ہیں کہ بالآخر ابوبکر ؓ آکر عرض کرتے ہیں ، "یارسول اللہ ! آپ نے بہت مانگا آپ کے لیے تواتنی زیادہ دعا کی ضرورت نہیں " (سيرة ابن هشام: 2/626)۔


اس پر بھی غور فرمائیں کہ  جب اللہ نے آنحضرت ﷺ  کو مکّہ سے مدنیہ منوّرہ ہجرت کرنے کی اجازت دی تو  آپ ﷺ نےاس وقت وہ سب کچھ اختیار کیا جو ایک انسان کے لیے ممکن ہوتا ہے، آپ ﷺ حفاظت اور نجات  دلانے والے تمام اسباب کو بروئے کار لائے ، عین اسی وقت آپ ﷺاللہ تعالیٰ سے کفار قریش کے خلاف دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ ان کے چہروں کو دوسری طرف پھیر دے اور ان کی سازشوں سے میری حفاظت فرما کر بحفاظت و سلامتی مدینہ پہنچادے۔


پس بجائے اس کے کہ آپ ﷺ شمال کی سمت کا رخ کرکے  مدینہ کی طرف روانہ ہوجاتے ،( مدینہ منورہ مکہ سے شمال کی جانب ہے)آپ ﷺ جنوب کی طرف روانہ ہوئے اور غار ثور میں ابوبکرؓ کے ساتھ چھپے  رہے۔ اس دوران  قریش کے حالات معلوم کرتے رہےاور عبد الرحمٰن بن ابی بکرکی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی پر بھی عمل پیرا رہے ۔  عبد الرحمٰن ابن ابی بکر مکّہ واپس آجاتا تو ابو بکرؓ کا غلام اسی راستے پر مکّہ کی طرف اپنی بھیڑ بکریاں ہانکتا ہواچلاآتا تھا ، اس کا مقصد عبد الرحمٰن کے قدموں کے نشانات کو مٹانا ہوتا تھا، جس سے کفار ِقریش کو دھوکہ میں رکھنا مقصود تھا۔  آپ ﷺ تین دن غار میں رہے ، تا آنکہ  قریش کی  جستجو کچھ ٹھنڈی پڑ گئی ،تواس کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کو یہ پورا اعتماد تھا کہ مدینہ بحفاظت رسائی ہوگی کیونکہ جب ابوبکر ؓ نے دیکھا کہ کفار قریش کا ایک گروہ غار کے  دہانے پر آکھڑا ہوا ہے اور انہیں خوف محسوس ہوا کہ اب وہ ہم تک پہنچ گئے ہیں،اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ" اگر ان میں سے کوئی  شخص اپنی نگاہ نیچی  کرلےتو ہمیں دیکھ لے گا، اس وقت آپ ﷺ نے ابوبکرؓ سے فرمایا : ما ظنک باثنین اللہ ثالثهما" ایسے دوآدمیوں   کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے جن کاتیسرا اللہ ہے"  (بخاري: 3380، 4295، مسلم: 4389، ترمذي: 3021، أحمد4/1)۔ ان مواقع و مناظر کو قرآن  یوں بیان کرتا ہے :

 

( فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا)

"پس تحقیق اللہ اُس وقت بھی اِن کی مددکرچکاہے، جب ان کوکافر لوگوں  نے ایسے وقت ( مکّہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں  میں سے دوسرے تھے ، جب وہ دونوں  غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے"(التوبۃ:40)۔


پھر سراقہ بن مالک سے جو قریش کی طرف سے اعلان کردہ انعام حاصل کرنے کی غرض سے رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓکی  تلاش کرتے  ان کے پیچھے آپہنچا تھا، آپ ﷺ نے کہا:، بأن يرجع وله سوارا كسرى "(اے سراقہ)واپس لوٹ جا ،تجھے کسریٰ کے دونوں کنگن   دیے جائیں گے"( الروض الأنف في تفسير سيرة ابن هشام للسهيلی: 2/233)۔


پس رسول ﷺ نے یہ تمام اسباب اس لیے اختیار کیے کہ ہم اس میں آپ ﷺ کی پیروی کریں۔ تو جس وقت آپ  ﷺ یہ دعا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان  کو کفار کی سازش سے بچائے اور یہ کہ ان کی مکر و سازش ان پر ہی لوٹا دے، اسی دوران رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلتے ہیں،آپ ﷺ نے کفار کو دیکھا کہ گھر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں تو آپ ﷺان کے چہروں پر مٹی پھینک دیتے ہیں۔


آپ ﷺ کو یہ بھی اطمینا ن تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرے گااور کفار کو ان سے پھیر دے گا، اور وہی ہوا ، چنانچہ ان کفار پر نیند طاری کی گئی او ر آپ ﷺ بحفاظت نکل گئے۔


پس دعا کے معنی ہر گز یہ نہیں کہ اسباب کو ترک کیا جائے بلکہ  دعا کے ساتھ  ہی  اسباب عمل میں لائے جاتے ہیں۔


پس جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ خلافت دوبارہ قائم ہو، تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو سر انجام دینے کے لیے محض دعا ئیں کرنا کافی نہ سمجھے، بلکہ جو لوگ اس کے لیے سرگرم عمل ہیں ، ان کے ساتھ مل کر کام کرے، اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اور معاونت کا خواستگار بھی رہے، کہ اللہ تعالیٰ جلد اس کام کو عملی شکل عطا  فرمائے،یہ دعائیں کرتے وقت اخلاص کے ساتھ خوب گڑگڑائے،اس کے ساتھ اس مقصد میں کام آنے والے تمام اسباب کو بھی اختیار کرے۔


تمام اعمال میں اسی طرح کرنا چاہیے،کہ انسان خالص اللہ کے لیے عمل کرے ،رسول اللہﷺ  کے ساتھ سچا تعلق رکھے ، دعا کرتے وقت  اخلاص کا اہتمام کرے اور خوب عاجزی و زاری  اور محتاجی کا اظہار بھی کرے ، اللہ تعالیٰ کی ذات سننے والی اور قبول کرنے والی ہے۔


4- بے شک اللہ سبحانہ دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے، اور مجبور شخص جب دعا کرے تو اسے قبول کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ  ہے:

 

( وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ)

"اور تمہارے پروردگار کا فرمان ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری پکار پر لبیک کہوں گا"(غافر:60)۔

 

اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِي إِذَا دَعَانِي )

"اور ( اے پیغمبر!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجئے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں"(البقرۃ:186)۔

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ)

" بھلا کون ہے جو ایک مجبور کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے"(النمل:62)۔


مگر قبول کرنا کیا ہوتا ہے؟ اس کا ایک خاص شرعی مفہوم اور حقیقت ہے، جس کو  اللہ کے رسول ﷺ نے واضح فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

((ما من مسلم يدعو الله - عز وجل - بدعوة ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاه الله بها إحدى ثلاث خصال: إمّا أن يعجل الله له دعوته، وإمّا أن يدخرها له في الآخرة، وإمّا أن يصرف عنه من السوء مثلها. قالوا: إذن نكثر. قال: الله أكثر))

"کوئی مسلمان جب اللہ عز وجل سے  دعا کرتا ہے جس میں کسی گناہ یا  قطع رحمی کی بات شامل نہ ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تین میں سے کوئی ایک کام کرتا ہے: یا تو اسی دنیا میں اس کی دعا قبول کرلیتا ہے، یا اس کے لیے اس دعا کو ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے، یا پھر اس کے مقابلے میں اس سے کوئی تکلیف ہٹا دیتا ہے، صحابہؓ نے عرض کی پھر تو ہم بہت زیادہ دعائیں مانگیں گے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ سب سے زیادہ دینے والا ہے"۔ 

 

نیزآپ ﷺ فرمایا:

 

((لا يزال يستجاب للعبد ما لم يدعُ بإثم أو قطيعة رحم ما لم يستعجل. قيل: يا رسول الله، وما الاسـتعجال؟ قال: يقول قد دعوت وقد دعوت فلم أرَ يستجاب لي فيتحسر عن ذلك ويدع الدعاء"))

"بندے کی دعا ہمیشہ قبول کی جاتی ہے جب تک کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ مانگے، اور جب تک وہ جلد بازی نہ کرے، عرض کیا گیا ،یا رسول اللہ ﷺ جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا : بندہ یہ کہےکہ میں نے تو بار بار دعائیں کیں مگر کوئی دعا قبول ہوتی نہیں دیکھی، اسی افسوس میں وہ دعا کرنا ہی چھوڑ دے"(مسلم 4918، ترمذی 3303)۔


اس کا مطلب ہے کہ دعا قبول ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ و ہ دنیا میں پوری ہو، بلکہ کبھی تو ایسا ہی ہوجاتا ہے  اور کبھی کبھار اللہ تعالیٰ دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا کر دعا کرنے والے کے لیےمحفوظ کرلیتا ہے،آخرت کا اجر بڑا اور ثواب بہت زیادہ ہے، یا پھر اس سے کوئی تکلیف ہٹا دیتا ہے۔


پس ہم اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں ، سو اگر ہم سچے ، مخلص اور فرمانبردار ہیں تو ہمیں دعا کے وقت اس کی قبولیت کا بھی یقین ہونا چاہیے ، قبولیت بھی انہی معنوں میں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ہے۔


5- دعا قبول کر لینے کے معنی یہ بھی نہیں کہ تقدیر میں کوئی تبدیلی کی جاتی ہے یا لوح محفوظ یا اللہ کے علم میں اس سے کوئی تبدیلی آجاتی ہے، یعنی قبولیتِ دعا کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی دعا کا علم تھا ،نہ ہی اس کی قبولیت کا، جس کا مطلب ہے کہ یہ لوح محفوظ میں نہیں لکھی ہوگی۔


اس بنا پر یہ نہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ایک بندے کی دعا قبول کرتا ہے جب کہ تقدیر میں تو کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی وہ تو ازل سےطے شدہ ہے، اور لوح محفوظ میں جو کچھ لکھاہے وہ بھی تو طے شدہ ہے،اور اس میں  ذرہ برابر کسی قسم کا تغیر اور تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔


اس لیے کہ دعا اور اس کی قبولیت کوئی نئی ایجاد نہیں کہ جس سے اللہ بے خبر  ہو، بلکہ یہ ایسا ہے کہ:
تقدیر( قدر) اللہ کا علم ہے یعنی لوح محفوظ پر لکھا ہوا۔ جو کچھ  بھی واقع ہوتا ہے وہ ازل سے لوح محفوظ پرمکتوب و مسطور ہے، پس اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فلاں آدمی اس سے دعا کرے گا ، پس اگر اللہ تعالیٰ نے اس دعاکی قبولیت کا فیصلہ کیا ہوا ہے  تو ایسا لکھا ہوتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں فلاں دعا کرے گا اور اس کی یہ دعا اِس اِس طرح پوری کی جائے گی، پس دعا کوئی نئی ایجاد نہیں جو اللہ کے علم  میں ہی نہ ہو یا لوح محفوظ میں لکھی ہوئی  نہ ہو۔ اسی طرح دعا کی قبولیت بلکہ جو کچھ بھی ہونے والا ہوتا ہے سب لوح محفوظ میں درج ہے، پس اللہ تعالیٰ غیب کو جانتا ہے اور جو بندہ کوئی بات یا کام  کرتا ہے وہ اسے بھی جانتا ہے، ازل سے ہر چیز پہلے ہی لکھی ہوئی ہے، تو بندے کی مانگی ہوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور وہ اسی طرح لکھی ہوئی ہوتی ہے جیسے وہ جانتا ہے، اس کی قبولیت جیسے اللہ سبحانہ چاہتا ہے وہ بھی ازل سے لکھی ہوئی محفوظ ہے۔


پس دعا اور قبولیت ِدعا  اللہ کے علم سے اوپر کی چیز نہیں  بلکہ یہ دونوں لوح محفوظ میں اسی شکل میں درج  ہیں جیسے کہ یہ ہونے والے ہوتے ہیں، کیونکہ اللہ عالم الغیب ہے:

 

( لاَ يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الأَرْضِ)

" آسمانوں اور زمینوں میں اس سے کوئی ذرہ برابر چھپا ہوا نہیں"(السباء:3)۔


6- اللہ تعالیٰ نے روزے کی آیات ذکر فرمائیں مگر ان کے درمیان دعا سے متعلق ارشاد فرمایا ،ایک ہی مضمون کے اندر کوئی دوسرا مضمون داخل کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی خاص امر کا اظہار مراد ہے، تو آیات صیام کے درمیان دعا کے ذکرمیں یہ حکمت ہے کہ ماہ رمضان میں دعا کی بڑی شان ہے اور یہ قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔  رمضان کا مہینہ خالص عبادت کا مہینہ ہے اور روزہ دار اپنے رب کے قریب ہوتا ہے، اور  اس کی دعا قبول کی  جاتی ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

 

(( ثلاثة لا ترد دعوتهم: الإمام العادل والصائم حتى يفطر ودعوة المظلوم يرفعها الله فوق الغمام يوم القيامة وتفتح لها أبواب السماء ويقول: بعزتي وجلالي لأنصرنك ولو بعد حين))

" تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے: ایک عادل حکمران دوسرا روزہ دار یہاں تک کہ وہ روزہ افطار کردے اور مظلوم کی دعا ، اللہ اسے بادلوں سے اوپر اٹھا لیتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ بعزتي وجلالي لأنصرنك ولو بعد حين: اپنی عزت و بزرگی کی قسم میں ضرور تیری مدد کروں گا خواہ کچھ دیر بعد ہو"

(ترمذی:3522جنہوں نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے، احمد 2/305)۔


پس دعا کا روزے والی آیتوں کے درمیان ذکر کرنا اس کی ترغیب پر دلالت کرتا ہے کہ ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کی جائیں ،نیز دعا کی فضیلت کا بیان بھی ہے اور قبولیت کی خوشخبری بھی، اللہ قریب اور قبول کرنے والا ہے۔    

 

Last modified onہفتہ, 29 دسمبر 2018 22:04

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک